کئی دہائیوں سے سرائیکی صوبے کے قیام کی تحریک جاری ہے ۔کچھ سیاسی جماعتیں اس نعرے کو استعمال کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچتی رہی ہیں ،بعد ازاں مشکلات کا شکار ہو کر سب وعدے بھول جاتی ہیں ۔پی پی پی،مسلم لیگ ن سب نے وعدے تو کیے لیکن عمل نہیں ہوسکا۔2018ء کے الیکشن میں ایک بار پھر سرائیکی کارڈ استعمال ہوا ۔اس بار فرق یہ تھا کہ الیکشن سے پہلے’’ سرائیکی صوبہ محاذ ‘‘قائم ہوا جس میں سرائیکی علاقے کے اہم سیات دان شامل ہو گئے۔
بعد ازاں تحریک انصاف کے ساتھ صوبہ کے قیام کے تحریری معاہدہ کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوگئے۔تحریک انصاف نے وعدہ کیا کہ حکومت کے قیام کے تین ماہ میں صوبہ کے قیام کو یقینی بنائے گی۔حکومت کے قیام کو تقربیاََ نو ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔اس دوران صوبہ کے حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ نئے مالی سال سے جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔
جس کے مطابق پنجاب کے تمام محکموں کے افسران جنوبی پنجاب میں بیٹھ کر کام کریں گے۔عوام کو کسی بھی کام کے لئے لاہور نہیں آنا پڑے گا۔جنوبی پنجاب کے فنڈز بھی منتقل کر دیے جائیں گے لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ جنوبی پنجاب کا یہ سیکرٹریٹ کہاں پر ہو گا، ملتان ہو گایا بہاول پور ،یا پھردونوں کے درمیان ؟ اس بات کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ صوبہ کے قیام کے حوالے سے آئینی پیش رفت نہیں ہوسکی۔دوسری جانب بہاول پور کے عوام اپنے صوبے کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ان کا دعویٰ ہے کہ ون یونٹ سے پہلے بہاول پور کی صوبائی حیثیت تھی اور ریاست نے وعدہ کیا تھا کہ جب بھی ون یونٹ ختم ہوگا سابقہ صوبہ بہاول پور بحال کر دیا جائے گالیکن ایسا نہ ہو سکا۔ جس پر ایک تحریک بحالی صوبہ بہاول پور بھی موجود ہے۔
ایسی صورتحال میں سرائیکی صوبہ کا قیام مشکل مرحلہ لگتا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس سلسلے میں کیا اقدامات کرتی ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب کو ایک صوبے کی حیثیت سے چلانا انتظامی طور پر ایک مشکل کام ہے۔ حقوق کی یہ منظم تحریک کئی دہائیوں سے اس خطہ میں موجود ہے جس کی بنیادی وجہ محرومیاں ہیں۔جنوبی پنجاب 13 اضلاع پر مشتمل پنجاب کا پسماندہ ترین خطہ ہے۔ اس میںتین سابقہ ڈویژنل ملتان ،بہاولپور اورڈیر ہ غازی خان شامل ہیں۔ یہ علاقہ اپنے اور پرائے لوگوں کے استحصال کا شکار ہے ۔ اس خطہ کی پسماندگی کی بے شمار وجوہات ہیں ۔لیکن سب سے اہم اور بنیادی وجہ اس خطہ کا جاگیردارانہ نظام اور وڈیرہ شاہی ہے ۔
میرے لئے حیران کن بات تھی کہ وہی جاگیردار وڈیرے آج جنوبی پنجاب صوبے کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے تھے جو کل تک صوبے کا نام لینے والوں کو غدار کہتے تھے ۔کل تک جو لوگ صوبے کی تحریک کا مذاق اڑاتے تھے،آج وہ بھی ان کے ہم نوا نظر آتے ہیں۔ میرے نزدیک صوبے کے قیام کے دو بنیادی محرکات ہیں ۔پہلی وجہ آبادی ہے کیو نکہ 11کروڑ نفوس پر مشتمل ایک صوبہ کا انتظام کسی طرح بھی نہیں چلایا جا سکتا۔ اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ نئے صوبے انتظامی بنیادوں پر بننے چاہیں۔جن قوموں نے ترقی کی انہوں نے اپنی آزادی کے بعد انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔ دنیا کے نقشے پر پنجا ب و ا حد صو بہ ہے جس کی آ باد ی 11کروڑ ہے،دنیا میں44 مما لک ا یسے ہیں جن کی آ با د ی ، آمد نی یا رقبہ پا کستا ن کی آبادی اور رقبہ سے کم ہے ۔جبکہ کئی ترقی یافتہ ممالک پنجاب سے چھوٹے ہیں۔
