ماسٹرفیاض کو ان کے دوستوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی ماسٹرکہنا شروع کردیاتھا۔حرکتیں توان کی بچپن سے ہی یہ ظاہر کرتی تھیں کہ وہ بڑے ہو کر کسی سرکس میں رنگ ماسٹر کے طورپر کام کریں گے مگر قدرت کوکچھ اور ہی منظور تھا ۔کہتے ہیں کہ ہرشخص بچپن سے ہی بعض جبلتوں کے تحت اپنے مستقبل کی راہیں متعین کرلیتا ہے،مگر ماسٹرفیاض کے ساتھ ایساہرگز نہ ہوسکا۔شاعری اورادب سے انہیں خداواسطے کابیر تھا،شاعروں کاعموماً مذاق اڑاتے تھے ۔میر کے بارے میں ان سے کبھی سوال کیاجاتا تو جواب میرا کے بارے میں دیتے تھے۔اور جب ان سے کہاجاتا کہ میرا کا میرتقی میر سے دور کابھی کوئی تعلق نہیں ہے تو حیرت سے پوچھتے یہ بھلا میرتقی میر کون ہیں ؟ میں تو بس میرتمباکو والے کوجانتا ہوں جن کی دکان پر تمباکو اورپان کے حوالے سے بہت خوبصورت اشعار درج ہیں۔غالب کو وہ غالباً (غالبن)کاشوہر کہتے تھے ۔سودا اور سودا سلف میںوہ کوئی فرق محسوس نہ کرتے تھے ۔اورداغ دہلوی کے بارے میں معلومات کایہ عالم کہ کسی نے ماسٹرفیاض کوبتایا کہ داغ کے بارے میں جو مضمون نصاب میں شامل ہے وہ بہت طویل ہے ختم ہی نہیں ہورہا تو ماسٹرصاحب نے جواب دیا کہ داغ کیسا ہی کیوں نہ ہو واشنگ پاﺅڈر سے ضرورختم ہوجاتا ہے۔ماسٹر فیاض کالج کے بین الکلیاتی مشاعروں میں ضرورشریک ہوتے تھے۔اس لیے نہیں کہ انہیں شعرسننے یا پڑھنے کا شوق تھابلکہ اس لیے کہ سبزی منڈی ان کے گھر کے قریب گلی واقع تھی اور وہاں سے گندے ٹماٹر سستے داموں اوروافر مقدار میں مل جاتے تھے۔وہ میلہ مویشیاں میں بھی شاعروں کو ہوٹ کرنے جایا کرتے تھے کیونکہ اس زمانے میں میلہ مویشیاں کے موقع پر مشاعرہ بھی ہوتا تھا جس میں ہررنگ اور ہرنسل کے شاعروں کومدعو کیاجاتاتھا۔ستم ظریفی یہ ہوئی کہ ماسٹر فیاض نے گریجویشن کے بعد ماسٹرز کےلئے داخلہ بھی شعبہ اردو میں لیا۔وجہ اس کی صرف یہ تھی کہ ان کے نمبر ہی اتنے کم تھے کہ کسی اورشعبے میں انہیں داخلہ مل ہی نہیں رہاتھا اوروالدین اپنے ماسٹر کو ماسٹرز ضرور کرانا چاہتے تھے ۔انہیں ایم اے اردو میں داخلہ کیاملا شاعروں اور ادیبوں پرگویا براوقت آگیا۔میر وغالب کو وہ پنجابی لہجے میں پڑھنے لگے بلکہ بسا اوقات تو وہ اردو کے اشعار میں پنجابی لفظ کچھ اس طرح جڑ دیتے کہ نقل پربھی اصل کا گمان ہوتاتھا۔”ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے “ کو ماسٹرفیاض” ہوندا اے شب وروز تماشا میرے اگے“پڑھتے۔اسی طرح” لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں“ والے مصرعے کے بارے میں ان کاکہنا تھا کہ یہ مصرع اصل میں یوں ہے کہ ” لوگ نالے کو رسی باندھتے ہیں“۔ان کاکہنا تھا کہ شاعر سے چوک ہوگئی نالے کو رساتو باندھا ہی نہیں جاسکتا۔مختصر یہ کہ ماسٹر فیاض تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپناشعری اسلوب بھی خودایجاد کررہے تھے۔پھریوں ہوا کہ انہوںنے اردو میں ایم اے کرلیا۔