کالملکھاریلیاقت علی ایڈووکیٹ
تنخواہ وصول نہ کرنا حقیقت ہے یا افسانہ : لیاقت علی ایڈووکیٹ کا کالم

“پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کا کوئی رکن اپنے عہدے کی تنخواہ وصول نہیں کرےگا” حکومتی عہدوں پر فائز سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کی طرف سے ایسے اعلانات کرنا ہمارے ہاں پرانا فیشن ہے۔
پاکستان کے پہلےگورنر جنرل محمد علی جناح کےبارے میں ہمارے مطالعہ پاکستانی دانشوروں اورمورخین نے یہ مشہور کیا ہواتھا کہ وہ بطورجنرل تنخواہ نہیں لیتے تھےیامحض رسمی طور پر ایک روپیہ وصول کرتے تھےلیکن برا ہو ان شرارتی افراد کا جنہوں نے ان کی تنخواہ وصولی کی رسید سوشل میڈیا پر پوسٹ کردی جس کے مطابق وہ باقاعدگی سے دس ہزارروپے سے زائد ماہانہ تنخواہ وصول کیا کرتے تھے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے بارے میں بھی کہا جاتا ہےکہ وہ بطوروزیراعظم تنخواہ وصول نہیں کرتے اور جیالوں کے مطابق بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ بیرون ملک دورے اپنی جیب سے کرتے ہیں۔چند روز قبل ن لیگی وفاقی وزیر خالد لطیف نے بھی کیپیٹل ٹاک میں کہا تھا کہ وہ تنخواہ نہیں لیتے لیکن ان کے برعکس پی پی پی کے قمرزمان کائرہ نے اسی ٹاک شو میں تسلیم کیا تھا کہ وہ تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
ایسے اعلانات سے ایک حقیقت ضرور آشکار ہوتی ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ اس کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہوان کے پاس دولت کے انبار ہیں اور انھیں چند لاکھ روپے بطور تنخواہ ملنے یہ نہ ملنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور اتنی چھوٹی رقم کی ان کے سامنے کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے اوروہ حکومتی عہدے تنخواہوں کے لئے نہیں بلکہ دیگر مقاصد کے حصول کے لئے حاصل کرتے ہیں
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومتی عہدوں پر فائز افراد کا تنخواہ وصول کرنا غلط ہے؟ اور اگر کوئی حکومتی عہدے دار ماہانہ تنخواہ جو محض چند لاکھ روپے سےزیادہ نہیں ہوتی وصول نہ کرے توقومی خزانے کو اس سے کتنا فائدہ یا نقصان پہنچتاہے؟ بہت معمولی بلکہ نہ ہونے کےبرابر۔ وفاقی،صوبائی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں کے علاوہ مراعات ہی اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی تنخواہیں ان کے مقابل ثانوی حیثیت اوراہمیت کی حامل ہیں۔ تنخواہ لینا یا نہ لینے کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی اہمیت اس بات کی ہےکہ بطور ایک ذمہ دار رکن کابینہ آپ نے اپنےزیرانتظام محکمے میں کتنے عوام دوست فیصلے کئے ایسے فیصلے جو آئندہ اگر دہائیوں تک نہیں تو سالوں تک مثبت نتائج کے حامل ہوں۔
ویسے اپنے عہدے کی تنخواہ نہ لینا نان پروفیشنل رویہ ہے اگر کوئی شخص اپنا کام ذمہ داری اور دیانت داری سے کرتا ہے تو اسے اپنے کام کا معاوضہ ضرور وصول کرنا چاہیے اور اگر وہ وصول نہیں کرتا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ جو کام اسے تفویض کیا گیا ہے اس کی اہمیت اس کے لئے برائے نام ہے اور اس کا ایجنڈا کچھ اور ہے۔
ریاست کے ان اداروں کے اہلکار جن سے عوام کو براہ راست رابطہ رکھنا پڑتا ہے جیسا کہ بجلی گیس کے محکمے۔ عدالتوں کے اہلکار ریڈر اہلمد وغیرہ، ایکسائز اور پراپرٹی ٹیکس سے متعلق کلرک،انسپکٹرز،اربن ڈویلپمنٹ کے ادارے( ایل ڈے اے،ایف ڈی اے اور ایم ڈی اے) کے اہلکار بھی اپنی ماہانہ تنخواہوں میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ ان کی روزمرہ زندگیوں کا انحصار ماہانہ تنخواہوں پر نہیں بلکہ روز کی بنیاد پر ملنے والی رشوت پر ہوتا ہے بلکہ بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں تنخواہ وصول کرنے کا دن بھی بھول جاتا ہے کیونکہ ان کی زندگی کے لوازمات کا انحصار تنخواہ پر ہوتا ہی نہیں ہے۔
یہی صورت حال کابینہ کے ان ارکان کی ہے جو تنخواہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہیں کیونکہ ان کے پہلے سے جمع شدہ اتنا زیادہ ہے کہ تنخواہ کی کی نظروں میں کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