رام ریاض کے تغزل کاآغاز 58ءمیں ہوا۔فی الجملہ شعریات کاانہیں ابتداءمیں شوق نہیں تھا۔سکول اور کالج کے زمانے میں کرکٹ کے بہترین کھلاڑی تھے۔وضع قطع کے اعتبار سے نہایت وجہیہ اور حسین آدمی تھے۔رام ریاض بتاتے تھے کہ ایک طو یل رومانس کے بعد یکایک ان کے اندر شاعر نے انگڑائی لی اور پہلی غزل جعفر طاہر جیسے طناز شاعر کو دکھلائی ۔جعفر طاہر نے ہر شعرپر داد دی حالانکہ جعفر طاہر بڑے بڑے جغادری شاعروں کو زبان و بیان کے سقم پر،سرمحفل جھاڑ دیا کرتے تھے۔رام ریاض بنیادی طورپر ترقی پسند اور وسیع المشرب انسان تھے۔جب انہوں نے شاعری آ غاز کی تو پاکستان میں ایوب خان کی آمریت نے جمہوریت پر شب خون مارا اور رام ریاض نے اس زمانے میں پاکستانی معاشرے میں قومیتوں ،لسانی تعصبات اورفرقہ واریت کوسرعت کے ساتھ پھیلتے پایا۔جاگیردارانہ نظام اس پر مستزاد،یہ سب سماجی شکست وریخت کا رام ریاض کے ذہن پر انمٹ نقش جم گیا۔رام ریاض نے شروع میں ہی کلاسیکل شعراءاور معاصر لکھاریوں کو نہایت عرق ریزی سے پڑھا۔وہ بنیادی طورپر فراق اور احمد مشتاق کے مداح تھے۔ناصر کاظمی سے اور مجید امجد سے گہرے مراسم تھے۔وہ اگرچہ غزل گو تھے مگر مجید امجد کے عاشق صادق تھے۔1971ءمیں جب خانیوال ملازمت کے سلسلے میں آئے تو ہرمہینے ساہیوال مجید امجد سے ملنے جاتے۔رام ریاض مجید امجد کوشاعروں کاقائداعظم کہتے تھے۔جن دنوں غزل ان پروارد ہوتی ۔وہ جنون کی کیفیت میں مبتلا ہوتے۔شعر کہنا ایک روحانی واردات تھا۔یہی وجہ ہے کہ ان کی پوری شعری دنیا،کرب،نظری آہنگ اور زبردست تخلیقی توانائی کی مظہر ہے۔جب وہ خانیوال میں آئے تو ان کا دل تین سالہ قیام کے دوران میں ذرہ بھرنہیں لگا۔ایک تو جھنگ کی بوباس انہیں ٹکنے نہیں دیتی تھی۔پھراس دور میں جعفر طاہر ، شیر افضل جعفری اورمحمودشام سے بچھڑنے کا دکھ۔یہاں ان کی شاعری میں شدت احساس،ارتکاز اور المیاتی رنگ نے زور پکڑا۔وہ مشاعروں کی جان تھے۔60سے 90ءتک پنجاب کا وہ کون سا مشا عرہ تھا جس میں رام ریاض نے شرکت نہ کی ہو۔ ان کی آواز بلا کی سریلی ،ڈوب کے ایسی غزل پڑھتے کہ بڑے بڑوں کے چراغ گل ہوجاتے ۔
فیض احمد فیض نے انہیں پہلی بار مشاعر ے میں سنا تو تڑپ گئے ۔اس محفل سخن میں رام ریاض نے یہ غزل سنائی تھی جس کے چند شعر ہیں
تیری محفل میں ستارے کوئی جگنو لایا
میں وہ پاگل کہ فقط ،آنکھ میں آنسو لایا
جب بھی دنیا میں کسی قصر کی بنیاد پڑی
سنگ کچھ میں نے فراہم کیے ،کچھ تولایا
مجھے اک عمر ہوئی خاک میں تحلیل ہوئے
توکہاں سے مری آنکھیں ،مر ے بازو لایا
فیض نے یہ اشعار بارباپڑھوائے اوربے تاب ہو کے داد دی۔اس نوع کے بے شمارواقعات ہیں ۔حافظ آباد کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت احمد ندیم قاسمی کررہے تھے۔حبیب جالب بھی موجودتھے۔رام ریاض کوجب انہوں نے سنا تو روپڑے۔حالانکہ حبیب جالب ترنم میں لاثانی تھے۔حبیب جالب کے اصرار پر انہوں نے جب یہ مطلع سنایا
اب کے اس طرح ،ترے شہر میں کھوئے جائیں
لوگ معلوم کریں،ہم کھڑے روئے جائیں
تو حبیب جالب کوسنبھالنا مشکل ہوگیاتھا
