ملتان شہر کی منہدم ہوتی نشانیوں میں، میں نے آخر آخر میں دو چیزوں کو اپنی زندگی تک کے لئے پائیدار خیال کر لیا تھا، ایک دمدمہ اور دوسرے مہر گل محمد۔ مہر صاحب کا باوقار سراپا، چہرہ، مسکراہٹ، مونچھیں،سفید براق کپڑے، اُجلی عادتیں، گرم جوشی منوں مٹی کے نیچے چھپ کر بھی یادداشت سے محو تو نہیں ہوسکتی مگراس کی بازیابی اور بحالی میں لفظ کس طرح ساتھ دے سکتے ہیں! یہ بات مہر صاحب کے یارِغار اور میرے مشفق دوست میاں غلام رسول عباسی کو نہیں سمجھائی جا سکتی! جو ان کی ہر برسی پر مجھ سے ایسی کسی تحریر کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔
مہر صاحب کو دیکھ کر اُستاد اور درس گاہ کے شرف کی بحالی سے متعلق پاکستان ٹیچرز فورم کا وعدہ، خیالِ موہوم نہیں رہتا تھا۔ اُن کی دراز قامتی اور وجاہت دیکھنے والے کو یہ خیال آتا تھا کہ اوّل تو یہ شخص اُستاد اور درس گاہ کا شرف خود ہے اور اس قابل ہے کہ اپنے شعور سے اس نصب العین کا حصول ممکن بنا دے، یہی وجہ ہے کہ ان کی زندگی میں ہمیں یہ گمان ہوتا تھا کہ اُستاد پر تذلیل مسلط کرنے والے نظام کے کارندے مہر گل محمدکے بازوﺅں کے دم خم کو پیش نظر رکھ کر لرزتے رہتے ہوں گے۔ آخر کوئی بات تو تھی کہ بہت سے مجبور، عاجز اور مسکین قسم کے اساتذہ کے وہ اس لیے بھی آئیڈیل تھے کہ جابر افسر اورنظام کے روبرو وہ مہر گل محمد کواپنا مددگار بلکہ محافظ خیال کرتے تھے۔
میں نے مہر صاحب کو کبھی تنہا نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ اپنے کسی نہ کسی رفیق کے ساتھ، کسی کتاب کے ساتھ، کسی تقریب اور تنظیم کے منصوبے کے ساتھ، کسی خیال، ارادے اورولولے کے ساتھ دکھائی دئیے۔ ان کی استقامت، قوتِ کار اور عالی ظرفی پی ٹی ایف کا سب سے بڑا اثاثہ تھی۔ عامر فہیم، نصرت مند خان، غلام رسول، کرامت علی، فیاض احمد حسین، میاں عباسی اور حاجی شریف کے ساتھ انہوں نے کئی مرتبہ ہم سب کے مشترک خواب ”پرائمری سکول سے لے کر یونیورسٹی تک کے اساتذہ کو ایک برادری میں اس طرح تبدیل کرنا کہ یہ تنظیم ایک اخلاقی قدر بن جائے“ کے ممکنہ ابہام اور التباس پر گھنٹوں بحث کی اور پھر برسوں ہم سب اسی خواب اور خیال کے تعاقب میں رہے۔ مہر صاحب کی ذات کو ہمیشہ مرکزیت حاصل رہی، وہ تمام دوستوں کو نہ صرف جوڑنے کی صلاحیت جانتے تھے بلکہ ہم سب کی کمزوریوں کے لئے بھی پادری کا کان، کبھی دیوارِ گریہ اور کبھی گنبدکی صدا بن جاتے،اگرچہ انہیں رفتہ رفتہ یہ احساس ہو چلا تھا کہ ٹیچرز فورم کے بانی ارکان اب ایک دوسرے کے خلاف اتنا مواد جمع کر چکے ہیں کہ ان کے آنکھ بند کرنے کی دیر ہے، شرفِ آدمیت کے یہ متوالے اور حُبِ جاہ کے یہ نئے ققنس حسد اور کینے کی آگ میں جل کے راکھ ہو جائیں گے اور اس راکھ میں سے پھر کوئی اڑان بھی پیدا نہیں ہو گی۔۔