ماہ جنوری اور اس کا دوسرا عشرہ، سندھ دھرتی کے تین سپوتوں کے حوالے سے ہمیشہ یاد رہے گا۔ ان میں سے دو قتل ہوئے اور ایک کا جنم دن۔ اگر ان تینوں کی یا ان تینوں میں سے کسی بھی ایک کی بات یہ ملک مان لیتا تو دنیا واقعی رہنے کی جگہ ہوتی۔ ایک تھا جی ایم سید، دوسرا فاضل راہو اور تیسرا پروفیسر ڈاکٹر حسن ظفر عارف۔
کل جی ایم سید کی سالگرہ تھی ایک سو دسویں سالگرہ۔ جدید سندھی قوم پرستی کے بانی، آزادی پسند، صوفی لاکوفی جی ایم سید کی سالگرہ سندھ کی سیاست میں باقاعدہ ایک تہوار کی جگہ لے چکی ہے۔ مارشل لا ہوں کہ سول ڈکٹیٹر شپ یا جمہوریت کے نام پر وقفے جی ایم سید کی سالگرہ ہر برس جنوری کی سترہ تاریخ کو انکے آبائی گاؤ ں سن، دادو ضلع میں منائی جاتی رہی ہے۔ یہ اور بات ہے انکے خاندان کے علاوہ انکی جئے سندھ تحریک کے درجن بھر حصوں بخروں کے الگ الگ اجتماعات ہوتے ہیں۔ گُرو نانک کی چادر کی طرح انکے چیلوں نے بھی انکے نظریے کی چادر کے حصے بخرے کر لیے۔ یہاں مجھے غرض انکی تحریک یا نظریے کے حصے بخرے ہونے سے نہیں۔ اس انتہائی عجب شخص سے ہے جسے دنیا جی ایم سید اور اکثر سندھی سائیں کے نام سے جانتے ہیں۔ سائیں جی ایم سید، ایک درویش منش، سندھ اور اسکے عوام کا عاشق، انسان دوست، مصنف، مؤ لف ستر کتابوں کے لکھنے والے۔ کئی کتابیں اورتحریریں انکی زیر بندش ہیں۔ یہ شخصیت پاکستان بنانے والوں میں پیش پیش تھی تو اس کو توڑ کر سندھ کو ایک علیحدہ وطن بنانے کا نعرہ اور خیال دینے والی بھی ضرور تھی۔ لیکن ایک وہ دور بھی آیا جب اس نے ایک بار پھر پاکستان کی جغرافیائی وحدت میں رہتے ہوئے سندھ کی مکمل صوبائی مختاری کی بات کی۔ جسے انہوں نے ’’آسمان سے گر کر کھجور میں لٹکنے‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ شاید مئی انیس سو اٹھاسی کا زمانہ تھا جب جنرل ضیا الحق کا دور تھا اور جی ایم سید کی سربراہی میں سندھ نیشنل الائنس بنایا گیا تھا۔ ان پر سندھ میں تحریک بحالی جمہوریت کے دوران فوجی آمر ضیا کی حمایت کا الزام بھی لگا۔ لیکن وہ جو اپنی نوے سالہ زندگی میں اٹھائیس سال پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتوں کے تحت قید و بند یا گھر میں نظربند رہا اب اسے حقیقی معنوں میں نیلسن منڈیلا ثانی کہا جاتا ہے۔ ایوب خان کے دور حکومت میں طویل قید اور پھر آنیوالی حکومتوں میں نظربندیاں۔ مرکزی حکومتوں نے پنجاب میں نفسیاتی حربے کے طور پر جی ایم سید کو ایک ’’خوف‘‘بناکر پیش کیا۔ حالانکہ انہوں نے ہمیشہ کہا انہیں بلھے شاہ کے پنجاب سے کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ غاصبوں اورجابروں کے پنجاب کے خلاف ہیں۔ یہاں تک کہ اس بوڑھے اسیر نے اپنی آخری سانسیں بحالت قید بینظیر بھٹو کی حکومت میں پوری کیں۔ بینظیر بھٹو کی حکومت نے انہیں بعد از مرگ آزاد کیا۔ سید کے جنازے کے جلوس میں قرآن مجید، گیتا بھگوت، انجیل، تورات اور شاہ لطیف بھٹائی کا ’’شاہ جو رسالو‘‘ ساتھ ساتھ رکھے گئے تھے۔ نماز جنازہ سنی مکتب فکر کے مولوی نے بھی پڑھائی تو شیعہ مکتب فکر والے نے بھی۔ جی ایم سید شاید پاکستان کے پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے پچاس کی دہائی میں مستقبل میں ملک میں مذہبی شدت پسندی بڑھنے کے امکان کی بات کی تھی۔ وہ مذہبی اور لسانی انتہاپسندی کے ساری عمر خلاف رہے۔