پاکستان کی آبادی21 کروڑ ہے اورصوبے 4ہیں۔اس صورتحال میں مزید صوبوںکاقیام بنیادی ضرورت ہے ۔دوسرا اور انتہائی اہم محرک پسماندگی ہے۔کیونکہ یہ خطہ ہر لحاظ سے پنجاب کے دیگر حصوں کی نسبت نظر انداز ہے۔اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
گزشتہ71 سالوں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے ان 13 اضلاع کی عوام کو تعلیم ،صحت ،بنیادی سہولیات اور شعور جیسی دولت سے محروم رکھا ۔ اس خطہ کے سیاسی رہنماہر دور اقتدار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ۔دور آمریت کا ہو یا جمہوریت کا ،ہر دور میں اس خطے کے سیاست دان اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں موجود رہے لیکن ان وڈیروں ،سیاستدانوں اورجاگیرداروں نے اس خطہ کو دیگر اضلاع کے برابر ترقی دلوانے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کئے ورنہ پسماندگی اور مسائل کی یہ صورتحال نہ ہوتی جو اس وقت نظر آتی ہے ۔یہاں کے سیاستدانوں کو گورنری ،وزارت اعلیٰ ،وزارت عظمیٰ اور صدارت بھی ملی ، اس وقت بھی وزیر اعظم سمیت اہم وفاقی وزارتیں اس خطے کے سیاست دانوں کے پاس ہیں ۔مگر ماضی میں کسی نے سیاست دان ا س خطے بھی ترقی کے لئے اقدامات نہیں کئے۔
جنوبی پنجاب کی ترقی کے دعویٰ کرنے والوں کے لئے سرکاری اعداد شمار کا فی ہیں جن سے کو ئی ذی شعور انکار نہیں کر سکتا۔62 سال سے اقتدار کے مزے لوٹنے والوں سے یہ اعداد وشمار سوال کرتے ہیںکہ آپ کو کبھی اس خطہ کے غریب کسان،مزدور اور محنت کش کا خیال نہیں آیا۔کیا آپ کو خیال نہیں آیا کہ سب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والے اس خطہ کو زرعی یونیورسٹی کی ضرورت ہے۔؟کیا آپ کو یاد نہیں تھا کہ سب سے میٹھا آم پیدا کر نے والے اس خطہ کے کسان کو جیم، جیلی اور جوس کی انڈسٹری کی ضرورت ہے۔؟کیا اس خطہ میں اچھے تعلیمی ادارے بنانا آپ کی ذمہ داری نہ تھی؟سرکاری اور غیر سرکاری رپورٹس اور غیر جانبدار تجزیوں کا کا اگر مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ کس طرح اس خطہ کے عوام کا استحصال ہو تارہا۔اور آج یہ استحصال الگ صوبے کے قیام کی آواز بن کر ابھرا ہے۔
جنوبی پنجاب کو فنڈز کی فراہمی کے حوالے سے ہمیشہ تحفظات رہے ہیں۔آبادی اور پسماندگی کے لحاظ سے 33فیصدفنڈز جنوبی پنجاب کا حق بنتا ہے لیکن کبھی یہ فنڈ نہیں فراہم ہوئے ۔ جب دیے گئے تو وہ استعمال نہیں ہوسکے۔پنجاب کے ترقی یافتہ شہروں کو زیادہ جبکہ پسماندہ شہروں کو فنڈز کی فراہمی کم ہوتی رہی ہے جس کی وجہ سے پسماندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک نظر جنوبی پنجاب کے لئے مختص کو دیکھیں تو 2003-4 میں 23.28فیصدبجٹ جنوبی پنجاب کو فراہم کیاگیا۔2004-5میں اس میں کمی کردی گئی اور صرف 21.78 فیصدفنڈز ملے۔ 2005-6 میں 18.71 فیصد ،2006-0 میں 17 فیصداور 2007-08میں سب سے کم یعنی 14.49فنڈز دیئے گئے۔ 2012-13وہ سال تھا جب حکومت کی جانب سے 32 فیصدفنڈز جنوبی پنجاب کے لئے رکھے گئے کیونکہ یہ الیکشن کا سال تھا۔گزشتہ مالی سالوں میں بھی فنڈز کی فراہمی کی صورتحال تو بہتر ہو گئی مگر استعمال بدستور غلط رہا۔ جنوبی پنجاب سے یہ پوچھا ہی نہیں گیا کہ انہیں کون کون سے منصوبوں کی ضرورت ہے۔جو منصوبے وہ نہیں چاہتے تھے ان پر کام شروع کر دیا گیا اور جو منصوبے وہ چاہتے تھے ،ان منصوبوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔میٹرو بس اس کی ایک مثال ہے۔یہ منصوبہ ناکام ترین ثابت ہوا۔
جہاں فنڈز کی فراہمی ایک مسئلہ تھا وہیں بجٹ کا استعمال نہ ہونا بھی مسائل کی بنیادی وجہ رہا۔یوں جو بجٹ استعمال نہیں ہوتا وہ بھی دوسرے منصوبوں میں منتقل کر دیا جاتا۔خصوصاََ بڑے منصوبوں جیسے اورنج لائن ٹرین وغیرہ۔ اگر موجودہ حکومت ترقی کے عمل کو برابری کا دعوی کر رہی ہے ۔تو اس حکومت کو اس بجٹ کے استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔اب جبکہ حکومت نے جنوبی پنجاب کا سیکرٹریٹ اس سال سے علیحدہ قائم کرنے اور جنوبی پنجاب کے فنڈز اس کے فنڈز اس کے ذریعے استعمال کر نے کا اعلان کیا ہے۔تو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ وہ فنڈز وقت پر استعمال کیا جائے ۔تاکہ جنوبی پنجاب کے مسائل میں کمی لائی جاسکے۔اور عوام میں احساس محرومی میں کمی لائی جاسکے۔اسی طرح جنوبی پنجاب میں صنعتوں کے قیام کے لئے بھی اقدامات کرنے ہونگے ۔
ہم اس رپورٹ کو دیکھتے ہیں جس کے ذریعے جنوبی پنجاب کے 13اضلاع کا موازانہ پنجاب کے دیگر اضلاع سے کیا جاتا ہے ،تاکہ وہ وجوہات جان سکیں جن کی بنیاد پر صوبہ کی بات ہو رہی ہے۔ غربت کی شرح یہاں سب سے زیادہ ہے۔ گزشتہ دنوں جنوبی پنجاب کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ تیار کی تھی جس میں زیادہ تر اعداد شمارحکومت پنجاب کے ڈسٹرکٹ بیس ملٹی انڈکیٹر سروے 2003-04 ء جو یونیسیف کے تعاون سے کرایا گیا تھا، سے لیے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں دیگر اداروں کی تحقیق سے بھی حوالے لیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب کے ترقی کے اعداد شمار پانچ سب سے بہتر اضلاع میں لاہور،سیال کوٹ،راولپنڈی،فیصل آباد گوجرنوالہ جبکہ پسماندہ ترین اضلاع میں ،مظفر گڑھ،راجن پور،ڈیرہ غازی خان ،لودھراں،لیہ شامل ہیں۔اگر ہم اس کی تفصیل میںجاتے ہیں توتعلیم صحت،روزگار،مواصلات،صنعت،زراعت،ہر شعبے میں یہ 13 اضلاع پنجاب کے باقی اضلاع سے پیچھے ہیں۔
صوبائی حکومت کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پنجاب کے صرف 24 فیصد افراد کو صاف پانی میسر ہے جن اضلاع کے 24 فیصد افراد کو صاف پانی میسر ہے وہ زیادہ تر اپر پنجاب میں واقع ہیں۔جنوبی پنجاب مظفر گڑھ ،ملتان ،خانیوال ،لیہ ،بھکر کے پانچ اضلاع ایسے ہیں جہاں ایک فیصد سے کم آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے ۔جنوبی پنجاب کے باقی پانچ اضلاع (لودھراں ،راجن پور ،ساہیوال ،پاکپتن، جھنگ)میں 10 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر ہے ۔ اب ذرا سو چیں !