ان کی زندگی میں یہ ہو گیا تھا کہ ان کے پاس جا کر کرامت صاحب میرے خلاف تقریر کر آتے تھے،وہ مجھے بتاتے تو نہیں تھے مگر میں اپنے بدگمان تخیل کی بدولت خود ہی صفائیاں پیش کرتے کرتے زہر افشانی کر آتا تھا، فیاض احمد حسین ان کی خدمت میں ہم سب سے زیادہ مستعد تھا،وہ بھی کڑی کمان جیسے اپنے ضمیر کا ترکش کچھ ہلکا کر آتا تھا،رہی سہی کسر عبدالرﺅف شیخ پوری کر آتا تھا، مگر مہر صاحب کی زندگی میں ہم سب کا بغض اس قابل نہیں ہوا تھا کہ وہ اس فکری تنظیم کو ہی بکھیر کر رکھ دیتا۔
پوری زندگی میں انہوں نے یہ فراموش نہیں کیا کہ وہ دہقانی پس منظر کے حامل بڑی عمر کے گنوارو تھے، جب وہ کسی اُستادکی شفقت کے سبب کتاب، درس اور درسگاہ کے قریب آئے تھے اورپھر انہوں نے اس پیشے سے جو تکریم حاصل کی، اس کے باعث وہ خود کو مقروض خیال کر کے زندگی کی ہر سانس کے ساتھ محبت اورتوجہ سے دستگیری اُن تمام بچوں اور کنبوں کی کرنا چاہتے تھے، جو تعلیم کی تمنا رکھتے ہیں، مگر اُسکے حصول کے وسائل نہیں رکھتے، دوسرے ایک اچھے معلم کی طرح وہ کاملیّت کے انتظار میں خشک ہو جانے والے قلم اور دوات سے بھی آزردہ رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم جو کچھ کہہ سکتے ہیں، کرسکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں، وہ کہنا، کرنا اور لکھ دینا چاہیے۔ ہمارے بعد میں آنے والے اس کی نوک پلک سنوارتے رہیں گے۔ سو اس معاملے میں بلاشبہ وہ سر سید کے پیروکار تھے۔
مہر صاحب جب علیل ہوئے تو میں نے خیال کیا کہ ان کی علالت اور نقاہت کا سبب ایک ہی ہے اور وہ ان کی عمر بھر کی ریاضت اور محبت کے مرکز گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول شمس آباد سے اُن کی سبکدوشی ہے، سواحباب سے کہا کہ مہر صاحب اس فراق کی آنچ میں ایسی ہی کوئی درسگاہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے تویہ علالت اور نقاہت عارضی ثابت ہوگی، وگرنہ نعم البدل کے طور پر تصنیفات اور مطبوعات کاایک منصوبہ تو ان کے پاس ہے ہی، مگر ہم سب نے چڑھتے دریا کو اُترتے اور خورشید جہاں تاب کو شعاعِ پراں بنتے یوں دیکھا ہے کہ وہ قطرہ قطرہ زندگی کی خالی صراحی سے ٹپکتے رہے اور خدمت کا شرف ہم میں سے صرف فیاض احمد حسین نے پایا۔
پرائمری تعلیم ان کے مطالعے اور تجزیے کامحور تھی، طالب ِعلموں اور اساتذہ کے مسائل، ان کے حل یا ازالے کے لئے کی جانے والی کاوشوں سے بھی ان کی دلچسپی عملی تھی، اساتذہ کی مختلف تنظیموں کی رقابت اور مسابقت کے جملہ نہیں تو بیشتر اسباب سے لطف لیتے تھے۔ جنوبی پنجاب کی پسماندگی، سرائیکی زبان و ادب کا کلاسیکی ورثہ اوراحباب کی امانتیں اُن کی توجہ کا خاص مرکز اور گفتگو کے ساتھ ساتھ تحریر کا بھی خاص موضوع تھیں۔ میں نے انہیں طول طویل اور گرم جوش تقریریں کرتے بھی دیکھا ہے، مختصر بامعنی جملوں پراکتفا کرتے اورآخر میں ایک بلیغ اورمتین خاموشی کو اوڑھتے بھی دیکھا ہے۔ مگر اس سارے عمل میں ان کی متوازن شخصیت اور فکر کی جھلک ہمیشہ نمایاں رہی ہے۔