ماسٹرز کے بعد ماسٹر فیاض نے نوکری کی تلاش شروع کردی کیونکہ ان کے والد صاحب نے صاف کہہ دیاتھا کہ اب انہیں گھر سے کوئی جیب خرچ نہیں ملے گا ۔قدرت کی خوبی دیکھئے کہ انہیں ملازمت بھی محکمہ تعلیم میں ملی۔وہ ایک کالج میں اردو کے لیکچرار بھرتی ہوگئے۔یوں شاعروں کاتمسخر اڑانے والے ماسٹر فیاض کارزق شعروادب سے وابستہ ہوگیا۔پہلے توماسٹر فیاض کچھ پریشان ہوئے کہ انہیں تو ایم اے کرنے کے باوجود شعر وادب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔مگر پھر ان کی ملاقات ایک ایسے دوست سے ہوئی جو شاپنگ کے دوران ہمیشہ دکاندار کوپیسے کم یا زیادہ دے آتاتھا۔اس نے جب بتایا کہ حساب کتاب میں کمزور ہونے کے باوجود وہ ایک کالج میں گزشتہ تین سال سے ریاضی پڑھارہا ہے۔تو ماسٹرفیاض کوحوصلہ ہوا۔کچھ دوستوں سے ادھار پیسے لیکر انہوںنے اردو کی کچھ گائیڈیں خریدیں اور ان کی مدد سے کلاس میں لیکچر دینا شروع کردیا۔طلباءمیں وہ جلد ہی مقبول ہوگئے۔مقبول کیوں نہ ہوتے۔طلباءکو تو وہی استاد اچھالگتا ہے جوانہیں ان کے حال پرہی چھوڑدے۔خواہ اس حال میں ان کامستقبل بھی ساتھ چھوڑ جائے۔ماسٹرفیاض کے لیکچرار بننے پرہمیں خودبہت حیرت ہوئی تھی۔ہم یہ ذہنی طورپر تسلیم کرنے کو تیارہی نہیں تھے کہ شاعروں کاتمسخر اڑانے والا شاعری کااستاد بن گیا ہے۔مگرپھر ایک روز توہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ماسٹرفیاض نے ہمیں بتایا کہ وہ ڈاکٹریٹ کی تیاری کررے ہیں۔”تو کیا آپ واقعی شعروادب میں دلچسپی لینے لگے ہیں“۔ہمارے اس سوال پر وہ مسکرائے اور کہنے لگے”بھائی میں شعر وادب میں نہیں ایک لڑکی میں دلچسپی لینے لگا ہوں۔ڈاکٹریٹ میں صرف اس لیے کررہا ہوں کہ اس کے نتیجے میں میری تنخواہ میں اضافہ ہو جائے گا۔اورتنخواہ بڑھ جانے کے بعد
شادی میں آسانی ہوجائے گی“۔شادی واقعی ان دنوں میں ماسٹر فیاض کابڑا مسئلہ تھا ۔پہلے تو ان کی شادی اس لیے نہ ہوتی تھی کہ وہ بے روزگار تھے لیکن جب روزگار میسر آگیا تو سٹیٹس کامسئلہ پیدا ہوگیا۔ماسٹر فیاض اب چونکہ لیکچرار تھے اس لیے ان کے والد ان کی شادی بھی کسی استانی سے نہیں لیکچرار سے ہی کرنا چاہتے تھے۔ رکاوٹ اب یہ تھی کہ اردو کے لیکچرار کے ساتھ انگریزی،فزکس یاکیمسٹری کی لیکچرارز شادی پرآمادہ نہیں تھیں اوراردو والیوں کے ساتھ وہ خود شادی نہیں کرناچاہتے تھے۔سو اب ایک ہی راستہ رہ گیاتھا کہ ماسٹرفیاض ڈاکٹریٹ کرلیں۔اورپھرچشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ ماسٹرفیاض ڈاکٹر فیاض ہوگئے۔اس ایک ڈاکٹریٹ نے ان کوکئی فائدے دیئے۔ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ۔شادی بھی ہوگئی اورساتھ میں اردوادب کی خدمت بھی۔لیکن شادی ان کی اسلامیات کی لیکچرار سے ہوئی کہ اس کامسئلہ بھی سٹیٹس ہی تھا ۔اسلامیات کی لیکچرار کے ساتھ کوئی بھی پڑھا لکھا خوف کے مارے شادی کرنے کے لیے تیارنہیں تھا۔اور ماسٹر فیاض تو خوف کی کیفیت سے پہلے ہی بے نیازہوچکے تھے۔
فیس بک کمینٹ