صحافی سیاست دان یا انٹیلی جنس ادارے اقتدار کے کھیل پر نگاہ رکھنے کو مجبور ہیں۔ ان کی اس کھیل سے دلچسپی ہم سب کے علم میں ہے۔ اسلام آباد میں لیکن ایسے افراد بھی رہائش پذیر ہیں جو مختلف کاروباری اداروں کو باخبر رکھنے کے لئے اس دھندے پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں۔شہرِ اقتدار کے پوش علاقوں میں مقیم یہ لوگ بڑے اور بارُعب مکانوں میں رہتے ہیں۔ان کے گھر کئی حوالوں سے رات گئے تک Open Houseکی صورت پُر رونق رہتے ہیں۔ خبروں کی تلاش میں قطعاََ جنونی ہوا میں کئی برسوں تک ان مکانوں میں سے اکثر کاچہیتا مہمان رہا۔ پھر جی اُکتا گیا۔ٹی وی نے رپورٹر کو اینکر بنادیا۔ خود کو عقلِ کل گردانتے ہوئے خبروں کی تلاش والی مشقت سے نجات پائی۔ بتدریج اینکری کا مزا بھی جاتا رہا۔ اب یہ جینا بھی کیا جینا ہے والا عالم ہے۔ گوشے میں قفس کے آرام کی عادت ہوگئی ہے۔صحافی سے مگر ’’خبر‘‘ کی طلب ہوتی ہے۔ دال دلیہ چلانے کے لئے کاہلی کو اب ترک کرنا ہوگا۔ ’’ذرائع‘‘ کو ازسرنو دریافت کرنے کی مجبوری لاحق ہوگئی ہے۔’’باخبر مکانوں‘‘ میں لیکن جانا ابھی تک شروع نہیں ہوپایا ہے۔ چند لوگوں سے ’’دعوت‘‘ کی طلب میں ٹیلی فونی رابطے بحال کئے ہیں۔ ان رابطوں کی بدولت چند ’’خبریں‘‘ ملیں۔ ارادہ تھا کہ انہیں آج کے کالم کے ذریعے آپ کی نذر کروں۔اس انتباہ کے ساتھ کہ میری دانست میں یہ ’’خبریں‘‘ نہیں خواہشات ہیں۔ محض گپ شپ۔’’خبر‘‘ کو خواہش ثابت کرتے ہوئے آج کا کالم لکھنے کی دیہاڑی لگالیتا۔ تھوڑی چسکہ فروشی ہوجاتی۔ ڈنگ ٹپالیا جاتا۔ بستر سے اُٹھ کر مگراخبارات کا پلندہ اٹھائے گھر کے مرکزی دروازے تک گیا تو اس ماہ ادائیگی کا مطالبہ کرنے والا سوئی گیس کا بل بھی موجود تھا۔ خوف کے مارے اسے دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ تھوڑی دیر میں لیکن یاد آگیا کہ جنوری اور فروری کے بلوں میں جو ہوشربااضافہ ہوا اس نے حکومت کو بھی پریشان کردیا تھا۔ کابینہ کا ایک اجلاس اس مسئلہ پر بحث مباحثہ کی نذر ہوا۔ اس کے اختتام پر ہمیں اطلاع یہ دی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو اعتبار آگیا ہے کہ صارفین کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ تحقیقات کا حکم ہوا۔ اس کے نتیجے میں مزید اطلاع یہ ملی کہ Slabsکے پیچیدہ نظام نے صارفین کو بلبلانے پر مجبور کردیا۔ 32لاکھ کے قریب گھرانے اس سے متاثر ہوئے۔ ان کی تشفی کے لئے ریلیف دینے کا وعدہ ہوا۔ریلیف کا وعدہ یاد آنے کی وجہ سے بل دیکھنے کی ہمت پیدا ہوگئی۔ ویسے یہ خیال بھی آیا کہ جنوری اور فروری کے بل ادا کرنے کے بعد گھر میں گیس کو احتیاط سے خرچ کرنے کی تلقین ہوتی رہی ہے۔ موسم بھی خوش گوار ہوگیا۔ ہیٹرکے استعمال میں کمی آئی۔ گیزر کی ضرورت بھی اکثر محسوس نہ ہوئی۔ اس ماہ کا بل شاید اتنا تکلیف دہ نہیں ہوگا۔