نوٹ: مشتاق گاڈی نے چار اپریل کو اپنی ذاتی زندگی کے ایک واقعے سے جوڑ کر ایک نئی تعبیر دی ہے جسے پڑھ کر دل میں ٹیس بھی اٹھتی ہے اور اس تخلیقی جہت پہ مشتاق گاڈی کو بے پناہ داد دینے کو بھی دل کرتا ہے۔(عامر حسینی )
چار اپریل کی صبح آج بھی میرے ذہن میں فلیش بلب کی طرح جل رہی ہے۔اس زمانے میں، میں تیسری جماعت میں تھا اور سات سال میری عمر ہوگی۔چار اپریل 1979ء میری ختنوں کا دن تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری ختنوں میں میرے والد نے اتنی دیر کیوں کی۔ بہت زیادہ پیار تھا یا فرائیڈین منطق کہ ختنوں کے وقت میں لاشعوری طور پہ اس کے تشدد کا شکار نہ ہوں۔میں نہیں جانتا۔ جو بھی تھا بہرحال چار اپریل 1979ء میری ختنوں کا دن ٹھہرگیا۔ سارے گھر کو بستی گاڈی جانا تھا۔ تہور کی رسم ہمارے جدی پشتی پیروں نے ہی کرنی تھی۔ جی ٹی ایس کی بس پہ سوار ہوکر ہمارا سارا گھر تونسہ شہر کے قریب بوہڑ والی بستی کے اڈے پہنچا اور وہاں سے ہمیں دو میل پیدل چل کر اپنی بستی پہنچنا تھا۔ میری عجیب حالت تھی۔ سات سال کی عمر اچھی بھلی سمجھ بوجھ کی عمر ہوتی ہے۔ مجھے تہور میں ایک عجیب سی بے کلی/بے چینی ہورہی تھی۔ جب ہم بستی کے اڈے پہنچے تو میں نے دیکھا وہاں تو گھپ اندھیری رات کا منظر تھا۔ ایک بوڑھا آدمی جو میرے والد کا جان پہچان والا تھا وہ اداسی کے ساتھ آیا۔
اس نے میرے والد کا بازو پکڑا اور روتے ہوئے کہنے لگا:
"بھٹو کو ضیاء نے پھانسی دے دی”
میری ماں کی تو یہ سنکر چیخ نکل گئی۔ اور میرا والد تھوڑی دور جاکر اپنے ہاتھ آنکھوں پہ رکھ کر رونے لگ پڑا۔ہوسکتا ہے اس کی خواہش ہو کہ ہم اس کے آنسو نہ دیکھیں۔
اس دن میں ہی مختون نہیں ہوا۔ بلکہ ساری بستی مختون ہوگئی۔ پوری تاریخ مختون ہوگئی۔
ہم سب ایک مومن کے ہاتھوں پھر سے مسلمان بنائے گئے۔ وہ مومن جس نے بھٹو کی لاش کا معائنہ کرایا اور خواہش کی کہ کاش وہ غیرمختون نکل آئے۔
یادداشت / میموری/ حافظہ کا علم بتاتا ہے کہ ہر ایک المیہ یا ٹریجڈی ہمارے دماغ میں ایک فلیش بلب کی طرح ہوجاتی ہے۔
ہر چار اپریل کو یاد کا یہ فلیش بلب میرے دماغ میں جل اٹھتا ہے اور ہر سال مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں نئے سرے سے مختون ہوا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ترجمے میں کچھ الفاظ کی تفہیم کے لیے رفعت عباس سئیں اور حیدر جاوید سید کی مدد کا شکریہ)