حفیظ رومانی کا شمار ملتان کے ان شعراء میںہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد ملتان میںبہت متحرک ازندگی گزاری ۔ وہ یہاں کی تقریبات میں بھر پور شرکٹ کرتے تھے ۔ حفیظ رومانی احسان دانش صاحب کے شاگرد تھے اور پھر انہی کے حکم پر انہوں نے شاعری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ حفیظ رومانی 21 مارچ 1929ء کو کپور تھلہ میں پیدا ہوئے ۔ 24 دسمبر 2011 ء کو ان کا ملتان میںانتقال ہوا ۔ روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے لئے ہم نے ان کا 2006 میں انٹرویو کیا تھا جو ان کی برسی کے موقع پر شائع کیا جا رہا ہے ۔ حفیظ رومانی کا شمار ملتان کے ان شعراء میںہوتا ہے جنہوں نے قیام پاکستان کے بعد ملتان میںبہت متحرک ازندگی گزاری ۔ وہ یہاں کی تقریبات میں بھر پور شرکٹ کرتے تھے ۔ حفیظ رومانی احسان دانش صاحب کے شاگرد تھے اور پھر انہی کے حکم پر انہوں نے شاعری سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ حفیظ رومانی 21 مارچ 1929ء کو کپور تھلہ میں پیدا ہوئے ۔ 24 دسمبر 2011 ء کو ان کا ملتان میںانتقال ہوا ۔ روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے کے لئے ہم نے ان کا 2006 میں انٹرویو کیا تھا جو ان کی برسی کے موقع پر شائع کیا جا رہا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ”1961ءتک میں نے بھرپور ادبی زندگی گزاری ۔ بے شمار مشاعرے پڑھے ۔ میری سینکڑوں غزلیں ادبی رسائل میں شائع ہوئیں ۔ مشاہیر ادب کے ساتھ خطوط کے ذریعے رابطہ رہا ۔مگر حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ میں نے شعر کہنا چھوڑ دیے ۔ شاعری کیا چھوڑی بس یوں سمجھیں کنگال ہو گیا ۔ آج بھی میں اپنے بچوں سے کہتا ہوں کہ تمہارے مستقبل کی خاطر مجھے زندگی کے بہترین سرمائے سے ہاتھ دھونا پڑا “۔ یہ گفتگو ہے حفیظ رومانی کی جنہیں شعر و ادب سے کنارہ کشی اختیار کیے 45 برس بیت چکے ہیں ۔وہ قیام پاکستان کے بعد ملتان کی ادبی زندگی کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے1947 ءسے 1961 ءتک اس شہر میں بھر پور ادبی زندگی گزاری پھر جب کنارہ کش ہوئے تو اس جانب دوبارہ پلٹ کر بھی نہ دیکھا ۔ وہ گفتگو کر رہے تھے پرانے لوگوں کی ، پرانی محفلوں کی ، ادبی وتنقیدی اجلاسوں اور طرحی مشاعروں کی اور ان کی آنکھوں میں یادوں کے سائے منڈ لاتے تھے ۔ ان محفلوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کے چہرے پر چمک سی آ جاتی تھی ۔ حفیظ رومانی کو آج کی نسل کے بہت کم لوگ جانتے ہوں گے اور جانیں بھی کیسے؟ انہوں نے خود ہی شعر و ادب سے لاتعلق ہو کراپنے آپ کو ایک سٹور تک محدود کر لیا کہ جس سے ان کے بچوں کا مستقبل وابستہ تھا ۔ ” میں جوتوں کی ایک کمپنی میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھا ۔ ضیاءصدیقی صاحب نے مجھے وہاں بھرتی کرایا ۔ ایک انڈر میٹرک نوجوان کو ایگزیکٹو کے عہدے پر بھلا کب تک برداشت کیا جا سکتا تھا ۔ مجھے اس کمپنی سے نکالنے کی تیاریاں ہونے لگیں ۔ اس دوران احسان دانش صاحب نے مجھے وہ کمپنی چھوڑ کر اپنی دکان قائم کرنے میں مدد دی اور یہ بھی کہا کہ سب کچھ چھوڑ کر اس جانب توجہ دو کہ تمہارے بچوں کا مستقبل اس سے وابستہ ہے ۔ وہ میرے استاد تھے ، میں نے ان کے حکم کی تعمیل کی اور پھر جب بہت عرصے بعد شعر کہنے کی کوشش کی تو اس معیار کے شعر ہی نہ ہو سکے “ ۔ حفیظ رومانی کو احسان دانش سے بے پناہ عقیدت ہے۔ کہتے ہیں کہ ” جب تک احسان دانش زندہ رہے میں جب بھی لاہور جاتاتھا، انہی کے پاس رہتا تھا ، کہیں اور قیام نہ کرتا تھا ۔ ایسا شفیق اور محبت کرنے والا شخص میں نے زندگی میں کوئی اور نہیں دیکھا۔ ایک اور چیز جو حیران کن ہو گی آپ کے لیے وہ یہ ہے کہ میں بارہا ان کے پاس رہا ،کئی راتیں وہاں قیام کیا، مگر میں نے کبھی انہیں سوتے نہیں دیکھا۔ جب بھی رات کو آنکھ کھلتی وہ جاگ رہے ہوتے تھے، مجھے نہیں معلوم کہ وہ کب سوتے تھے ۔ شعر کہتے ہوئے ان کی عجیب کیفیت ہوتی تھی کہ جیسے خلا میں سے کوئی چیز پکڑ رہے ہوں “ ۔ ملتان میں اپنی آمد کا احوال بتاتے ہوئے حفیظ رومانی نے کہا ” میں قیام پاکستان کے بعد کپور تھلہ سے ملتان آیا تو سب سے پہلے مولانا ماہر القادری کے پاس گیا ۔ میں ان کا بہت عقیدت مند تھا ۔ ان کی نعتیں پڑھتا تھا ، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ کلین شیو ہیں تو مجھے بہت حیرت ہوئی ۔ انہی کی معرفت میری صابر دہلوی اور ضیاءصدیقی سے ملاقات ہوئی ۔ پھر ضیاءصدیقی نے ” بزم ضیائے ادب “ قائم کی اور اس کے زیر اہتمام کوٹلہ تولے خان میں طرحی مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ان مشاعروں میں میں بھی شریک ہوتا تھا ۔ وہاں شمیم شمسی ، ارشد ملتانی ، عاصی کرنالی ، حزیں صدیقی ، ایاز صدیقی ، جریں سیمابی ، گلچیں کرنالی ، مذاق العیشی اور بہت سے دوسرے لوگ آتے تھے ۔ اب یہ سب ختم ہو گیا ہے ۔ طرحی مشاعروں نے شعر و ادب کی آبیاری میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ میری طبیعت بہت موزوں تھی اور میں ملتان کا واحد شاعر تھا جو ہر مشاعرے میں نئی غزل پڑھتا تھا ۔ میرا طریقہ کار یہ تھا کہ پہلے غزل کہتا اور اسے کسی رسالے میں چھپنے کے لیے بھیج دیتا ۔ جب وہاں چھپ جاتی تو پھر اسے میں مشاعرے میں پڑھ دیتا ۔ میرا بہت سا ادبی سرمایہ ضائع ہو گیا ۔ مشاہیر کے خطوط ، یادگار تصاویر اور کئی رسائل و جرائد زمانے کی دست برد کی نذر ہو گئے مگر میرے پاس کم و پیش 250 غزلیں اب بھی محفوظ ہیں جن پر مجھے احسان دانش صاحب نے اصلاح دی تھی “ ۔ کل اور آج کی شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ” آج کل کی شاعری میں گہرائی نہیں ہے ۔ ہلکی پھلکی شاعری پسند کی جاتی ہے ۔ شاعری میں اب فنی پختگی نظر نہیں آتی شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ لوگوں میں مطالعے کا رجحان ختم ہو گیا ہے ۔ یا پھر اب نئے لوگ سینئرز کے پاس جانا پسند نہیں کرتے “ ۔ انہوں نے کہا کہ ” اب کوئی بھی اپنے آپ کو کمتر سمجھنے کو تیار نہیں ہے ۔ جو بھی تُک بندی کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں سب سے بڑا شاعر ہوں ۔ پہلے وقتوں میں ایسی بات نہیں تھی ۔ یہ تسلیم کیا جاتا تھا کہ کمزور شاعر اچھا شعر کہہ سکتا ہے اور اچھا شاعر بھی برا شعر کہہ دیتا ہے ۔ ” ۔ حفیظ رومانی تمام وقت گفتگو سے مسلسل گریزاں رہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں 45 برس قبل شاعری چھوڑ چکا ہوں اب اچھا نہیں لگتا کہ میں ادبی موضوعات پر اظہار خیال کروں ۔ جاتے جاتے انہوں نے کہا کہ ” آپ نے مجھے میرا ماضی پھر سے یاد دلا دیا ۔ وہ ادبی محافل ، وہ خوبصورت لوگ اور مشاعرے سب کچھ میری نظروں کے سامنے گھوم رہا ہے ۔ میرا آج کا دن اچھا نہیں گزرے گا ۔ تمام وقت یہ خوبصورت یادیں میرا تعاقب کرتی رہیں گی “ ۔
فیس بک کمینٹ