ایک ملاقات کی حکایت اور اس کی تردید قومی منظر نامہ پر یوں چھائی ہے کہ باقی سب معاملات پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پاکستان اور اس کے باسیوں کے پاس کرنے کا کوئی کام نہیں ہے۔ مسائل حل ہوچکے ہیں۔ راوی چین کی بانسری بجاتا ہے۔ فارغ بیٹھی قوم گریبان پھاڑا اور سیا کر کے مصداق کبھی ایک کالم پر سردھنتی ہے اور کبھی تردید آنے پر پیالی میں طوفان جیسی کیفیت پیدا کی جاتی ہے۔
بدقسمتی یہ ہے پاکستان ایک ملک ہے، چائے کی پیالی نہیں ہے۔ اس ملک میں پچیس کروڑ نفوس آباد ہیں جن کے دن رات بے پناہ مسائل سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے میں کسی کی معافی ، کسی سے مصالحت، جنت دوزخ کے فتوے یا صحافی کی کردار کشی ، ملک کو درپیش مسائل حل نہیں کرسکتی۔ حیرت انگیز طور پر اس بنیادی سچائی کو بھلا کر قوم کی مزاج سازی یا نمائیندگی کا دعویٰ کرنے والے سارے عناصر ایک ہی طرح کے جوش و خروش سے اصولوں کو زیر بحث لانے، مسائل کا ذکر کرنے یا عوام کی تکلیفوں کا احاطہ کرنے کی بجائے ایک تحریر اور اس کی تردید کو یوں اچھال رہے ہیں کہ اگر یہ معاملہ طے ہوگیا تو قوم کو سب دکھوں سے نجات مل جائے گی۔ کثیر آبادی اور محدود وسائل والے ملک کے مسائل کا آسان ترین پرچہ ترکیب استعمال یوں ترتیب پایاہے کہ یہ بحث کی جائے کہ صحافی جھوٹا ہے یا آئی ایس پی آر کے سربراہ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ معافی ہوسکتی ہے یا معافی نہیں ہوسکتی۔ یہ سوچنے تک کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی کہ جس پارٹی یا لیڈر کی معافی کے حوالے سے یہ سارا طوفان بپا کیا جارہا ہے، اس کی طرف سے معافی کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی۔ شاید ایسے ہی مباحث کے لیے ہوا میں تلوار چلانےکی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔
حکومتی عہدیداروں کے بلندبانگ دعوؤں سے قطع نظر پاکستان اس وقت بارشوں اور سیلاب کی ہولناکی سے نبرد آزما ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر لوگ مررہے ہیں یا ان کے گھر و املاک تباہ ہورہی ہیں۔ ایک غریب خاندان کا گھر پانی میں بہہ جائے یا کاروبار کا ٹھکانہ تباہ ہوجائے تو اس کی زندگی کے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس سیاسی لیڈروں کے وعدے اور سرکاری عہدیداروں کے ہتھکنڈے ہی رہ جاتے ہیں جو بدقسمتی سے پیٹ بھرنے کے کام نہیں آتے۔ اگر وزیر اعظم کی تقریروں اور وزیروں کے بیانات سے سیلاب زدگان کے مسئلے حل ہوسکتے تو شاہد وہ یہی دعا کر تے کہ ’اللہ ایسا سیلاب تو سب کو دے‘۔ لیکن بونیر سے کراچی تک بپا ہونے والی اس قدرتی آفت کے سامنے جن لوگوں کو یا اتھاریٹیز کو بند باندھنا تھا، انہیں اسی وقت ہوش آتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد صرف تقریروں کا وقت باقی رہ جاتا ہے یا ہیلی کاپٹروں کے ذریعے متاثرین کے ساتھ تصویریں اتروا کر سرکاری ہینڈ آؤٹس کی زینت میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ملک کی کوئی سیاسی پارٹی ، کوئی ایسی سماجی تنظیم بھی منظم نہیں کرسکی جو اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کی مدد کرسکے اور کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسی لیے ان سب تنظیموں کے سکریٹریٹ پرانے بیانات کو نئی شان و شوکت سے جاری کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اقتدار پر قابض عزم کا اظہار کرتے ہوئے اور مخالفین حکومت کی نااہلی اور بدعنوانی کا انکشاف کرنے کے لیے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن دہائیوں میں پاکستانی لیڈروں کا یہ رویہ تبدیل نہیں ہوسکا۔
کوئی ذمہ دار سامنے آکر اس سوال کا جواب بھی نہیں دے سکے گا کہ جب ہر سال ساون بھادوں میں بارشیں اور سیلاب کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ بھاری بھر کم حکومتی مشینری کیوں اس کی پیش بندی کے لیے پہلے سے انتظامات نہیں کرپاتی۔ عوام کو کیوں ان علاقوں سے محفوظ جگہوں پر منتقل ہونے کا مشورہ اور مدد نہیں دی جاتی ۔ سیلاب کے اچانک پانی کو مینیج کرنے کی کوئی مستحکم و پائدار منصوبہ بندی کیوں نہیں کی جاسکتی؟ اگر موسمی تبدیلیاں زندگی کا حصہ بن چکی ہیں تو ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے لوگوں کو تیار کرنے کی ذمہ دار ی کون اٹھائے گا؟ کیا وجہ ہے کہ ہر سال سیلاب آتا ہے تو فوج ہی کو امدادی سرگرمیوں کی ذمہ داری پورا کرنا پڑتی ہے اور سیاست دان ’ناگہانی آفت‘ کا ورد کرتے ہوئے بیان بازی کا سلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ جس نظم حکومت میں سول انتظامیہ خواہ وہ سیاسی لیڈر ہوں یا سرکاری افسر و ملازمین ، کسی آفت میں لوگوں کو بچانے اور بحالی کا کام کرنے کے قابل بھی نہ ہوسکے ہوں ، تو اس سے کسی دوسری اصلاح کی امید کیسے کی جاسکتی ہے۔
