میری بیوی کام نہ کر رہی ہوتی اور نوائے وقت کی مدیر محترمہ رمیزہ نظامی میرا یہ کالم ہی نہیں بلکہ ”دی نیشن“ کے لئے قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں لکھی پریس گیلری شائع کرنے پر مصر نہ رہتیں تو عمران حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی پیمرا کے لائسنس تلے چلائے ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر بین ہو جانے کے بعد میرا زندہ رہنا دشوار سے دشوار تر ہوجاتا۔ ربّ کے کرم سے مشکل کے دن سفید پوشی کا بھرم برقرار رکھتے ہوئے گزار لیے۔ اپنے پر آئی تکالیف کے باوجود عمران حکومت ختم ہو جانے کے بعد بھی اس کے اندازِ سیاست کا اسی سوچ اور نگاہ سے جائزہ لیتا ہوں جو تحریک انصاف کے قیام سے اپنائے رکھا ہے۔ لوگوں کے برے دنوں میں ان کے ساتھ ”حساب برابر“ کرنے کی عادت ہی نہیں۔
تحریک انصاف ان دنوں مشکل ترین حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ اس کے بانی اور کرشمہ ساز قائد گزشتہ دو برس سے جیل میں ہیں۔ ان کی عدم موجودگی میں یہ جماعت رہ نماؤں کا ایسا گروہ تیار نہیں کر پائی جس پر عاشقانِ عمران اعتماد کریں۔ سوشل میڈیا نے انہیں انتہا پسندی ہی سکھائی ہے سیاست جبکہ ”درمیانی راہ“ ڈھونڈنے کا تقاضا کرتی ہے۔ مصلحت کو مگر غداری یا منافقت کے مساوی ٹھہرا دیا جائے تو سیاسی جماعتوں کے لئے آفتوں کے دور میں خود کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
سوشل میڈیا کی عادی نام نہاد۔ z Genکوشاید علم نہ ہو کہ تاریخ میں لینن نام کا بھی ایک انقلابی گزرا ہے۔ روس میں سوشلسٹ انقلاب اس کی سوچ کی بدولت ممکن ہوا۔ انقلابی حکومت قائم ہوئی تو اس کی بنائی جماعت کے کارکن یہ تقاضا کرنا شروع ہو گئے کہ ”پرانے نظام“ سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کو ”عبرت کا نشان“ بنا دیا جائے۔ انہیں انگریزی محاورے والی شٹ اپ کال دینے کے لئے لینن نے ایک مضمون لکھا۔ اسے ”بائیں بازو کا طفلانہ پن“ کا عنوان دیا۔ انتہا پسندی اس مضمون کے مطابق متوسط طبقے کے دلوں میں نا امیدی اور زندگی کی مشکلات کی بدولت جمع ہوئے غصے اور پریشانی کا مظہر ہوتی ہے۔ خود کو ”عقل کل“ سمجھتے ہوئے یہ طبقہ دوسروں پر الزام تراشی سے درحقیقت اپنے کنفیوز ذہن کو تسلی دے رہا ہوتا ہے۔
تحریک انصاف پاکستان کی پہلی جماعت ہے جس نے سوشل میڈیا کے ہر پلیٹ فارم کو متحرک کرتے ہوئے متوسط طبقے کے نوجوانوں تک اپنا پیغام پہنچایا۔ پڑھی لکھی خواتین کی کثیر تعداد کو بھی سیاسی میدان میں موثر کردار ادا کرنے کو مائل کیا۔ سوشل میڈیا پر انحصار نے مگر اس جماعت کے حامیوں کی بے پناہ اکثریت کو یہ سوچ اپنانے کو اکسایا کہ جو شخص بھی ان کی جماعت کا حامی نہیں وہ ”بکاؤ“ ہے۔ وطن سے وفادار نہیں۔ ”چور اور لٹیرا“ ہے۔ ”اقتدار میں باریاں لینے والے چوروں اور لٹیروں“ کی مسلسل مزاحمت کی بدولت تحریک انصاف بالآخر 2018 ء میں اقتدار تک پہنچ گئی۔ اسے وہاں پہنچانے میں ریاست کے اس طاقتور ادارے نے بھی کلیدی کردار ادا کیا جو آج تحریک انصاف کی کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ”ایک پیج“ کے تذکرے ہوتے رہے۔ بالآخر اکتوبر 2021 ء آ گیا۔ قمر جاوید باجوہ کا دل اپنے عہدے کی میعاد میں تین سال کے اضافے کے حصول کے بعد بھی مطمئن محسوس نہیں کر رہا تھا۔ موصوف وطن کی مزید خدمت کرنے کو بے تاب تھے۔ عمران خان مگر ”ایک پیج“ کی حدوں سے بالاتر ہونا چاہ رہے تھے۔ ان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے لئے لہٰذا ایک محلاتی سازش تیار ہوئی۔ اس کالم میں اس محلاتی سازش کا نہ صرف مستقل ذکر رہا بلکہ اس کی اشاروں کنایوں میں مخالفت بھی ہوتی رہی۔
