اردو کی مشہور کہاوت ہے کہ ہمارا شیر شیر تمہارا شیر ٹومی ( کہاوت میں جانور کے نام کی غلطی ہوتو معذرت قبول کی جائے ) اس سے مراد یہ ہے کہ دوسرے کی چیز کو غلط سمجھنا اور اپنی چیز کو درست سمجھنا ۔ قارئین غلطی معاف کیجیے گا میں قومی اسمبلی کے حلقہ ایک سو چون کے ضمنی انتخاب پر لکھنا چارہا تھا بے احتیاطی میں مثال لکھی گئی اسے نظر انداز کیجیے گا ، تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اور ایم این اے پانامہ کیس میں نااہل ہوگئے اب ان کے حلقہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب ہونے جا رہا ہے یہ پاکستان کا واحد حلقہ ہے جہاں ایک پارلیمانی مدت میں دوسری بار ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے ۔ حلقہ ایک سو چون کی بات کریں تو دوہزار تیرہ میں مسلم لیگ ن کے صدیق خان بلوچ نے چھیاسی ہزار ووٹ لیے جبکہ تحریک انصآف کے جہانگیر ترین نے بہتر ہزار ووٹ لی یہ نشست صدیق خان بلوچ نے جیت لی ۔ جہانگیر ترین عدالت گئے اور دھاندلی کے الزام اور ڈگری کے معاملے پر صدیق خان بلوچ نا اہل ہوگئے اور پھر دو ہزار پندرہ میں انتخاب ہوا ۔ حلقہ کے لوگوں کے بھاگ کھلے پیسہ لگا ۔ سیاسی ماہرین نے اس ضمنی انتخاب کو تاریخ کا مہنگا "ترین ” انتخاب قرار دیا ۔ اس ضمنی انتخاب میں جہانگیر ترین نے ایک لاکھ اٹھتیس ہزار جبکہ صدیق خان بلوچ نے ایک لاکھ ووٹ لیے جہانگیر ترین اٹھتیس ہزار ووٹوں کی برتری سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئے ۔ پھر پانامہ کا ہنگامہ شروع ہوا ۔ تحریک انصاف وزیراعظم کیخلاف عدالت گئی تو مسلم لیگ ن تحریک انصاف کی قیادت کیخلاف عدالت گئی ۔ عدالت کے فیصلے کے بعد جہانگیر ترین نااہل ہوگئے ۔ اب پھر لودھراں کے حلقہ ایک سو چون میں بارہ فروری کو ضمنی انتخاب ہونے جارہا ہے جہاں درجن سے زائد امیدوار میدان میں ہیں ۔ حلقہ ایک سو چون کی کل ابادی ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد ہے جبکہ حلقہ میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد اڑھا ئی لاکھ سے زائد ہے ۔ جبکہ زیادہ تر ووٹر کا تعلق دیہی علاقے سے ہے ۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے عمیر خان بلوچ ، پیر اقبال شاہ اور سعد خان کانجو نے کاغزات جمعہ کروائے جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے جہانگیر ترین کے بیٹے علی خان ترین امیدوار ہیں جنہوں نے اپنی بھرپور انتخابی مہم کا اغاز کردیا ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی سوانح عمری میں لکھتے ہیں کہ اس ملک کو سٹیٹس کو اور موروثی سیاست نے تباہ کیا وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے جدوجہد کریں گے ایسا نظام بنائیں گے جہاں عام ادمی اسمبلی میں آسکے گا ۔ اس کے علاوہ مختلف جلسوں اور پریس کانفرنسز میں عمران خان ” تبدیلی ” کا نعرہ لگاتے رہے وہ پیپلزپارٹی کو موروثی سیاست کا طعنہ دیتے ہیں کہ باپ کے بعد بیٹی اور اب بیٹی کے بعد بیٹا سیاست کررہا ہے ۔ یہی طعنے وہ مسلم لیگ ن کو دیتے رہے ہیں لیکن جب این اےایک سو چون سے جہانگیر ترین نااہل ہوئے تو ضمنی انتخاب میں اپنا امیدوار جہانگیر ترین کے بیٹے علی خان ترین کو ٹکٹ دے دیا ۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں جب ان سے سوال کیا گیا کہ اپ تو تبدیلی کا نعرہ لگاتے تھے اپ بھی موروثی سیاست کا شکار نکلے اور ٹکٹ جہانگیر ترین کے بیٹے علی خان ترین کو دے دیا جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ” حلقہ ایک سو چون میں علی خان ترین سے موزوں کوئی امیدوار نہیں تھا اس لیے انہیں ٹکٹ دیا ” خان صاحب سے سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کو حلقہ ایک سو چون سے کوئی موزوں امیدوار نہیں ملا ایسا شخص جس کی صرف یہ خوبی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کا بیٹا ہے جبکہ اسی ضلع میں تحریک انصاف کے ضلعی صدر ڈاکٹر شیر اعوان ، سابق ایم این اے نواب امان اللہ خان نواب حیات اللہ ترین موجود ہیں اگر یہ سئینر لوگ موزوں نہیں ان میں ایسی کونسی خوبی نہیں جو صرف علی خان ترین میں موجود ہے ۔ کیا تحریک انصاف کا نظام نا اہل ہوچکا ہے جو ملک میں نئی سیاسی قیادت تلاش نہیں کرسکی صرف موروثی سیاست ہی پروان چڑھے گی ۔ اس فیصلے سے تحریک انصاف کا تبدیلی کا نعرہ محظ نعرہ ہے درحقیقت عمران خان بھی سٹیٹس کو کے دلدہ ہیں ۔ اب لودھراں کی عوام کو سوچنا ہوگا کہ کیا وہ نسل در نسل غلام رہیں گے یہ ازاد سوچ سے ووٹ ڈالیں گے ۔
فیس بک کمینٹ