مثال کے طور پر اسی ایک نکتہ کو لے لیا جائے کہ ملک کا آئین منتخب لوگوں کو فیصلے کرنے اور انتظامات چلانے کا اختیار دیتا ہے۔ عسکری لیڈروں کو صرف ملکی دفاع کی طرف توجہ دینی چاہئے اور سول معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ ملک میں سیلاب کی صورت حال پر نگاہ ڈالتے ہوئے فطری طور سے پوچھا جاسکتا ہے کہ جو سول ڈھانچہ ایک وقتی صورت حال سے نمٹنے کے لئے بھی تیار نہیں ہوپاتا ، وہ بڑے منصوبوں مثلاً فوج کو بیرکوں تک محدود رہنے کا مشورہ دینے جیسا حوصلہ و صلاحیت کہاں سے لائے گا۔ حق بات تو یہ ہے کہ ملک کا کوئی سیاسی لیڈر بھی سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ اعلان نہیں کرسکتا کہ وہ فوج کے بغیر ملک چلانے کا حامی ہے اور اسی ایک نکتے پر سیاسی فیصلے مانے گا۔ یادش بخیر نواز شریف نے 2017 میں عدالتوں اور جے آئی ٹی میں رسوا ہونے کے بعد ’مجھے کیوں نکالا‘ کے بعد عوامی حکمرانی اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کانعرہ لگایا تھا لیکن اب وہ خود ہی اپنے بھائی کے ہاتھوں انہی عوام کے ووٹوں کی مٹی پلیدہوتے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح عمران خان اس وقت عتاب کا شکار ہیں کیوں کہ ایک پیج والوں نے انہیں اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کردیا ہے۔ اب انہیں ’حقیقی جمہوریت‘ درکار ہے۔ لیکن اس حقیقی جمہوریت کے لیے جس حکمت، منصوبہ بندی اور جذبے کی ضرورت ہے وہ ہنوز ناپید ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں بھارتی حملے کا مقابلہ کیا ہے۔ جنگی معاملات کی براہ راست نگرانی کرنے والے چند لوگوں کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ ان چار روزہ جھڑپوں میں کتنا نقصان ہؤا اور ملکی معیشت کو اس جنگ کی وجہ سے کتنا زیر بار ہونا پڑا۔ قوم کو نعروں اور قوت ایمانی سے چلانے والے عناصر ایسے حساب کتاب کو ایمان کی کمزوری سمجھتے ہیں۔ اور معاملات کے نگرانوں کو ویسے ہی ’حساب دینے‘ جیسی اصطلاحات سے چڑ ہے۔ اس لیے پاکستانی عوام کو کبھی پتہ نہیں چل سکے گا کہ جب روٹی کی قیمت میں یک بیک ایک روپے کا اضافہ ہوجائے تو اس میں سے کتنے پیسے جنگی مصارف پورے کرنے کے لیے درکار ہوں گے۔ مئی میں ہونے والی انہی جھڑپوں کا نتیجہ ہے کہ فوج کو مسلسل مستعد رہنا پڑ رہا ہے کیوں کہ بھارت کی طرف سے اعلان جنگ واپس نہیں لیا گیا۔
نئی دہلی سے آنے والے تمام حکومتی بیانات واضح کررہے ہیں کہ ’آپریشن سندور‘ روکا گیا ہے ، ختم نہیں کیا گیا۔ اس دھمکی کا مقابلہ کرنے کی تیاری پر قومی خزانہ کتنا زیر بار ہورہا ہے؟ پاکستان میں ایسے ’حساس‘ معاملات کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کا رواج نہیں ہے ۔کیوں کہ یہ پلیٹ فارم تو ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے اور سازشیں کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جنگ مسلط رکھنے کے علاوہ نئی دہلی نے سندھ طاس معاہدے کو مسلسل معطل رکھا ہے۔ یہ بھی جنگ جاری رکھنے کا اعلان ہی ہے۔ بھارت خواہ پاکستان کا پانی روکنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو لیکن جب بیان کی حد تک ایک ملک کہہ رہا ہے کہ پاکستان کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ملے گا کیوں کہ 65 سال پہلے ہونے والا معاہدہ ’غیر منصفانہ ‘ تھا، تو پوچھنا چاہئے کہ پاکستانی حکومت نعروں کے علاوہ اس مسئلہ سے نمٹنے کی کیا تیاری کررہی ہے؟
بھارت نے چند برس بعد اگر واقعی پاکستان کا پانی بند کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی تو ایک کالم اور اس کی تردید پر ہونے والی بحث کیا پاکستان میں قحط سالی کا مقابلہ کرنے کے لیے کافی ہوگی؟
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ

