اب شاید وزیراعظم جناب عمران خان نے بھی یہ راز پالیا ہوگا کہ پاکستان میں اصل طاقت اشرافیہ ہی ہے جس کے اختیارات تاج برطانیہ سے ملتے جلتے ہیں اور ”اشرافیہ“ کوکسی کٹہرے میں طلب کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سزا سنائی جاسکتی ہے۔برطانوی سیاسی نظام سے واقف ہرشخص یہ جانتا ہے کہ ” بادشاہ ہمیشہ حق پر ہوتا ہے “ اور یہ بھی جانتا ہے کہ ” بادشاہ کبھی غلطی کرہی نہیں سکتا“۔ ہماری اشرافیہ نے بھی یہ دونوں خاصے تاج برطانیہ سے ناقابل واپسی ادھارپر لیے ہیں اور اب تاج برطانیہ والا اصول پاکستان میں لاگوہے۔
یہ فیصلہ اشرافیہ بلاخوف تردید کرنے کاحق رکھتی ہے کہ۔۔۔۔
کس کواقتدار میں لانا ہے اور کب تک اقتدار میں رکھنا ہے؟
عوام کوکہاں استعمال کرنا ہے اور کب دھماکے میں اڑا دینا ہے؟
دھرنا کہاں دینا ہے اور کس جگہ پردینا ہے؟
کب ملک کواسلامی بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں اور کب آزاد خیال (لبرل)معاشرے کے لیے آواز بلند کرنی ہے؟
کس ملک کے ساتھ کس طرح کے تعلقات رکھنے ہیں اور کب خراب کرنے ہیں؟
معاشی ڈھانچہ کس حدتک آئی ایم ایف کے رحم وکرم پر چھوڑنا ہے اور کب کشکول توڑنا ہے؟
عوام سے کس کس منصوبے کے لیے فنڈز بٹورنے ہیں؟
بقول احمد فراز
امیرشہر غریبوں کولوٹ لیتاہے
کبھی بہ حیلہ مذہب کبھی بنام وطن
اقتدار میں لا کر کسے بے عزت کرکے نکال دینا ہے اور کسے سی ون 30طیارے کے ٓذریعے ”شہید“ کے منصب پر فائز کرناہے؟
استعمال ہونے کے بعدٹشو پیپر کی منزل سے کون واقف نہیں۔
کب بے لگام میڈیا کوآزادی دے کر اپنے مقاصد حاصل کرنے ہیں اور کیسے میڈیا کواپنے پاﺅں تلے دبانا ہے؟
فرقہ واریت کے نام پر کس کس کو مقتل کی زینت بننا ہے اور کسے دہشت گردی کاسرٹیفکیٹ دے کر ” کالعدم“ کرنا ہے؟
شرح سود، تعلیمی پالیسی، ہسپتالوں کانظام، جوڈیشل پالیسی اور رویت ہلال کمیٹیاں تک بے چارے حکمرانوں کے دائرہ اختیار سے باہرہیں مگر اپوزیشن میں بیٹھے ہوئے یہی لگتا ہے کہ ان سب خامیوں کا ذمہ دار صرف وزیراعظم ہے۔سابق وزیر میر ظفر اللہ جمالی کو جب پرو یز مشرف نے ہٹا دیا اور وہ ” بڑے بے آ بروہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے“ گنگناتے ہو ئے ڈیرہ مراد جمالی جارہےتھے تو جنوبی پنجاب کے ایک صحافی نے سوال داغ دیا کہ آپ کو کیوں عہدے سے ہٹادیاگیا ’ جواب میں ظفر اللہ جمالی نے ایک تاریخی جملہ بولا” جوآپ کو کرسی میں بٹھا سکتے ہیں وہ ہٹا بھی سکتے ہیں۔“
اب شاید وزیراعظم عمران خان کو وہ پوشیدہ راز مل چکا ہے جوسابق وزیر میر ظفراللہ جمالی کوعہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد حاصل ہواتھا۔
ایک اور سابق وزیراعظم اسی اشرافیہ کو قابو کرنے کی کوشش کی پاداش میں نااہلی کی کتاب کاباب بن چکا ہے ۔
ذوالفقارعلی بھٹو کاجرم بھی تو صرف عوام کو زبان دینا ہی تھا اور پھر انہیں ” عبرتناک مثال “ بنادیاگیا۔
ایوب خان کومادر ملت فاطمہ جناح سے جتوایاگیا اور پھر وہی ایوب خان ” ایوب کتا ہائے ہائے“ کی آواز سنتا ہوا بے بسی کے عالم میں رخصت ہوا۔
جناب عمران خان بھی بہت سی حقیقتوں سے اب واقف ہوئے ہیں کہ کابینہ اپنی مرضی کی اور نہ ہی اس کی ” مصروفیات“ قابو میں۔ اسد عمر کا معاشی ڈھانچہ سمجھ میں آتا ہے اور نہ ہی وزارت داخلہ کی گیڈرسنگھی کاسراغ ملتا ہے۔۔
کروڑوں نوکریاں دینے کے اعلان ہیں ، اپنی پولیس بے قابو ہوتی جاتی ہے اور روپیہ کم تر، مگر یہاں تو ادارے بند ہوتے چلے جارہے ہیں اور لوگ بے روزگار ،حکومت کا ہنی مون پیریڈ مکمل ہوچکا تو ”اشرافیہ“ بھی مایوس ہوگئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب اشرافیہ اپنی حکومت کی کارکردگی سے مایوس ہوجائے تو ” ان ہاﺅس تبدیلی“کو کوئی نہیں روک سکتا۔
عوام کے ووٹوں اور نعروں کو اصل طاقت سمجھنے والے جب چوٹ کھاتے ہیں تو پھران پر راز کھلتا ہے کہ اصل طاقت ” اشرافیہ “ ہی ہے۔
فیس بک کمینٹ