رام ریاض کاتعلق یوپی کے شہر مظفرنگر سے تھا۔1933ءمیں وہیں جنم لیا اور 48ءمیں والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے جھنگ آئے۔ادبی حیات کاآغاز رام ریاض نے احمد ندیم قاسمی کے مشہور ادبی رسالے”فنون“سے کیاتھا۔احمد ندیم قاسمی کی شفقت اورمحبت کے وہ ہمیشہ احسان مند رہے۔رام ریاض کے مزاج میں تصوف اوربغاوت کے عناصر نے انہیں دنیاوی آسائشوں سے بے نیاز بنایاتھا۔زندگی کایہ رنگ ان پر مجید امجد کی ہم نشینی کے باعث چڑھاتھا۔سماجی عدم مساوات،جاگیرداری،منافرت،مذہبی فرقہ بندی کا انہوں نے زندگی بھر مشاہدہ کیا اورپوری شدت کے ساتھ اس کے خلاف آرٹ کی سطح پر ڈٹے رہے۔مگر براہ راست بیان اور نظریاتی تبلیغ سے نفرت کی۔اس ضمن میں حبیب جالب مرحوم کو برملا کہتے کہ ایک جاندارشاعر کوآپ نے ترقی پسندی،بلندآہنگی اوربیان بازی کی خاطر قتل کردیا۔وہ پاکستان کے اولین برسوں کے شعراءمیں احمد مشتاق ،منیر نیازی ،ناصر کاظمی اور ظفراقبال کوسراہتے تھے۔اپنے معاصرین میں شکیب جلالی،اطہرنفیس اورظہور نظر کوبھی پسند کرتے تھے۔
رام ریاض داخلیت پسند فن کارتھے۔ترقی پسند وہ ضرورتھے مگر کٹر مارکسی نہیں تھے۔ذوالفقارعلی بھٹو کے بہت مداح تھے۔وہ پاکستان کے لیے بھٹو مرحوم کی ذات کو روشنی کامینار گردانتے تھے۔مگر ان کی شہادت کے بعد وہ کبیدہ خاطر بلکہ مستقل اداس رہا کرتے تھے۔ان کے افکار کی چوٹ،ان اشعار پر صاف پڑتی دکھلائی دیتی ہے۔
تو مگر عرش نشیں ہے،تجھے معلوم نہیں
لوگ کیوں حلقہ انکار خدا میں آئے
کئی نے سورج کو اپنایا،کچھ تاروں کے ساتھ رہے
دیواروں کے سائے تھے ہم،دیواروں کے ساتھ رہے
اہل فن کی جنگ ہو یا، اہل شہر کا قبیلہ ہو
ہم نے دیکھا لوگ اکثر سرداروں کے ساتھ رہے
ہم نشیں تیری بھی آنکھوں میں جھلکتا ہے دھواں
تو بھی منجملہ ارباب نظرلگتا ہے
ہم پہ بیداد گرو،سنگ اٹھانا ہے فضول
کہیں افتادہ درختوں پر ثمر لگتا ہے
کبھی تو یوں بھی دل بے زبان بولتا ہے
کہ جیسے رات کوسونا مکان بولتا ہے
ہماری چپ کابھی اعجاز تم نے دیکھ لیا
ہرایک شخص ہماری زبان بولتا ہے
جب تک مرا دم ہے تجھے رونے نہیں دوں گا
تو مارگزیدہ ہے تجھے نیند نہ آجائے
ہم نے یہ ہواﺅں میں پرندوں سے نہ پوچھا
جب حبس کاموسم ہو تو کس طرح اڑا جائے
رام ریاض کے اشعار کے کرب،معنی آفرینی اورتاثیر کے عقب میں ،ان کی غنائیہ اور جمالیاتی حسیت کابڑا ہاتھ ہے۔رام ریاض کے شعری طرز احساس میں جو نرماہٹ اورفنی کاملیت ہے۔اس نے ان کے کلام میں زندگی بھر کھردرا پن ،یکسانیت یاتکرار کوآنے نہیں دیا۔ان کے ہاں نارسائی،اور بیسویں صدی کے انسان کا فکری بکھراﺅ اوراجتماعی اندوہ اس طرح ڈھل گیا ہے کہ شعری بے ساختگی میں روح عصر منعکس ہوگئی ہے۔
میں نے اک عمر گنوائی تو یہ انداز ملا
سوچ لے،پھر مر ی آواز میں آواز ملا
ورق سنگ پہ تحریر کریں نقش مراد
اوربہتے ہوئے دریا میں بہاتے جائیں
توکبھی صبح کا تارا بن جائے
ہم تجھے دورسے تنہا دیکھیں
آگ پانی میں اگر جنگ ہوئی
کس طرف آدمی ہوگادیکھیں
ستارہ وا رجواُڑتے تھے آسمانوں میں
مثال گردسر ر ہ گزار بیٹھ گئے
تر ی نگاہ فقیروں پہ اب اٹھے نہ اٹھے
تر ی نگاہ کے امیدوار بیٹھ گئے
رام ریاض بے حد غیور اوربے باک ،اس قدر کہ حیرت ہوتی ہے وہ اپنی 60سالہ زندگی گزارکیسے گئے۔دنیا داری انہوں نے دیکھی ہی نہ تھی۔یہ سب آثار اورصداقتیں،ان کے ہر شعرمیں شدت جذبات اوراثر آفرینی کی صورت میں موجودہیں۔ان کا پہلا مجموعہ کلام ”پیڑ اورپتے“تھا اور دوسرا ”ورق سنگ“یہ دونوں مجموعے جدید اردو غزل کی تاریخ میں نشان راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔رام ریاض کے آخری پانچ برس علالت اور تنگ دستی میں گزرے لیکن اس غیور اور جرات مند فن کار نے آلام ،تن تنہا سہے۔رام ریاض کے یہ دواشعار انہی ایام کی اندوہ ناک صورت حال کے گویا ہیں
اے دوست تراقرب مجھے چاٹ گیا ہے
میں اتنی مروت کاسزاوارنہیں تھا
یہ جس کی سزا اتنی کڑی زیست ملی ہے
مرنے پر مجھے اتنا تو اصرارنہیں تھا۔
فیس بک کمینٹ