اپنے یوٹیوب چینل پررضی دادا ہمارے ہاں کی چند قومیتوں کے بارے میں جو زبان استعمال کرتے رہے ہیں وہ مجھے کبھی پسند نہیں آئی۔ خوف فساد خلق صحافی کو ایسی زبان استعمال کرنے سے ہمیشہ روکتا ہے۔ یوٹیوب مگر غیر روایتی صحافت کا نمائندہ ہے۔ یہ فرد کو اس کی کسی بھی معاملے پر رائے کا کھل کر اظہار کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کرنے کا دعوے دار ہے۔ ’’آزادی اظہار‘‘ کے مذکورہ پلیٹ فارم پر مگر ’’نفرت‘‘ ہی بکتی ہے اور اس کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کو حال ہی میں امریکہ میں قتل ہوئے ایک ’’ذہن ساز‘‘ کی مقبولیت کا جائزہ لینا ہوگا۔ 31سال کی عمر میں ہی وہ امریکہ کے تقریباََ ہر گھر میں جانا جاتا تھا۔ تارکین وطن اور اسلام سے نفرت کے علاوہ وہ مسیحی مذہب سے کٹر وابستگی کے نام پر عورت اور مرد کے مابین ویسے ہی تخصیص برقرار رکھنے کو بے قرار تھا جو اس کی دانست میں مذہب کے علاوہ امریکی ریاست کے بانی بھی محسوس کرتے تھے۔ اپنے کٹر نظریات کو کھل کر بیان کرنے کی وجہ سے مگر قتل ہوگیا۔ رضی دادا کے ریمارکس سن کر مجھے بھی اس کے بارے میں اکثر فکر مندی محسوس ہوتی ہے۔ موصوف سے سرسری شناسائی ہے دوستی نہیں وگرنہ سختی سے انہیں اپنا رویہ تبدیل کرنے کے لئے دباؤ بڑھاتا۔
حال ہی میں انہوں نے اپنے ایک یوٹیوب شو میں ہمارے ہاں کی ایک قومیت کے بارے میں چند منفی الفاظ اشتعال دلانے والے انداز میں ادا کئے۔ یوٹیوب پر مذکورہ شو لوڈ ہوجانے کے بعد مگر انہوں نے معذرت کا اظہار بھی کیا اور وضاحت پیش کی کہ وہ اپنے ادا کردہ ریمارکس اپ لوڈ نہیں کرنا چاہ رہے تھے مگر ایک غیر تربیت یافتہ وڈیوایڈیٹر ان کی ہدایات پر عمل کرنے میں ناکام رہا۔ مذکورہ وضاحت کے باوجود رضی دادا کو پی ٹی وی نے نوکری سے فارغ کردیا۔ اب ان کے رزق کا واحد وسیلہ شاید یوٹیوب ہی ہے۔ سینٹ کی پارلیمانی کمیٹی مگر انہیں اس سے بھی محروم کرنا چاہ رہی ہے۔
پارلیمانی کمیٹی کی جو خواہش ہے اس کی حمایت یا مخالفت میں بحث ہوسکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر لیکن ایک تصویر وائرل ہے جہاں رضی دادا مذکورہ کمیٹی کے روبرو فلمی گانے کے ’’گناہ کار کی طرح‘‘ کھڑے ہوئے معذرت کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کی معذرت کو مگر قبولیت نظر بظاہر نصیب نہیں ہوئی ہے۔ دیکھنا اب یہ ہوگا کہ پارلیمانی کمیٹی یوٹیوب کو بھی ان کا چینل بند کرنے کو قائل کرسکتی ہے یا نہیں۔
رضی دادا کے ساتھ پارلیمانی کمیٹی کے ہاتھوں جو سلوک ہوا اس کے بارے میں شاید یہ کالم لکھنے کی میں ضرورت ہی محسوس نہ کرتا۔ منگل کی صبح مگر سوشل میڈیا کا پھیرا لگاکر اخبارات کا پلندہ اٹھایا تو انگریزی کے موقر روزنامہ ’’ڈان‘‘ کے صفحہ اوّل پر نگاہ پڑگئی۔ وہاں نمایاں انداز میں ایک خبر چھپی تھی جس میں آڈیٹر جنرل کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کا ذکر تھا۔ یہ رپورٹ 2024-25ء کے مالیاتی سال کے بارے میں مرتب ہوجانے کے بعد پارلیمان کے روبرو بھی پیش کردی گئی تھی۔ رواں برس کے اگست میں جاری ہوئی اس رپورٹ کا خلاصہ تھا کہ مذکورہ برس کے دوران حکومتی اخراجات میں 376کھرب(ارب نہیں) روپوں کا گھپلا ہوا ہے۔ یاد رہے کہ جو رقم بتائی گئی وہ ہماری مجموعی قومی پیداوار سے تین گنا زیادہ تھی۔ 2024-25ء کے مالیاتی سال کے دوران جن اہم ’’گھپلوں‘‘ کی مذکورہ رپورٹ میں نشاندہی ہوئی ان کے اعدادو شمار کو یکجا کریں تو ان کا حجم ہمارے قومی خزانے کے حجم سے کہیں زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ اس حقیقت کو جب چند صحافیوں نے عیاں کیا تو سابق آڈیٹر جنرل اپنی تیار کردہ رپورٹ کی حمایت میں ڈٹ گئے۔ ان کے محکمے نے البتہ ان کا ساتھ نہیں دیا۔ موصوف کو بالآخر ان کے عہدے سے ہٹانا پڑا۔ ان کی جگہ اب مقبول احمد گوندل صاحب چار سال کے لئے آڈیٹر جنرل کے عہدے پر تعینات ہوئے ہیں۔ عہدہ سنبھالتے ہی ان کے محکمہ کی جانب سے ویب سائٹ پر چند وضاحتیں پیش کردی گئیں۔ بنیادی طورپر "TYPO”یعنی ٹائپ کرنے کے دوران ’’اتفاقاََ‘‘ ہوجانے والی غلطیوں کو گزشتہ آڈٹ رپورٹ میں نمایاں ہوئی فاش غلطیوں کا ذمہ دار ٹھہراکر جان چھڑالی گئی ہے۔
