ایک عجیب واقعہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔
دواریاں سے شاردہ کے لئے نکلے تو دن ڈھل چکا تھا اور ہم کسی ایسے طعام کی تلاش میں تھے جو نیلم کے کنارے ہواور طعام کے ساتھ ساتھ قیام بھی اس وادی کے عین مطابق ہو۔دائیں جانب دریائے نیلم کا بہاﺅ تھا اور ہم اس کی متضاد سمت میں بڑھتے جاتے تھے۔ دواریاں سے آگے نکلتے تھے تو یہ بالکل احساس نہ ہوتا تھا کہ رتی گلی جھیل ہم سے دور ہوتی جارہی تھی ۔ دودھنیال اور شیخ بیلہ کے دونوں قصبوں کے درمیان، دریائے نیلم کے کنار ے پر دائیں جانب ایک ریسٹورنٹ تھا جو پراسرار جھاڑیوں میں گھرا اپنے گاہکوں کا انتظار کرتا تھا ، ہمیں ایسے ہی قیام برائے طعام کی ضرورت تھی۔ دائیں جانب نیچے اترتے راستے پر ہم بھی اتر گئے ۔ دریا کے کنارے تیز بہاﺅ کے پاس جھولے لگے تھے ۔ بچوں نے جاتے ہی جھولے سنبھال لئے۔ حجاب ، آیت،عبداللہ اور عون ان جھولوں پر جھولے لیتے تھے جو نامعلوم قسم کی جھاڑیوں سے ذرا آگے لگے تھے اور ہم قدرتی لان میں رکھی کرسیوں پر بھوک سے نڈھال کھانے کے منتظر تھے۔
ایک پراسراریت تھی جو اطراف میں پھیلی ہوئی تھی، ہوا جو دریائے نیلم کے بہاﺅ سے ٹکرا کر ہمیں چھیڑتی تھی وہ عام ہواﺅں جیسی نہ تھی ۔ ماحول میں ایک خوف مسلط تھا اور خود ہوٹل کے ویٹر بھی اپنی گفتگو اور عمل سے کچھ عجیب سے محسوس ہوتے تھے جیسے اس پرستان میں یہ ایک ریسٹورنٹ نہ تھا بلکہ جنات نگر تھا ۔ پھر کھانے کے ذائقے نے ہمار ے شک کو مزید پختہ کردیا تو ہم کچھ بولے بغیر آنکھوں ہی آنکھوں میں آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ کھانے کے بعد بل کی ادائیگی ہوئی اور شاردہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس ماحول کو ہم سب نے محسوس کرلیا مگر کھل کر اظہار نہ کیا،جدید دور میں ایسی باتیں ہمیں پتھر کے زمانے تک لے جاتی ہیں۔
فون پر اکبر بخاری اور غلام مرتضیٰ کو اطلاع کردی گئی تھی اس لئے کمرے ہمارے منتظر تھے ۔ ہم شام سے ذرا پہلے کشمیر لاجز میں داخل ہوئے تو تھکن سے چور تھے ،ٹوٹ چکے تھے ۔ آپس میں گفتگو کرنے کی بجائے کمروں میں جا کر آرام کرنا ہمارے لئے بہتر تھا اس لئے رات کے ابتدائی حصہ میں ہی ہم سب نیند کی آغوش میں تھے۔ غلام شبیر پاک فوج کے انٹر نیٹ سے اپنی تنہائی دور کرتا تھا اور راشد ڈوگر نیلم پر بنے پل کا نظارا کرتا تھا ۔ ہمارے کمرے کے سب مسافر جو مسلسل چوبیس گھنٹے سے سفر میں تھے وہ اب نیند کے سفر پر روانہ ہوچکے تھے۔
رات اپنا پہلا حصہ گزار چکی تو آیت زہرا نے رونا شروع کردیا ۔ اسے چپ کرانے کے سب گر آزمائے جاچکے تو پھر مرتضیٰ کو اٹھا یا گیا، غلام مرتضیٰ قریب کسی بستی کے ڈاکٹر سے دوائی بھی لے آیا مگر آیت آپے سے باہر ہوتی گئی ۔ ہم اس کی مسلسل بے کسی دیکھ کر لاچار ہوتے گئے۔ فون پر ایک کشمیر ی بزرگ سے دم بھی کرایا مگر وہ بھی ناکام، پھر کنول اٹھ گئیں، ان کے پاس جتنے بھی سیرپ تھے وہ ایک ایک کرکے پلائے گئے ، یوں لگتا تھا جیسے دریائے نیلم کے کنارے بنے ریسٹورنٹ کی پراسراریت نے اثر دکھا دیا مگر اس سے پہلے ہمارے عقیدے مزید کمزور ہوتے اور ہم جن نکلوانے کےلئے نکل کھڑے ہوتے ، رات کے آخری پہر آیت چپ ہوگئی اور سوگئی ۔ وہ جب تک روتی رہی مسلسل روتی رہی اور درد دل رکھنے والے ہمارے میزبان ہمارے ساتھ جاگتے رہے۔
رات گزار کر جب صبح ہوئی تو غلام مرتضیٰ اپنے گھر سے مکئی کی روٹی، ساگ اور مکھن لے آیا، اس دیسی ناشتے کے بعد لسی کا ایک اپنا لطف تھا ۔ ناشتے کے بعد ہم نے واپس دواریاں کےلئے لوٹنا تھا اور وہیں سے ہمارے اس سفر کا آغاز ہونا تھا جس کے بلاوے آتے تھے کہ اب راستے کی سب برف پگھل چکی ہے۔
صبح سامان اور لباس نکالتے ہوئے درجہ حرارت منفی کا ماحول زیر نظر تھا ۔ دواریاں کے لئے نکلے تو سید اکبر بخاری، رانامشتاق اور غلام مرتضیٰ سے اجازت چاہی اور خوابوں کی مجسم تعبیر کے لئے روانہ ہوئے۔
دوسڈ سے دواریاں یوں تو صرف ڈیڑھ گھنٹے کا سفر تھا مگر ہم پر کتنے زمانے بیت گئے، وہ زمانے جو سپنوں کو حقیقت میں بدل رہے تھے۔ دواریاں کے جیپ سٹینڈ سے معاملات طے کئے ۔ ایک رات بسر کرنے کا پروگرام بنایا اور نیچے دریا کنارے اپنی کاریں بعوض ایک سو روپے کھڑی کردیں ۔ ہم صرف ایک جیپ کے ہی مسافر تھے اس لئے ڈرائیور کے ساتھ راشد اور بشیر بیٹھ گئے،ہم سب پیچھے تھے مگر گزشتہ روز جس آسیب زدہ ہوٹل سے کھانا کھایا تھا اور جو ہوائیں جھولے جھلاتی تھیں ، وہ ویٹر جومیزوں پر کھانا لگاتے تھے وہ کیا تھے؟ کہ رات بھر صرف آیت ہی نہیں ہم سب اپنے اپنے اعصاب کو سنبھالتے تھے اور نیند کو طاری کرنے کی کوشش کرتے تھے مگر ناکام تھے۔ اس آسیبی ماحول سے ہمیں صرف رتی گلی نکال سکتی تھی اور ہم اس کی طرف رواں تھے۔
فیس بک کمینٹ