یہ بھی محض اتفاق تھا کہ سندھ پر مسلط منفی قوتوں کا منصوبہ کہ جی ایم سید کی سالگرہ والے دن قاتلوں نے سندھ کے دوسرے سپوت اور عوام میں مقبول سیاسی رہنما فاضل راہو کو قتل کرنے یا کروانے کی سازش کی۔ ملک میں تیل نکلنے والی پٹی بدین ضلع کے گولاڑچی میں رسول بخش پلیجو کے ساتھی اور عوامی تحریک کے اس رہنما کو قتل کیا گیا۔ یہ بھی عجب بات ہے کہ فاضل کو سندھ کی کوئی ایک پارٹی نہیں ساری پارٹیاں اپنا لیڈر اور انکے کارکن اپنا ساتھی مانتے تھے۔ زیریں یا جنوبی سندھ کے عوام خاص طور ہاریوں اور مارے لتاڑے پچھاڑے طبقات میں یہ انتہائی مقبول رہنما اس تحریک بحالی جمہوریت کا نائب صدر تھا بیگم نصرت بھٹو جس کی سربراہ تھیں۔ فاضل ضیا دور میں ایک طویل عرصے تک قید و بند میں رہا تھا۔ وہ بھی پلیجو کی طرح مع اہل و عیال سیاست اور عوامی تحریک میں تھا۔ راہو خاندان نے سندھ اور جمہوریت کیلئےقربانیاں دیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ بدین ضلع میں مقامی ہاریوں یا کسانوں کو زمینوں کی الاٹمنٹ کی تحریک ہو یا گولاڑچی کو تحصیل بنانے کی جدوجہد سے لیکر ملک میں تحریک بحالی جمہوریت یا عوامی نیشنل پارٹی کی تشکیل، فاضل آگے آگے تھے۔ وہ اپنے گاؤ ں اور علاقے کے لوگوں کیلئے ایک طرح کے ایدھی تھے۔اس طرح کے ہردلعزیز رہنما کو بھی شخصی دشمنی میں قتل کردیا گیا۔ یہ ضیا آمریت کے آخری سال تھے۔ سترہ جنوری انیس سو چھیاسی کو فاضل راہو کو چانگ قبیلے کے ایک شخص نے کلہاڑی کےوار کر کے قتل کردیا۔ فاضل کے قتل پر ہر آنکھ اشک بار تھی اور بھٹو کی پھانسی کی طرح یہاں بھی گھروں میں چولہے نہیں جلے تھے۔ تمام سندھ مکمل طور بند ہوگیا تھا۔
اسی سال فاضل راہو کی پہلی برسی پر اسکے گاؤ ں راہو کی میں اب نیا نعرہ لگا تھا’’سنہ ستاسی ضیا کو پھانسی‘‘۔ پھر ہر برس راہوکی ،فاضل کے آبائی گاؤ ں میں برسی کے اجتماع میں سترہ جنوری کو ملک بھر سے سیاسی قیادت شرکت کرنے لگی۔ پھر وہ خان عبدالولی خان تھے، رسول بخش پلیجو، نواز شریف کہ ملک قاسم۔ ملک قاسم جنہوں نے فاضل راہو کی ایک برسی کے اجتماع میں کہا تھا ’’جو مظالم پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ نے سندھیوں پر ڈھائے ہیں مگر پھر بھی اگر سندھی وفاق سے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرتے تو یہ انکی مہربانی ہے۔‘‘ آج بھی وہی صورتحال ہے۔ سندھ میں سندھی ہو یا اردو بولنے والے یا کوئی بھی زبان بولنے والے لتاڑے پچھاڑے لوگ یا ان کے حقوق کیلئے اٹھنے والی آوازیں قتل کردی جاتی ہیں۔ اس کی ایک اور تصویر آپ نے پچھلے دنوں ملک کے معروف فلسفہ کے استاد، ترقی پسند سیاسی نظریہ دان، ایم کیو ایم (الطاف) کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر حسن ظفر عارف کے بہیمانہ قتل کی صورت دیکھی۔ ان کی دریافت ہونے والی لہو میں لت پت لاش بتا رہی تھی کہ ان کے جسم پر کتنا تشدد ہوا تھا۔ جناح اسپتال کی چیف میڈیکولیگل نے وہی کہا جو ان مواقع اور اس پروفائل ہلاکتوں پر ڈاکٹروں اور پولیس والوں سے کہلوایا جاتا ہے۔ بینظیر بھٹو کی طرح ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا روٹ بھی گھر کے راستہ پر وہ علاقہ نہیں تھا جہاں ان کی لاش انہی کی کار میں سے پچھلی نشست سے ملی۔ کہاں صدر کے عبداللہ ہارون روڈ صدر سے ڈیفنس میں ڈاکٹر کا گھر اور کہاں ابراہیم حیدری الیاس گوٹھ؟ ’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو‘‘ نامعلوم افراد یا قاتل قوتوں نے اس ملک، کراچی سمیت سندھ کا ایک اور سپوت اور معزز ترین دانشور مار دیا جس طرح اس شہر میں ایوب کرمانی مارا گیا۔ حسن ناصر اس شہر سے اٹھا کر شاہی قلعہ میں مار دیا گیا تھا۔ضیا آمریت سے جگر وار لڑنے والے ڈاکٹر حسن ظفر عارف کا خون ۔ بقول محمد صابر:
سروں سے بار تمدن اتار کر خوش ہیں
یہ لوگ اپنے معلم کو مار کر خوش ہیں.
( بشکریہ : روزنامہ جنگ )
فیس بک کمینٹ