مجھے چند بدمزگیاں بھی یاد ہیں ایک مرتبہ سید حسن رضا گردیزی نے ایرانی ذوق کے حوالے سے برسرِ مجلس ایک چٹکی لی تھی۔ مہر صاحب نے بڑی جرات کے ساتھ اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا حالانکہ گردیزی مرحوم کی ہجویات کے خوف سے کوئی اعلانیہ ان سے اختلاف نہیں کرتا تھا، دوسری مرتبہ میرے دوست مظہر عارف نے ان کے سکول میں لگے چارٹوں کے حوالے سے تقریر کے دوران کہہ دیا ’اس سے ہمارا ثقافتی المیہ نمایاں ہو جاتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو اپنے وسیب اور دھرتی کے کسی ہیرو سے متعارف کرانے کے قابل بھی نہیں‘،مہر صاحب نے اس وقت جو تقریر کی،وہ محکمہ تعلیم کے افسروں کو سنانے کے لئے نہیں بلکہ پاکستان سے والہانہ لگاﺅ کے تابع تھی،جسے ایک عرصے تک اس ملت سے جوڑنے کی کوشش کی گئی، جوبے چاری خود ملوکیت اور ملائیت کی ستائی ہوئی ہے۔اسی طرح ہمارے بزرگ دوست لطیف عارف نے حسب ِعادت مقامی زبان اور تہذیب کے بارے میں کوئی بات تعریض اور تحقیر کے طور پر کہی‘ مہر صاحب نے جذباتی انداز میں چند باتیں جواب میں کیں ،جن کے جواب الجواب میں مجھے جناب لطیف عارف کا ایک تفصیلی مکتوب عنایت ہوا‘ مہر صاحب کی اچانک وفات سے بحث کا یہ دروازہ بند ہوگیا وگرنہ میرا ارادہ تھا کہ مہر صاحب کی اجازت سے وہ مکتوب پی، ٹی، ایف کے خبر نامے میں شامل کر لیا جائے۔ پی، ٹی، ایف کے اس سہ ماہی خبرنامے سے انہیں بہت لگاﺅ تھا، بچوں کے سے اشتیاق کے ساتھ وہ اسے مرتب کراتے، چھپوانے کا اہتمام کراتے اور پھر ترسیل کے حوالے سے عباسی صاحب کی مستعدی کا مخلصانہ اعتراف کرتے،جس میں یہ ملال شامل تھا کہ کاش میں بانصیب قاصد کی طرح ہر دوست کے گھر تک جاسکتا۔
مہر صاحب کی زندگی میں رسمی حوالے سے ایک بڑاخلا تھا، بہت قربت کے باعث میں نے بارہا اس حوالے سے استفسار کیا، بلکہ چھیڑا بھی،مگر جب میں نے محسوس کیا کہ انہیں اس ذکر سے تکلیف ہوتی ہے،تو پھر کریدنا مناسب خیال نہ کیا،بس سننے میں یہی آیا کہ خواتین کے مقامی کالج میں اسلامیات کی ایک لیکچرار کے ساتھ ان کے تعلقِ ازدواج کو استقامت نصیب نہ ہوئی، کسی کے نزدیک اس کا ایک سبب تھا تو کسی کے مطابق دوسرا،ایک نے تو مہر سے منسوب کر کے ایک روایت بھی بیان کی کہ کوئی ایسا مکتوب اس خاتون کے نام آیا تھا،جس نے فاصلے کو ناقابلِ عبور خلیج میں تبدیل کر دیا،تاہم یہ مہر صاحب کی وضع داری ہے کہ انہوں نے کبھی اس تعلق اور خاتونِ محترم کے بارے میں تبصرہ کیا اور نہ اس کی حوصلہ افزائی کی۔
