مائی ڈیئر حکیم ابن بے طوطا۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے اور آپ کا دواخانہ حسب معمول ان دنوں بھرپور رش لے رہا ہو گا کیونکہ سردیوں کے اس موسم میں جب شادی بیاہ کی تقریبات زیادہ منعقد ہو رہی ہوتی ہیں تو لوگوں کا رجحان حکیموں کی طرف اس لئے زیادہ ہو جاتا ہے کہ کھانے پینے میں بے احتیاطی کے سبب پھکی وغیرہ کا ہر شخص متلاشی ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ہمارا خاندان آپ کے خاندان کے ساتھ دیرینہ تعلق رکھتا ہے۔ آپ کے والد حکیم طوطا فال والے میرے والد کے گہرے دوست تھے۔ وہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ حکیم طوطا فال والے روحانی علاج میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اور مریضوں کے مسائل موقع پر جا کر ہی حل کر دیا کرتے تھے۔ والد صاحب کے ساتھ ان کی دوستی اسی علاج معالجے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ ایک بار ابا جی کے کان میں شدید درد تھا اور کئی ڈاکٹروں سے علاج کرانے کے باوجود انہیں افاقہ نہ ہوا تو کسی نے حکیم طوطا فال والے کے بارے میں بتایا کہ وہ موقع پر پہنچ کر علاج فی سبیل اللہ کرتے ہیں لہٰذا اباجی کے کان کا مسئلہ انہوں نے نمک کی کان میں لے جا کر حل کر دیا تھا۔ میں جانتا ہوں کہ آپ نے اپنے والد کے کام کو آگے بڑھاتے ہوئے روحانی کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج میں اپنی مہارت کا سکہ منوا لیا ہے اور لوگ آپ کو حکیم ابن بے طوطا کے نام سے جانتے ہیں۔ مجھے وہ دن کبھی نہیں بھولتے جب میں اپنی شادی کے دن طے ہونے پر آپ کے پاس آیا تھا کیونکہ ان دنوں بیوٹی پارلر اور جلدی امراض کے ماہرین نہیں ہوا کرتے تھے لہٰذا حکیموں کے پاس ون ونڈو کی سہولت دستیاب تھی۔ آپ نے میری حالت سے اندازہ لگا کرخفیہ خانے میں پڑی ہوئی دوائی کی شیشی مجھے پکڑاتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کی جملہ بیماریوں کا حل اس میں موجود ہے۔ میں نے آپ کو تفصیلات بتانے کی کوشش کی تھی کہ مجھے دراصل چہرے پر دانے نکل آئے ہیں لہٰذا مجھے دانوں والی کریم کی ضرورت ہے لیکن آپ کو چونکہ بہرے پن کی وجہ سے کم سنائی دیتا ہے اس لئے آپ نے دانوں کی بجائے نادانوں والی کریم دے دی تھی۔ اس کریم کے استعمال سے میرا چہرہ مزید بگڑ گیا تھا اور سوجا سوجا سا لگنے لگا تھا۔ شادی کے دن قریب آن پہنچے تھے لہٰذا میں آپ کے پاس دوبارہ آیا اور میں نے اونچی آواز میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ مجھے ”جِلدی“ مسئلہ ہے لیکن صدافسوس اس مرتبہ بھی آپ نے مجھے جِلدی مسئلے کی بجائے ”جَلدی“ مسئلے والی دوائی دے دی تھی۔ میرے بیٹھے ہوئے ایک نوعمر لڑکے نے بتایا تھا کہ وہ ایک قوال پارٹی کے ساتھ تالیاں بجاتا ہے لیکن اس کی ہتھیلی پر ایک بڑا سا دانہ نکل آیا ہے جس کی وجہ سے وہ تالی بجانے کے قابل نہیں رہا لہٰذا آپ نے اسے کوئی ایسی دوائی دے دی تھی کہ اب وہ جگہ جگہ تالیاں بجاکر اور لہرا لہرا کر لوگوں سے باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔ حکیم صاحب میں نے آپ جیسا سمجھدار معالج کہیں نہیں دیکھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایک بار میں نے آپ سے اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے جگر کی گرمی کا مسئلہ ہے اس کا حل بتائیں تو آپ نے کوئی دوائی دیئے بغیر مجھے یقین دلایا تھا کہ تمہارا یہ مسئلہ جلد حل ہو جائے گا لہٰذا کچھ دن بعد پتہ چلا کہ آپ نے میرے ”جگر“ کی گرمی ٹھیک کر دی ہے اور وہ میراجگری دوست جسے میں جگر کہہ کر بلاتا تھا وہ آپ کے ایئرکنڈیشنڈ دواخانے میں آپ کے پہلو میں بیٹھ کر ٹھنڈے ٹھار ماحول میں حکمت کے اسرارورموز سیکھ رہا ہے۔ ان دنوں لوگ اسے حکیم ایم اے جگر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آپ کو کم سنائی دینے کی وجہ سے بعض اوقات دلچسپ صورت حال بھی سامنے آیا کرتی تھی خاص طور پر میرے گیارہ سالہ چھوٹے بھائی کو تو آپ جانتے ہیں جن دنوں اس کی داڑھ نکلنے لگی تھی اور وہ شدید درد محسوس کر رہا تھا تو میں اسے آپ کے پاس لے کر آیا تھا۔ میں نے کہا تھا حکیم صاحب کوئی دوا تجویز کریں اس کی تو داڑھ ہی نہیں نکل رہی۔ آپ نے کوئی ایسی دوائی دی کہ گیارہ سالہ بچے کی تین دن بعد داڑھی نکل آئی۔ یوں ٹیپو کو لوگوں نے گیارہ سال کی عمر میں ہی صوفی کہنا شروع کر دیا تھا۔ میں حکمت کے ساتھ ساتھ آپ کی دانشوری کا بھی قائل ہوں۔ آپ کو یاد ہو گا ایک بار میں نے آپ کو کہا تھا کہ میرا پٹھا چڑھ گیا ہے تو آپ نے میرا بازو سیڑھی کے ساتھ کس کر باندھ دیا تھا تاکہ سیڑھی کے ذریعے پٹھا آسانی سے اتر آئے۔ اس کامیاب علاج کے بعد یقین کریں میرے بازو کے حالانکہ کان بھی نہیں تھے لیکن اس کے باوجود پورا ہفتہ بازو ”سن“ رہا تھا ۔ آپ کے ساتھ گزارے ہوئے وہ سب لمحات ایک فلم کی طرح مجھے یاد آ رہے ہیں۔ ایک بار میں آپ کے پاس آیا، ان دنوں مجھے بہت بھوک لگا کرتی تھی۔ میں نے آپ کو بتایا کہ ہروقت پیٹ میں چوہے ناچتے رہتے ہیں لہٰذا آپ نے اپنے کلینک کی پالتو اور فالتو بلی کو پکڑ کر میرے پیٹ پر اتنے زور سے نچایا کہ وہ دن اور آج کا دن چوہوں نے ناچنا چھوڑ دیا۔ اسی روز بالا پینٹر آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اسے موکوں کا مسئلہ ہے مگر آپ نے اسے کوئی ایسی دوائی دے دی تھی کہ وہ ہروقت موقعوں کی تلاش میں رہنے لگ گیا تھا۔ آپ کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ آپ بیماری کی جڑ تک پہنچتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گاجب نوعمری میں میری آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں اور گال پچکے ہوئے دکھائی دیتے تھے جبکہ چلتے پھرتے مجھے سانس چڑھ جایا کرتی تھی تو آپ نے میری آنکھیں، گال اور جسم چیک کرنے کی بجائے میرے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو چیک کرتے ہوئے لمبی آہ بھر کر کہا تھا کہ میاں دیکھو اس مشینی دور میں آپ زیادہ کام اپنے ہاتھو ں سے کرتے ہیں اور میں نے خاموشی سے سر جھکا لیا تھا کیونکہ غربت کی وجہ سے اباجی مشینیں خرید کر دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ حکیم صاحب مجھے چاچو چین سموکر کی آپ کے سامنے بے بسی آج تک یاد ہے کہ انہوں نے کہا تھا کہ جب تک دن میں کئی بار میں سگریٹ کے غرارے نہ کر لوں تو مجھے چین نہیں آتا۔ آپ نے اسے اس عمل سے منع تو نہیں کیا تھا لیکن نصیحت ضرور کی تھی کہ غرارے ضرور کرو لیکن کوشش کرو کہ غرارے سے دھواں نکلتا ہوا محسوس نہ ہو۔ خیراندیش، آپ کا دیرینہ مریض مریدحسین۔
فیس بک کمینٹ