پولیس افسر راؤ انوار ان دنوں میڈیا پر بہت رونق لگائے ہوئے ہے۔ شاید یہ کالم چھپنے تک گرفتاربھی ہوچکا ہو۔اس کے بعد کیا ہوگا اس سوال کا جواب میرے پاس موجود نہیں ۔گماں یہی ہے کہ نت نئے فسانے ڈھونڈتا میڈیا کچھ عرصے بعد اسے فراموش کردے گا۔ میڈیا کے ریڈار سے غائب ہو جانے کے چند دنوں بعد انوار کے وکلاء پولیس فورس میں موجود اس کے دوستوں کی مدد سے کچھ ایسے قانونی سقم دریافت کرلیں گے جو اس کی ضمانت ہونا آسان بنادیں گے۔گرفتار ہونے کے بعد وہ ایک بارضمانت پر رہا ہوگیا تو اس کے بعد کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک والا طولانی قصہ چل پڑے گا۔
ماورائے عدالت قتل مگر ہرگز نہیں رکیں گے۔ ریاست مشتبہ ٹھہرائے لوگوں کو غائب کرنے میں مصروف رہے گی۔ لوگوں کو ان کا قصور بتائے بغیر بلاوارنٹ گرفتاری کے اب تو ویسے بھی سوجواز موجود ہیں۔ قومی سلامتی اور دہشت گردی سے جڑے خدشات گھروں سے غائب ہوئے کئی افراد اور ان کے اہل خانہ اب تو ان کی بازیابی کی فریاد کرنے سے بھی گھبراتے ہیں۔ چند ماہ قبل ’’غائب‘‘ ہوئے بلاگرز کا قصہ تو آپ کو یاد ہوگا۔ وہ غائب ہوئے تو ان کے بارے میں کہانی یہ پھیلائی گئی کہ وہ جعلی ناموں سے سوشل میڈیا پر مذہب کی توہین میں مصروف تھے۔ چودھری نثار علی خان جیسا پنج وقت کا نمازی بطور وفاقی وزیرداخلہ اصرار کرتا رہا کہ ایسے کسی الزام کی کوئی تصدیق نہیں ہو پائی۔ بلاگرز گھروں کو لوٹ کر خاموش ہوگئے۔ اپنی جان کے تحفظ کی خاطر ان کے گھر والوں کو نئے مکان اور محلے ڈھونڈنا پڑے۔ ہماری ریاست کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ مختلف النوع مافیاز سے نجات کا قانونی ضوابط میں سے کوئی طریقہ نہیں ڈھونڈ پاتی۔ بالآخر تنگ آکر خود ’’مہا مافیا‘‘ کا چلن اختیار کرلیتی ہے۔ مرحوم نصیر اللہ بابر میرے ایک شفیق بزرگ بھی تھے۔ محترمہ کے دوسرے دور حکومت میں بہت ہی با اختیار وزیر داخلہ بنے ۔ ان دنوں کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے انہیں صاف الفاظ میں بتادیا کہ وہ پاک فوج کو کراچی کی سیاسی دلدل میں الجھانا نہیں چاہیں گے۔ سیاسی حکومت اپنے مسائل خود ہی حل کرے۔ بابر صاحب نے پولیس کو بے تحاشہ اختیارات دے کر چند دنوں میں کراچی کا امن’’بحال‘‘ کردیا۔ ’’امن بحالی‘‘ کے اس موسم میں مجھے کئی وجوہات کی بنیاد پر اکثر کراچی جانا پڑا تھا۔ بطور رپورٹر کئی ایسی کہانیاں معلوم ہوئیں جن کے مطابق پولیس کے چند افسر اپنے اختیارات کو مافیا کی صورت استعمال کرتے پائے گئے تھے۔ میں نے چند نام اور ان سے وابستہ کہانیوں کو مناسب Double Checkکے بعد بابر صاحب سے ملاقات کی درخواست کی بڑی پریشانی سے انہیں چند باتیں کچھ پولیس افسروں کے نام لے کر بتائیں وہ بے دلی سے میری گفتگو سنتے رہے اور بالآخر میری ’’بے وقوفی‘‘ کا مذاق اُڑاتے ہوئے انگریزی کا وہ محاورہ سنایا جو چور کو پکڑنے کے لئے Setting a Thiefکی تجویز دیتا ہے میں حیران ہوا گھر لوٹ آیا۔ اس ملاقات کے پسِ منظر میں جب ستمبر1996میں مرتضیٰ بھٹو کی پولیس Encounterمیں ہلاکت کی خبر آئی اسے سن کر غم سے مبہوت ضرور ہوا مگر حیران ہرگز نہیں ہوا۔