مجھے مغموم ساتھیوں کے روبرو یہ اعتراف ہے کہ میں ان کی عمر کے آخری برس ان کی ایک بے ساختہ خوشی کی راہ میں حائل ہوگیا تھا۔ یہ تو میں جانتا تھا کہ مہر صاحب کو موسیقی سے دلچسپی ہے اور بچوں کے لئے چند مقصدی نظمیں اور پاکستان کے لئے بعض ترانے اورگیت بھی لکھ چکے ہیں، مگر انہوں نے کچھ شرما کے اور کچھ اترا کے اپنا شعری مجموعہ ”گل احمر“ کے نام سے مجھے عنایت کیا تو پہلے تو میں نے ان کے تخلص ”نادم“ پر اعتراض کیا کہ آپ ایسے باشعور اور با عمل کے لئے یہ ناموزوں ہے اور دوسرے کسی اچھے صدر معلم اور منتظم کے بارے میں یہ باور کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ شاعر بھی ہو سکتا ہے، اپنے مکتب کی تقریب کی خاطر یا کسی دن کی مناسبت سے یا کسی طاقت ور مہمانِ خصوصی کی خا طرچند منظومات کہہ لینے سے بھی کوئی شاعر نہیں ہو جاتا۔ مہر صاحب کا چہرہ ُکملا ساگیا،سو میں نے طے کیا کہ اب اس موضوع پر مزید کبھی بات نہیں کروں گا۔ ہفتے عشرے کے بعدعباسی صاحب کا فون آیاکہ اس شعری مجموعے کی تقریب رونمائی کا پروگرام ہے، مہر صاحب چاہتے ہیں کہ آپ اور ارشد ملتانی اس پر ضرور اظہار خیال کریں۔ میں نے ہامی بھر لی لیکن بعض وجوہ کی ِبنا پر تقریب ملتوی ہوگئی۔ چند ہفتوں کے بعد مجھے مہر صاحب کا ایک خط ملا کہ مجموعے کی مانگ کے پیش نظر اس کی دوسری طباعت سے پہلے بعض دوستوں سے فنی مشورے مطلوب ہیں۔ کچھ مصروفیت، کچھ ندامت، کچھ اپنی کج فہمی کا زعم اور زیادہ فن عروض سے مطلق ناواقفیت، جواب نہ دیا، ماہانہ ملاقات یا عیادت کے بہانے انہی کی صدارت میں انہی کے ہاں پی، ٹی، ایف کے اجلاس ہوتے رہے مگر انہوں نے اس حوالے سے کوئی تقاضاکیا، نہ مجھے شرمندہ کیا، پھر ایک شام وہ چپکے سے فوت ہوگئے۔ اب جب کہ وہ مجھ سے کبھی یہ معصومانہ تقاضا نہیں کر سکتے کہ مجھے شاعر بھی مانو، تو میں نادم ہوتاہوں کہ ہم مدّرس اپنی کتابی کج فہمی کی بناءپر اپنی نوٹ بک میں ہی درج معانی بتاتے ہیں،لفظوں کے، ہم جذبات اور محسوسات کا احترام کیے بغیر انکے امتیازات اور مدارج بھی بتانے کی کوشش کرتے ہیں اور شاعرا سے جانتے ہیں جو لفظوں کوجوڑ لیتا ہو، ایک خاص آہنگ کی چاپ کو اپنے اوپر وارد کرکے،پر نہیں جانتے کہ شاعر وہ ہوتا ہے جو زندگی کے بنیادی آہنگ اور توازن کی تلاش میں ہو، تاکہ وہ انہیں بھی متناسب بنا سکے جن سے وہ پیار کرتاہے۔ علم کی طلب رکھتا ہے، اچھے لوگوں سے اور اچھی قدروں سے اسی طرح لگاﺅ رکھتا ہے جیسے اُجلے کپڑوں سے اور دراز قامتی سے۔ مہر صاحب نے اپنے وسائل، محنت اور قلب میں موجود ساری نیکی اپنے گرد و پیش میں موجودکمزور وسیلہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کر دی، ان کے پاس نہتوں اور کمزوروں کے لئے خواب اوروعدے تھے بلاشبہ و ہ شاعر تھے،بہت بڑے۔ مہر گل محمد نادم،سن لیں کہ نادم تو میں ہوں۔