پینے کا صاف پانی ہر شہری کا بنیادی حق ہے، اس سے بھی اس خطہ کے لوگ محروم ہیں ۔۔۔پنجاب کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق جن 58 فیصد کو سیوریج کی سہولت حاصل ہے۔ جن اضلاع کو یہ سہولت بہتر انداز میں میسر وہ پنجاب کے ترقیاتی اضلاع ہیں اور سیوریج کی سہولت کے اعتبار سے پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں راجن پور ،لیہ ،مظفر گڑھ سرفہرست ہیں ۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان اضلاع کی 70 فیصد آبادی سیوریج اور نکاسی آب سے محروم ہے ۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ شرح 54 فیصد بتائی گئی ہے ،تعلیم کے اعتبار سے پنجاب کے پسماندہ ترین اضلاع میں بھی زیادہ تر جنوبی پنجاب کے اضلاع ہیں ۔ڈیرہ غازی خان،مظفر گڑھ ،راجن پور ،بہاولپور ،بھکر ایسے اضلا ع ہیں جہاں 60 فیصد سے زیادہ لو گ ان پڑھ ہیں ان اضلاع میں شرح خواندگی 34 سے 40 فیصد تک ہے ۔اعلیٰ تعلیم کے ادارے سب کے سب کچھ خاص اضلاع کے لئے تھے، عالمی بینک کے سڑکوں کے معیار کے مطابق ایک مربع کلو میٹر میں سڑکوں کی لمبائی نصف کلو میٹر ہونا چاہیے ۔پنجاب کے بعض ترقی یافتہ اضلاع میں سٹر کیں عالمی معیار سے زیادہ ہیں اس میں لاہور ،راولپنڈی ، سب سے آگے ہیں ان کے بعد سرگودھا ،فیصل آباد او ر گوجرنوالہ جہاں نصف کلو میٹر سے زائد سڑکیں موجود ہیں لیکن صوبہ کے سڑکوں کے اعتبار سے سب سے پسماندہ اضلاع راجن پور ،بہاولپور ،ڈیرہ غازی خان ،لیہ ،بھکر ،میانوالی ،بہاول نگر ،رحیم یار خان ہیں۔یہ رپورٹ اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ پنجاب کے کچھ اضلاع بہت زیادہ ترقی یافتہ اور کچھ بہت پسماندہ ہیں ۔ہر لحاظ سے (تعلیم ،پینے کا صاف پانی ،صحت اور ذرائع آمدرفت)کے لحاظ سے پسماندہ اضلاع کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہیں۔ اس پسماندگی کو دور کر نے کاواحد راستہ پنجاب کی تقسیم ہے۔ 20لاکھ آبادی پر مشتمل گلگت ۔بلتستان کو خود مختاری دی جا سکتی ہے۔ تو پھر پنجاب میں کیوں مزیدصوبے نہیں بن سکتے؟۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف جب کہ وسطی پنجاب میں مسلم لیگ ( ن )کو بر تری حاصل ہے ۔اس لیے پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کی انتظامی بنیادوں پر تقسیم کی مخالفت کر رہی ہے۔ مسلم لیگ ن کے کچھ لوگوں کے خیال میںجنوبی پنجاب کی تقسیم سے تحریک انصاف کو سیاسی برتری حاصل ہو جائے گی اور مسلم لیگ ن وسطی پنجاب تک محدود ہو کے رہ جائے گی۔ اس لیے مسلم لیگ ن نئے صوبہ کو آئینی اور پیچیدہ مسئلہ قرار دے رہی ہے ۔نیز وہ بہاول پور صوبے کی حمایت بھی کر رہی ہے تاکہ کوئی صوبہ نہ بن سکے ۔مسلم لیگ ق کے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اور ان کے ساتھی صوبہ بہاول پور کے حامی ہیں۔اس صورتحال میں حکومت کو صوبہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے فیصلے میں کافی مشکلات درپیش ہیں۔صوبوں کی تقسیم نہ صرف وفاق کے مفاد میں ہے بلکہ تمام سیاسی پارٹیوں کو بھی فائدہ پہنچے گا ۔سر دست تحریک انصاف نے صرف سیکرٹریٹ بنانے کا اعلان کیا ہے ۔دیکھتے ہیں، آئندہ چار سالوں میں نئے صوبے کے قیام کا مطالبہ پورا ہوتا ہے یا نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