مرتضیٰ بھٹو کی Encounterکی بنا پر دکھائی ہلاکت نے پیپلز پارٹی کی جانب سے بااختیار صدر بنائے سردار فاروق خان لغاری کو بالآخر محترمہ کی دوسری حکومت برطرف کرنے کا حوصلہ بخشا۔ اس حکومت کو برطرف کرتے ہوئے انہوں نے جو چارج شیٹ پڑھی ’’کراچی کے ماورائے عدالت قتل‘‘ اس میں سرفہرست تھے۔ان کے احتساب کی مگر نوبت ہی نہ آئی۔ نئے انتخاب ہوئے تو ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ کے ساتھ نواز شریف دوبارہ اس ملک کے وزیراعظم بن گئے۔ سندھ کے ’’شہری‘‘ حلقے ایم کیو ایم نے جیت لئے۔ اس صوبے میں مخلوط حکومت بنی اسے حکیم سعید کے قتل کے بعد معطل کرنا پڑا۔
پھر نواز شریف بھی نہ رہے۔ جنرل مشرف آئے تو کراچی انہوں نے بخوشی ایم کیوایم کو Out Sourceکردیا۔ اس دور میں پولیس کے ان لوگوں کو چن چن کر مارا گیا جو نصیر اللہ بابر کی نگرانی میں چلائے آپریشن کے دوران Encountersکے حوالے سے مشہور ہوئے تھے ان ہلاکتوں کا ہمارے میڈیا میں کبھی ذکر تک نہیں ہوا۔ ہمیں مدہوش رکھنے کو بلکہ داستان یہ گھڑی گئی کہ جنرل نقوی کے ادارہ برائے قومی تعمیر نو نے پولیس اصلاحات کا بیڑا بھی اٹھا لیا ہے۔ ان ’’اصلاحات‘‘ کو مرتب کرنے میں اہم ترین کردار ایک ایسے پولیس افسر نے بھی ادا کیا جو کراچی کے ’’آپریشن کلین اپ‘‘ کے دوران بابر صاحب کے بہت چہیتے مانے جاتے تھے۔ اس افسر کے مداحوں کا خیال ہے کہ اس ملک کی طویل المدتی خیر کی خاطر اگر صاف ستھرے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بالآخر قائم ہوگئی تو وہ اس میں بھی اہم مقام حاصل کریں گے میری فکر مگر افراد کے بارے میں نہیں نظام کے بارے میں ہے۔ رائو انوار کی مسلسل مذمت بھی میری ترجیح نہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ہم بطور شہری واقعتا اس بات پر قائل ہوچکے ہیں کہ ہمارے ہاں افراد نہیں ادارے منظم و بااختیار ہوں۔ اداروں کو خودمختار بنادینا بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ انگریزی ہی کا ایک اور محاورہ ہمیں سمجھاتا ہے کہ Absolute Power Corrupts Absolutely۔ کسی بھی ادارے کو ’’مکمل خود مختاری‘‘ دینے کے بعد اس پر کسی نہ کسی انداز کا مؤثر Checkرکھنا بھی ضروری ہے۔ خود مختاری پر نگاہ رکھنے والا یہ نظام فقط اسی صورت ممکن ہے کہ شہریوں کے حقوق وفرائض کو واضح کرتا کھلے ذہن کے ساتھ کسی بھرپور مکالمے کا آغاز ہو۔ میڈیا کا پیدا کردہ ہیجانی Hype ایسے مکالمے کا متبادل نہیں۔ پولیس کو ’’فری ہینڈ‘‘ دینے کا مطالبہ نظر بظاہر بہت معقول نظر آتا ہے۔ نام نہاد ’’فری ہینڈ‘‘ ہی مگر راؤ انوار پیدا کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو روکنے کا کیا بندوبست ہو؟
( بشکریہ :روزنامہ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