یہ تو غنیمت ہے کہ صابر وشاکر احباب سقوط ڈھاکہ سے لے کرسقوط بغداد تک کے ذمہ دار حکمرانوں کو مشیتِ ایزدی کی آڑ میں معاف کر دیتے ہیں وگرنہ دوستوں کو یہ بھی معلوم ہو تا کہ مہر گل محمد کے دکھوں میں اضافہ کرنے والوں میں مجھ جیسے ان کے قریبی احباب بھی شامل ہیں۔ جب پاکستان ٹیچرز فورم کے بانی ارکان ان کے پاس جاکر ایک دوسرے کے خلاف بولتے تھے،تو انہیں یقینا دکھ ہوتا تھا کہ جو فورم ان کے بڑھاپے کی اولاد تھا،اور جس کے لئے انہوں نے آخری برسوں میں تمام وقت،وسائل،گھر اور ذہنی کاوشیں وقف کر دی تھیں، ان کے بعد در بدر اور بے سمت ہونے والا تھا،وہ خود بہت دریا دل،کشادہ نظر اور برد بار تھے،مگر ہم ایسے نہیں تھے، ایک مرتبہ پی،ٹی،ایف کے آفس کے لئے ایک میز کا آرڈر فیاض احمد حسین کے ذریعے دیا گیا، اس میں شک نہیں کہ بہت اعلیٰ درجے کی میز تیار ہوئی،مگر آرڈر دیتے وقت ہم نے اس بات کا دھیان نہیں رکھا تھا کہ میز کا سائز اسے کمرے کے دروازے سے گزارنے سے قاصر رہے گا، سو جب میز تصور سے تجسیم کی منزل پر پہنچی تو کثرتِ رائے سے طے پایا کہ میز کو دو حصوں میں کٹوا لیا جائے، اس پرفیاض احمد حسین نے استعفیٰ دے دیا اور نہایت تلخ مگر درد ناک خطاب کیا،بات بڑھ سکتی تھی، مگر مہر صاحب نے بڑی شگفتگی سے کہا’لوگ کرسیوں پر لڑتے ہیں، ہم میز پر لڑ رہے ہیں‘، ایک بلند اجتماعی قہقہے میں فیاض کا احتجاج تحلیل ہو گیا۔ مگر ہم لوگ انہیں ایذا دینے سے چوکتے نہیں تھے ”انقرہ اُردو سیمینار“ کی تقریب کتاب شناسی“ (12 اگست 1999) ہوٹل شیزان ملتان میں ہوئی، تقریب کے دوران ہی انہیں شدید تکلیف محسوس ہوئی مگر وہ تقریب کی خاطر برداشت کرتے رہے اور اس لئے بھی کہ میری عدم موجودگی میں انہوں نے میری یہ کتاب مرتب بھی کی تھی اور چھپوائی بھی، تقریب کے آخر میں وہ نشتر ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ اسی طرح پروفیسر فیاض احمد حسین کے بھتیجے کی دعوت ِ ولیمہ میں ان کی شرکت ان کی وضع داری کی مظہر تھی یہ اور بات کہ وہ اس رات معمول سے زیادہ چپ تھے اور اس دھرتی پر یہی ان کی آخری رات تھی۔
مہر صاحب اپنے آخری برسوں میں ایک ٹرسٹ بنانے کے خواہاں تھے، چنانچہ میرے اور ڈاکٹر کرامت علی کے ہمراہ ایک سے زائد مرتبہ ملتان کے سینئر وکیل مرزا منظور احمد مرحوم کے پاس گئے اور ایک ابتدائی دستاویز بھی تیار ہوئی مگر شاید ایک تو انہیں احساس تھا کہ ایک قابلِ قدر ٹرسٹ کے شایان ان کے وسائل نہ تھے، دوسرے وہ اپنے بھائی اور ان کے متعلقین کی مدد کرنے کے خواہاں تھے، البتہ میری آرزو تھی کہ ان کا کتاب خانہ، یونیورسٹی میں منتقل ہو جاتا اور وہاں ایک گوشہ مہر گل، تشکیل پا جاتا مگر مرحوم کے وارث بھتیجوں کو یہ تجویز پسند نہ آئی،اور بہت ترتیب سے سوچنے والے فرد کی وصیت میں کافی بے ترتیبی تھی۔
فیس بک کمینٹ