ملتان ٹی ہاؤس کا خوبصورت ہال دوپہر کے دو بجے بھرنا شروع ہو گیا۔ پارکنگ ایریا میں دیکھتے ہی دیکھتے گاڑیوں کی لائن لگ گئی۔ جو لوگ روزانہ دوپہر کو ٹی ہاؤس بیٹھتے ہیں انہوں نے ایک دوسرے سے سوال شروع کر دیا آج دوپہر کو کون آ رہا ہے جس کو لوگ سننے کے لیے کشاں کشاں ہیں۔ اس ہجوم میں سے کسی نے کہا باقی تو سب لوگ ملتان کے ہیں بس لندن سے رضا علی عابدی، قیصر عباس صابر کے نئے سفرنامے سفر کیلاش کی تعارفی تقریب میں بطور صدرِ محفل آ رہے ہیں۔ وسیم ممتاز، مستحسن خیال، قمر رضا شہزاد، رضی الدین رضی، تحسین غنی، نوازش علی ندیم، ڈاکٹر قراة العین ہاشمی اور ڈاکٹر مسعود الرؤف ہراج کو تو لوگ سنتے ہی رہتے ہیں چونکہ اُس دن جناب رضا علی عابدی نے اس تقریب کو رونق بخشنی تھی اسی لیے ڈھائی بجے تک ملتان ٹی ہاؤس کے ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لوگ اپنے ہاتھوں میں گلدستے لیے منتظر تھے اس شخصیت کے جس کے لیے یہ تقریب سجائی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قیصر عباس صابر نے گزشتہ چند برسوں میں چھ سفرنامے لکھ کر پاکستان کے ان علاقوں کو متعارف کرایا جہاں پر لوگ جانے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ اس نے وادی کاغان، لالہ زار، وادی سوات، گلگت بلتستان، شمالی علاقہ جات، دریائے سندھ کے کنارے اور وادی کیلاش پر قلم اٹھایا اور انہیں کتابی صورت میں محفوظ کر دیا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی بظاہر یہ لااُبالی سا نوجوان جو کبھی صحافی تھی اور آج کل قانون دان ہے اور اس کو آوارہ گردی کی طرف کس نے مائل کیا۔ کیا وہ مستنصر حسین تارڑ سے متاثر ہے یا اسے ڈاکٹر عباس برمانی اچھا لگتا ہے؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اپنے ساتھ کتابیں رکھتا ہے ان کا مطالعہ کرتا ہے، سفر کرنے کے لیے زادِ راہ کا بھی اہتمام کرنا جانتا ہے کہ اس نے تمام سفر اپنے بچوں کے ساتھ کیے اور ان بچوں کی عمریں اتنی ہیں کہ انہیں ابھی سفر کی اذیت یا اس کے لطف کا اندازہ نہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہر سال کئی ہفتوں کے لیے ملتان سے غائب ہو جاتا ہے اور غائب ہو کر جب واپس آتا ہے تو اس کی بغل میں ایک کتاب کا مسودہ ہوتا ہے۔ وہ غالب کی زبان میں کہتا ہے:
منظر اِک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں ہوتا
اس مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد وہ سفر کیلاش کا مسودہ لے کر آیا تو اس نے وہ مسودہ سب سے پہلے جناب رضا علی عابدی کو بھجوا دیا۔ جس پر جناب رضا علی عابدی نے لکھا:
”جس علاقے کو دیکھنے قیصر عباس راہ کی دشواریاں جھیلتے ہوئے گئے، سچ تو یہ ہے کہ وہ حیرت کی سرزمین ہے۔ وہاں کون لوگ بسے ہوئے ہیں اور کب سے آباد ہیں، یہ تمام باتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے رسم و رواج، طور طریقے، ان کی ثقافت، بزرگوں کی چھوڑی ہوئی میراث اور ان کا عقیدہ اور مسلک، یہ سب ہم کہیں نہ کہیں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں لیکن دنیا سے الگ تھلگ علاقے پر نئے زمانے کی یلغار، ان کے عقائد پر کوئی دوسری رائے مسلط کرنے کی کوششیں، ان کی عبادات اور رواجوں کو الٹے سیدھے معنی دینا اور ان کی رسموں کو فرسودہ ثابت کرنے کی کوششوں کا احوال نہ صرف حیران کرتا ہے بلکہ دُکھ بھی دیتا ہے۔ قیصر عباس نے اس علاقے میں جا کر اور ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے بعد جن حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے وہ ہر باشعور قاری کو نہ صرف حیران بلکہ پریشان بھی کریں گے۔ اپنے حال میں مگن رہنے والے ان لوگوں پر جس طرح کا جبر روا رکھا جا رہا ہے، اس کا ذکر ایک طرف دُکھ دیتا ہے، دوسری طرف ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دے رہا ہے۔ یہ ایک نیکی ہے جس کو سراہا جایا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ مَیں نے اس سفرنامے کا ابتدائی حصہ پڑھا ہے اور اب مکمل کتاب پڑھنے کا اشتیاق ہے۔“
رضا علی عابدی کی اس رائے کے بعد کتاب شائع ہوئی اور پھر تقریبِ رونمائی کا دن آ گیا۔ ملتان ٹی ہاؤس کا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریب میں سب سے پہلی تقریر معروف شاعرہ، براڈ کاسٹر ڈاکٹر قراة العین ہاشمی کی تھی جو رضا علی عابدی کی موجودگی میں اتنا اچھا بولیں کہ خود عابدی صاحب کہنے لگے ان کا بات کرنے کا انداز بہت مختلف ہے۔ اور ڈاکٹر قراة العین ہاشمی نے سفرنامے پر بات مختلف انداز سے کی۔ اس کے بعد تو سب بولنے والے اپنے اپنے اسلوب میں اظہارِ خیال کرتے رہے اور داد پاتے رہے۔ آخر میں جب رضا علی عابدی آئے تو یوں لگا جیسے وہ ریڈیو بی بی سی لندن سے وہ خبر سنا رہے ہیں جو ہم سننا چاہ رہے تھے۔ تالیاں بجتی رہیں، رضا علی عابدی بات کرتے رہے۔ اور کہہ رہے تھے کہ دو دن سے مجھے ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں کہتے ہیں اگر آپ کو کوئی یاد کرتا ہے تو اس کو اگر یاد کر لیں تو ہچکی ختم ہو جاتی ہے۔ گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں نے تقریباً دو سو لوگوں کے نام یاد کر چکا ہوں لیکن ہچکی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس تقریب میں آ کر یاد آیا کہ مجھے تو قیصر عباس صابر کا نام لینا ہی بھول گیا تھا۔ سو مَیں اس کا نام لے رہا ہوں اس کے بعد ہچکی ختم ہوئی اور رضا علی عابدی بولتے رہے۔ تالیاں بجتی رہیں………… کہ اُس دن لوگ رضا علی عابدی کو سننے آئے تھے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
اس میں کوئی شک نہیں کہ قیصر عباس صابر نے گزشتہ چند برسوں میں چھ سفرنامے لکھ کر پاکستان کے ان علاقوں کو متعارف کرایا جہاں پر لوگ جانے کا سوچتے بھی نہیں ہیں۔ اس نے وادی کاغان، لالہ زار، وادی سوات، گلگت بلتستان، شمالی علاقہ جات، دریائے سندھ کے کنارے اور وادی کیلاش پر قلم اٹھایا اور انہیں کتابی صورت میں محفوظ کر دیا۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آتی بظاہر یہ لااُبالی سا نوجوان جو کبھی صحافی تھی اور آج کل قانون دان ہے اور اس کو آوارہ گردی کی طرف کس نے مائل کیا۔ کیا وہ مستنصر حسین تارڑ سے متاثر ہے یا اسے ڈاکٹر عباس برمانی اچھا لگتا ہے؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اپنے ساتھ کتابیں رکھتا ہے ان کا مطالعہ کرتا ہے، سفر کرنے کے لیے زادِ راہ کا بھی اہتمام کرنا جانتا ہے کہ اس نے تمام سفر اپنے بچوں کے ساتھ کیے اور ان بچوں کی عمریں اتنی ہیں کہ انہیں ابھی سفر کی اذیت یا اس کے لطف کا اندازہ نہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہر سال کئی ہفتوں کے لیے ملتان سے غائب ہو جاتا ہے اور غائب ہو کر جب واپس آتا ہے تو اس کی بغل میں ایک کتاب کا مسودہ ہوتا ہے۔ وہ غالب کی زبان میں کہتا ہے:
منظر اِک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر ہوتا کاش کہ مکاں ہوتا
اس مرتبہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد وہ سفر کیلاش کا مسودہ لے کر آیا تو اس نے وہ مسودہ سب سے پہلے جناب رضا علی عابدی کو بھجوا دیا۔ جس پر جناب رضا علی عابدی نے لکھا:
”جس علاقے کو دیکھنے قیصر عباس راہ کی دشواریاں جھیلتے ہوئے گئے، سچ تو یہ ہے کہ وہ حیرت کی سرزمین ہے۔ وہاں کون لوگ بسے ہوئے ہیں اور کب سے آباد ہیں، یہ تمام باتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے رسم و رواج، طور طریقے، ان کی ثقافت، بزرگوں کی چھوڑی ہوئی میراث اور ان کا عقیدہ اور مسلک، یہ سب ہم کہیں نہ کہیں دیکھتے، سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں لیکن دنیا سے الگ تھلگ علاقے پر نئے زمانے کی یلغار، ان کے عقائد پر کوئی دوسری رائے مسلط کرنے کی کوششیں، ان کی عبادات اور رواجوں کو الٹے سیدھے معنی دینا اور ان کی رسموں کو فرسودہ ثابت کرنے کی کوششوں کا احوال نہ صرف حیران کرتا ہے بلکہ دُکھ بھی دیتا ہے۔ قیصر عباس نے اس علاقے میں جا کر اور ان لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کے بعد جن حقائق پر سے پردہ اٹھایا ہے وہ ہر باشعور قاری کو نہ صرف حیران بلکہ پریشان بھی کریں گے۔ اپنے حال میں مگن رہنے والے ان لوگوں پر جس طرح کا جبر روا رکھا جا رہا ہے، اس کا ذکر ایک طرف دُکھ دیتا ہے، دوسری طرف ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دے رہا ہے۔ یہ ایک نیکی ہے جس کو سراہا جایا جائے تو کتنا اچھا ہو۔ مَیں نے اس سفرنامے کا ابتدائی حصہ پڑھا ہے اور اب مکمل کتاب پڑھنے کا اشتیاق ہے۔“
رضا علی عابدی کی اس رائے کے بعد کتاب شائع ہوئی اور پھر تقریبِ رونمائی کا دن آ گیا۔ ملتان ٹی ہاؤس کا ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ تقریب میں سب سے پہلی تقریر معروف شاعرہ، براڈ کاسٹر ڈاکٹر قراة العین ہاشمی کی تھی جو رضا علی عابدی کی موجودگی میں اتنا اچھا بولیں کہ خود عابدی صاحب کہنے لگے ان کا بات کرنے کا انداز بہت مختلف ہے۔ اور ڈاکٹر قراة العین ہاشمی نے سفرنامے پر بات مختلف انداز سے کی۔ اس کے بعد تو سب بولنے والے اپنے اپنے اسلوب میں اظہارِ خیال کرتے رہے اور داد پاتے رہے۔ آخر میں جب رضا علی عابدی آئے تو یوں لگا جیسے وہ ریڈیو بی بی سی لندن سے وہ خبر سنا رہے ہیں جو ہم سننا چاہ رہے تھے۔ تالیاں بجتی رہیں، رضا علی عابدی بات کرتے رہے۔ اور کہہ رہے تھے کہ دو دن سے مجھے ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں کہتے ہیں اگر آپ کو کوئی یاد کرتا ہے تو اس کو اگر یاد کر لیں تو ہچکی ختم ہو جاتی ہے۔ گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں نے تقریباً دو سو لوگوں کے نام یاد کر چکا ہوں لیکن ہچکی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس تقریب میں آ کر یاد آیا کہ مجھے تو قیصر عباس صابر کا نام لینا ہی بھول گیا تھا۔ سو مَیں اس کا نام لے رہا ہوں اس کے بعد ہچکی ختم ہوئی اور رضا علی عابدی بولتے رہے۔ تالیاں بجتی رہیں………… کہ اُس دن لوگ رضا علی عابدی کو سننے آئے تھے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
فیس بک کمینٹ