بارہا اس کالم میں کئی برس سے یہ حقیقت دہراتے ہوئے اب تھکنے کے بعد اْکتاناشروع ہوگیا ہوں کہ پارلیمان کا قیام بنیادی طورپر اس سوچ کی بنیاد پر ہوا تھا کہ رائے عامہ اپنے نمائندوں کے بغیر بادشاہوں کو من مانے انداز میں رعایاپر ٹیکس عائد کرنے کی اجازت دینے کو آمادہ نہیں تھی۔ ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں جس کا کلیدی نعرہ (No Taxation Without Representation)تھا منتخب پارلیمان کا بالآخرقیام عمل میں آیا۔ اس کی بدولت عوام کے منتخب کردہ افراد کو عوام پر ٹیکس لاگو کرنے کا اختیار منتقل ہوا۔ بات مگر اس اختیار تک ہی محدود نہ رہی۔ پارلیمان ہی سے پبلک اکاؤ نٹس کمیٹی کے نام سے ایک اور ادارے نے بھی جنم لیا۔ یہ کمیٹی مالیاتی سال ختم ہوجانے کے بعد حکومت ہی کے لگائے آڈیٹر جنرل کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کا بغور جائزہ لیتے ہوئے یہ پتہ لگانے کی کوشش کرتی ہے کہ عوام سے لئے ٹیکسوں کو حکومت کے مختلف محکموں نے کس انداز میں خرچ کیا ہے۔ مذکورہ خرچ کے دوران ہوئی غلطیوں کی نشاندہی بھی اسی رپورٹ میں کردی جاتی ہے۔
کسی بھی محکمے کی جانب سے نامناسب انداز میں خرچ ہوئی رقوم پر آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں پارلیمان میں پیش ہو جائیں تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں متعلقہ محکموں کے افسران کو طلب کرنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش ہوتی ہے کہ آڈیٹر جنرل کے اٹھائے اعتراضات واجب ہیں یا نہیں۔
ہمارے ہاں مگر ایسا نہیں ہوا۔ سابق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں 2024-25ء کے مالیاتی سال کے بارے میں جو اعتراضات اٹھائے گئے تھے ان کے اعدادو شمار میں فاش غلطیوں کی نشان دہی پارلیمان کے کسی رکن نے نہیں بلکہ معاشی امور پر نگاہ رکھنے والے چند صحافیوں نے کی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی سربراہی ان دنوں تحریک انصاف کے نامزد کردہ جنید اکبر صاحب کے پاس تھی۔ عمران خان نے اس عہدے سے مستعفی ہونے کا حکم دیا تو انہوں نے فوراََ تعمیل کردی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی اگرچہ اپنی جگہ موجود ہے۔ اس کے سربراہ اب پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر ہیں۔ میری ان سے درخواست ہے کہ جلد ازجلد پبلک اکا?نٹس کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جائے اور ہم بدنصیب رعایا کو بتایا جائے کہ ڈیجیٹلائز اور مصنوعی ذہانت سے طاقت ور ہوئے کمپیوٹر ’’ٹائپو‘‘کے ذریعے سرزد ہوئی ان غلطیوں کی نشان دہی کیوں نہ کر پائے جو پاکستان کی موجودہ مالی استطاعت کے تناظر میں ممکن ہی نہیں تھیں۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آڈٹ اینڈ اکائونٹس حکومت پاکستان کے اہم ترین اداروں میں شامل ہے۔ اس کے افسر سی ایس ایس کے امتحان کی بدولت چنے جاتے ہیں۔ سی ایس ایس کی چھلنی سے گزرے افسران کے ہجوم میں سے ایک افسر بھی ان فاش غلطیوں کا سراغ کیوں نہ لگاپایا جو چند صحافیوں نے پہلی نظر ڈالتے ہی دیکھ لی تھیں۔ ہماری پارلیمانی کمیٹیوں کو رضی دادا جیسے کمزوروں پر ہی غصہ کیوں آتا ہے؟