پشاور : خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی کشیدگی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس دوران مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 100 سے بڑھ گئی ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے سُنی اور شیعہ قبائل کے درمیان لاشوں اور قیدیوں کی واپسی کی غرض سے سیزفائر کے اعلان کے باوجود مخالف گروہوں میں مختلف مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ فریقین نے لاشوں اور قیدیوں کو واپس کرنے کے علاوہ سات روزہ سیز فائر پر اتفاق کیا ہے تاہم مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ مختلف قبائل کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔طبی حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے ان واقعات میں مزید دو افراد ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ جمعرات کی دوپہر لگ بھگ 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہونے والے حملے کا ایک اور زخمی بھی دم توڑ گیا ہے جس سے اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 52 ہو گئی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کے بعد ایک ہفتے میں حملوں اور فرقہ وارانہ تشدد میں مرنے والوں کی تعداد 102 ہو گئی ہے جبکہ 138 افراد زخمی ہیں۔ضلع کرم میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے جبکہ علاقے کی مرکزی شاہراہیں اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔
ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کا کہنا ہے کہ قیامِ امن کے لیے مختلف اقدامات جاری ہیں اور گرینڈ امن جرگہ مذاکرات کے لیے علاقے میں بھیجا جا رہا ہے۔اس سے قبل سیزفائر کے اعلان کے باوجود اتوار کی شب علی زئی اور بگن کے علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاعات ملی تھی جبکہ صدہ ہسپتال میں ایک ہلاک اور تین زخمی لائے گئے تھے۔ایک پولیس اہلکار کے مطابق علاقے میں حالات مکمل معمول پر نہیں ہیں اور ایک بے یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔
بگن کے مقامی شہری شاہین گل نے بی بی سی کو بتایا کہ فی الحال علاقے میں سخت خوف پایا جاتا ہے اور بگن کا بازار لگ بھگ مکمل تباہ ہو گیا ہے۔ صدہ کے ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر رحیم کے مطابق اتوار کی شب ان کے ہسپتال میں مزید لاش اور تین زخمی لائے گئے ہیں جبکہ مختلف علاقوں سے پیر کی صبح بھی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ جب اُن سے جب پوچھا کہ علی زئی اور دیگر قریبی بنیادی صحت مراکز میں کیا صورتحال ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ علاقے میں موبائل فون سروس مکمل بحال نہ ہونے کی وجہ سے رابطے نہیں ہو پا رہے ہیں۔
دوسری جانب ایک حکومتی وفد گزشتہ دو روز سے کرم میں موجود دونوں مخالف دھڑوں کے قائدین سے تفصیلی ملاقاتوں میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔کرم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی ساجد طوری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خود اس وفد میں شامل تھے جس میں صوبائی وزیر آفتاب عالم، صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف ، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور انسپکٹر جنرل پولیس سمیت دیگر انتظامی افسران شامل تھے۔
انھوں نے بتایا کہ ملاقاتوں کے دوران دونوں جانب سے گلے شکوے کیے گئے لیکن وفد نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا جسے اہل تشیع نے قبول کیا اور اس کے بعد وفد اہل سنت کے عمائدین کے پاس گئے اور وہاں بھی گلے شکوے تھے لیکن وہ بھی جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔
جب ان سے کل رات ہونے والی فائرنگ اور جھڑپوں کی اطلاعات سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ جس شدت سے پہلے فائرنگ اور بھاری اسلحہ استعمال ہو رہا تھا، اب ویسی صورتحال نہیں ہے۔ ’چھوٹے ہتھیاروں سے ضرور فائرنگ ہوئی ہو گی لیکن کسی بڑے نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔‘ساجد طوری نے بتایا کہ فریقین یرغمال افراد اور لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق مجموعی طور پر 18 افراد یرغمال ہیں یعنی ایک جانب سے 12 اور دوسری جانب کے چھ افراد۔ انھوں نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے افراد اور لاشوں کی منتقلی کے بعد ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا جائے گا جس میں مقامی عمائدین کے علاوہ کوہاٹ ڈویژن کا گرینڈ جرگہ بھی شریک ہو گا تاکہ علاقے میں مکمل امن قائم کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ 21 نومبر کی دوپہر لوئر کرم کے علاقوں بگن اور اوچت میں لگ بھگ 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہوئے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 44 افراد کی ہلاکت کے بعد ضلع کرم میں حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔حکام کے مطابق ضلع کرم میں 21 نومبر کو پیش آئے واقعے کے بعد سے ہونے والی پُرتشدد جھڑپوں اور حملوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 76 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
بگن اور اوچت میں مسافر گاڑیوں پر ہوئے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد میں سے بیشتر کا تعلق پاڑہ چنار اور قریبی علاقوں میں آباد اہلِ تشیع برادری سے تھا۔یاد رہے کہ اس واقعے کے ردعمل میں جمعہ کی شب چند مظاہرین نے سُنی اکثریتی علاقے بگن (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) میں دھاوا بول کر دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کیا جس کے نتیجے میں حکام کے مطابق مزید کم از کم 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مسلح لشکر کی جانب سے بگن میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور حملوں میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا جس کے بعد بگن اور دیگر نزدیکی علاقوں سے مقامی آبادی نے نقل مکانی کی۔مقامی پولیس کے مطابق اتوار (24 نومبر) کو لوئر کرم کے شیعہ اکثریتی گاؤں علی زئی کے قریب شدید جھڑپیں ہوئی تھیں۔
ایک پولیس اہلکار کے مطابق اتوار کو کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب مندروی کے علاقے، جو بگن سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سے ایک بڑے لشکر نے اچانک علی زئی گاؤں کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا تھا۔
مقامی پولیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مندروی سے روانہ ہونے والے اِس لشکر نے پہلے علی زئی کی داخلی حدود میں موجود دو گاؤں ’جیلامئی‘ اور ’چار دیوار‘ پر حملہ کیا جہاں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی شدید لڑائی کے بعد مسلح لشکر نے ان دونوں گاؤں پر قبضہ کر لیا۔مقامی پولیس کا دعویٰ تھا کہ اس لشکر میں موجود افراد کے پاس بھاری ہتھیار بھی موجود تھے جبکہ علی زئی کے سرحدی علاقوں میں موجود مورچوں سے اس لشکر پر شدید فائرنگ کی جا رہی تھی۔دوسری جانب خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ شیعہ سُنی قبائل کے درمیان جنگ بندی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
( بشکریہ :بی بی سی )
فیس بک کمینٹ