جو رقم ادا کرنی ہے اسے دیکھ کر ماتھا پسینے سے بھیگ گیا۔گزشتہ ماہ کے بل کے مقابلے میں صرف چار ہزار روپے کم طلب کئے گئے تھے۔ Slabsکا چکر گویا ابھی تک چل رہا ہے۔ سوئی گیس والوں نے تین مہینے کا ’’سیزن‘‘ لگاکر اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے۔ آئندہ ماہ جو بل آئے گا وہ فقط قدرت کی مہربانی یعنی موسم میں تبدیلی کی وجہ سے قابل برداشت ہوجائے گا۔32لاکھ گھرانوں کا کوئی والی وارث نہیں بنا۔ تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ ان کی اکثریت نے 2018کے انتخابات کے دوران بہت اشتیاق سے ’’تبدیلی‘‘ کی راہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔سوئی گیس کے بل کو دیکھ کر دل میں اُٹھی ٹیس کو بھلانے کے لئے اخبارات کے پہلے صفحے پر نگاہ ڈالی تو پیٹرول کی قیمت میں ہوشربا اضافے کی کرب ناک خبر لیڈ سٹوری تھی۔ درمیان میں ایک قدرے غیر نمایاں انداز میں چھی خبر بھی تھی جس میں ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کو مزید ایک ماہ کی مہلت دے دی گئی ہے۔ٹیکس ریٹرن جمع کروانے والے مجھ ایسے بدنصیب عادتاََ یہ ذمہ داری حکومت کی اعلان کردہ پہلی ڈیڈ لائن ختم ہونے تک نبھادیتے ہیں۔اس ڈیڈ لائن کو زیادہ سے زیادہ نومبر تک کھینچا جاتا رہا ہے۔ غالباََ ملکی تاریخ میں پہلی بار یہ ڈیڈ لائن اپریل کے آخر تک بڑھادی گئی ہے۔ مئی میں نئے مالی سال کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ اپریل کے آخر تک ٹیکس کا کھاتہ مکمل کئے بغیر نیا بجٹ کیسے بنایا جائے گا۔ حکومت مگر حکومت ہوتی ہے۔ جو چاہے اس کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
Slabsسے جڑی اذیت کا مسلسل تیسرے ماہ بھی رواں رہنا اس بات کا واضح عندیہ دے رہا ہے کہ FBRبراہِ راست ٹیکسوں کے ذریعے اس مالی سال کے لئے طے شدہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہورہا ہے۔ ’’خسارے‘‘ کو لہذا Slabsجیسے ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے پورا کرنے کے لئے سوئی گیس والے اپنا حصہ ڈال چکے۔ گرمیوں کی آمد کے بعد اب پیٹرول کی باری ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے کا اصل فائدہ وفاقی حکومت کو ہوگا جو بقول وزیر اعظم کے اٹھارویں ترمیم کے اطلاق کے بعد ’’کنگال‘‘ ہوگئی ہے۔ پیٹرول کی نئی قیمت میں Federal Levyمیںاضافہ بھی شامل ہے۔ یہ اضافی رقم وفاقی حکومت کے کھاتے میں جائے گی۔ ٹیکس ریٹرن جمع ہونے کا انتظار ہوتا رہے گا۔پیٹرول،گیس اور بجلی کے صارفین سے مگر زیادہ سے زیادہ رقوم Indirect Taxesے ذریعے حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ریلیف کی امید نہ رکھیں۔ مہنگائی کی لہر مزید تیز ہوگی۔اسے برداشت کرنے کا حوصلہ بڑھانے کی تیاری کریں۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