ماضی کو بھلا کر مگر تیزی سے حال کی جانب لوٹتے ہیں۔ اپنی رہائی کے لئے عمران خان 5 اگست 2025 ء کے روز ”آر یا پار“ جیسی جوشیلی تحریک کے متمنی تھے۔ یہ دن آنے سے قبل ہی مگر 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے تحریک انصاف کے 14 کے قریب اراکین قومی و پنجاب اسمبلی اور سینٹ فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے دس سال کی سزا سنائے جانے کی وجہ سے منتخب ایوانوں میں بیٹھنے کے ”نا اہل“ قرار دے دیے گئے۔ جو فیصلہ آیا اس نے تحریک انصاف کی (اب تک) جیل سے باہر رہی قیادت کے لئے سو طرح کے سوالات اٹھا دیے۔ 5 اگست کو آر یا پار والی تحریک کی تیاری کے بجائے وہ اپنے ذہن میں ابلتے سوالات کے جوابات ڈھونڈنے میں مصروف ہو گئے۔
الیکشن کمیشن کے ہاتھوں نا اہل ہوئے منتخب اراکین کے خلاف فیصل آباد کی عدالت سے جو فیصلہ آیا ہے اسے غور سے پڑھتے ہوئے مجھ جیسا قانون سے نابلد شخص بھی کئی جھول ڈھونڈنے میں کامیاب رہا۔ ان پر غور کرتے ہوئے دل میں خیال آیا کہ ہائی کورٹ میں اگر نا اہل ہوئے اراکین نے مذکورہ فیصلہ کے خلاف موثر قانونی دلائل کے ساتھ اپیل دائر کردی تو شاید ان کو سنائی سزائیں برقرار نہ رہیں۔
مذکورہ امید کے باوجود تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہائی کورٹ سے ریلیف لینے کے لئے سزا یافتہ اور نا اہل ہوئے اراکین کے لئے لازمی ہے کہ وہ خود کو ”قانون“ کے آگے سرنڈر کریں۔ سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے لئے سزا یافتہ اور نا اہل ہوئے رکن قومی اسمبلی وغیرہ کو اصالتاً عدالت کے روبرو پیش ہونا ہو گا۔ اس بات کی مگر کوئی گارنٹی نہیں کہ عدالت کے روبرو پیشی کے روز ہی ان کو ضمانت مل جائے اور ان کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ بھی ”معطل“ قرار دیا جائے۔ 26 ویں ترمیم کے بعد ہماری عدالتیں اب افتخار چودھری، ثاقب نثار اور عمر بندیال جیسے ”جی دار“ ججوں سے تقریباً محروم ہو چکی ہیں۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے مثال کے طور پر محترمہ زرتاج گل وزیر کو سو بار سوچ کر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ خود کو قانون کے آگے ”سرنڈر“ کرنے کے بعد نجانے کتنے مہینوں یا برسوں کے لئے جیل چلی جائیں یا ”اچھے دنوں“ کے انتظار میں روپوشی اختیار کر لیں۔ جو مثال میں نے آپ کے روبرو رکھی ہے وہ ہر حوالے سے ٹھوس اور سخت فیصلوں کی متقاضی ہے۔
تحریک انصاف کا ہر وہ رہ نما جو فیصل آباد کی عدالت سے سزا سنائے جانے کی وجہ سے نا اہل ہوا ہے یہ سوچنے کو بھی مجبور ہے کہ وہ اپنے قائد جیسا بین الاقوامی طور پر مشہور شخص نہیں۔ اس کے سامنے شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی مثالیں بھی ہیں جو کئی مہینوں سے لاہور کی کوٹ لکھ پت جیل میں قید ہیں۔ ان کے خلاف مقدمات جیل ہی میں چلے۔ ان افراد کا ذکر میڈیا میں شاذہی ہوتا ہے۔ ان کے قریب ترین عزیزوں اور دوستوں کے علاوہ ان سے ملاقات کے لئے تحریک انصاف کے کئی خود ساختہ ”فدائین“ بھی نہیں جاتے۔ ان کی مثال ذہن میں رکھتے ہوئے شبلی فراز ہوں یا محترمہ زرتاج گل یہ سوچنے کو مجبور ہوں گے کہ انہیں آنے والے کم از کم دو برس جیل کی تکالیف کے لئے وقف کرنے چاہئیں یا نہیں۔ بدھ کی صبح تک جو خبریں مجھ تک پہنچی ہیں وہ عندیہ دے رہی تھیں کہ سزا یافتہ قرار پانے کے بعد نا اہل ہوئے افراد میں سے فقط قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے (سابق) رہ نما عمر ایوب خان ہی پشاور ہائی کورٹ سے ”حفاظتی ضمانت“ کے حصول کے بعد خود کو ”قانون کے آگے سرنڈر“ کرنا چاہ رہے ہیں۔ باقی افراد گومگو کی حالت میں ہیں۔ بدھ کی دوپہر تک مگر حالات بدل گئے۔
جائز وجوہات کی بنا پر ”گومگو“ کی حالت میں گرفتار تحریک انصاف کے قائدین کو 5 اگست کا جلوہ نہ دکھانے کا ذمہ دار ٹھہرانا میری دانست میں زیادتی ہے۔ یہ رہ نما مگر تحریک انصاف کے عام حامیوں کی بے پناہ اکثریت کی جانب سے سوشل میڈیا پر اگر ”غدار“ نہیں تو نکمّے ضرور پکارے جا رہے ہیں۔ میں نہایت خلوص سے ایسے رہ نماؤں کے دلوں میں پلتے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں۔ برے وقت میں ڈٹ کر کھڑے ہونے کے علاوہ مگر ان کے پاس اپنی سیاسی بقاء یقینی بنانے کے سوا اور کوئی راستہ بچا بھی نہیں ہے۔
بشکریہ نوائے وقت