بیدل حیدری کو اعتراض ہے کہ ہم اپنے کالم میں ان کا تذکرہ کچھ ضرورت سے زیادہ کر تے ہیں۔ لیکن اس کا کیا کر یں کہ بیدل صاحب کی شخصیت ہی ایسی ہمہ جہت ہے کہ ان کے ذکر کے بغیر کالم ادھورا محسوس ہوتا ہے ،یوں بھی وہ کسی نہ کسی حوالے سے ادبی حلقوں میں بحث کا موضوع بنے رہتے ہیں اور اگر کبھی ان کا ذکر مدھم پڑ جائے تو کسی خط یاچونکا دینے والے بیان کے ذ ریعے پھر سے اپنے تذکرے کی لو بڑھا دیتے ہیں ۔ ہم آج ان کاذکر جس حوالے سے کر رہے ہیں یقینا اس پر وہ ناراض نہ ہوں گے ۔ ہوا یوں کہ 11مارچ کے روز نامہ جسارت میں ہمیں گفتار خیالی کی ایک نعت پڑھنے کوملی نعت کا مطلع پڑھتے ہی ہمیں بیدل حیدری کی وہ نعت یادآگئی جو کم وبیش چھ سات برس پہلے مختلف اخبارات میں شائع ہوئی تھی اور اس کا مقطع تو ہمیں اس قدر پسند آیا تھا کہ بعدازاں ہم جب بھی بیدل حیدری سے کھانسی کی دوا لینے گئے یہی شعر سن کر واپس آ گئے ۔ گفتار خیالی کی نعت کے مطلع کو توارد بھی کہا جا سکتا تھا ، لیکن افسوس کہ یہ توارد نہیں کیونکہ گفتار خیالی بھی کئی مرتبہ مشاعروں میں بیدل حیدری سے یہ نعت سن چکے ہیں ۔ پہلے بیدل حیدری کا مقطع سن لیجئے
بےدل نبی ﷺ کی نعت ہوجس پر چھپی ہوئی
اخبار کا وہ اتنا تراشا بھی روشنی
گفتار خیالی نے اس مضمون کو کچھ یوں بیان کیا
لکھے ہوں جس پہ اسم محمد ﷺ کے چار حرف
کاغذ کا وہ حسین تراشا بھی روشنی
اس موضوع کو یہیں ختم کر تے ہوئے ہم آپ کو ایک اور واقعہ سناتے ہیں ۔ قصہ یوں ہے کہ بیدل حیدری گزشتہ ماہ لاہور گئے تو اطہر ناسک نے ان کے اعزاز میں ایک شعری نشست کا اہتمام کر ڈالا تاکہ اپنے استاد محترم کو لاہو ر کے ادبی حلقوں میں متعارف کر واسکیں۔ مذکورہ نشست کی صدارت اشرف جاوید کے سپرد کر دی گئی تقریب میں بیدل حیدری نے گل افشانی گفتار کے وہ جوہر دکھائے کہ بیچارے اشرف جاوید اس صدارت پر کف افسوس ہی ملتے رہ گئے ۔ تقریب کی جو رپورٹیں اخبارات کے ذ ریعے اور فوٹو سٹیٹ پمفلٹوں کی صور ت میں ہم تک پہنچی ہیں اس کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بیدل حیدری کی وجہ سے وہاں تقریب کم اور تخریب زیادہ ہوئی ۔بیدل حیدری نے اس تقریب میں یہ دعویٰ کیا کہ سلیم کوثر، عباس تابش اور خادم رز می سمیت بہت سے لوگ پہلے میرے شاگر د ہوا کر تے تھے لیکن اب مجھ سے منحرف ہو گئے ہیں اور میں نے بھی انہیں عاق کر دیا ہے۔ عباس تابش کے بارے میں بھی بیدل حیدری نے بہت سی باتیں کیں جو آج کل ملتان اور لاہور کے ادبی حلقوں میں بیک وقت زیر بحث ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ بیدل حیدری کی اس ناراضگی کی وجہ عباس تابش کا وہ مضمون ہے جو انہوں نے ملتان میں اشرف جاوید کے ساتھ منعقد ہونے والی تقریب میں پڑھا تھا ۔ اشرف جاوید بے چارے عجب مشکل میں پھنس گئے کہ ان کی عباس تابش کے ساتھ بھی دوستی ہے اور اطہر ناسک کے ساتھ بھی ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ بیدل حیدری نے اب شاگردوں کو عاق کر نا شروع کر دیا ہے ورنہ آج تک تو وہ ہر چھوٹے بڑے شاعرکو اپنے حلقہ شاگردی میں شامل کر نے کی فکر میں رہا کر تے تھے ۔ کئی بار انہوں نے ہمیں بھی پیغام بھیجا کہ ہم ان کے شاگرد ہو جائیں ۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم شاعری میں حزیں صدیقی کے شاگرد ہیں اور اپنے مضامین اور کالموں کی مرمت اقبال ساغر صدیقی اور صلاح الدین حیدر سے کر اتے ہیں ۔ بیدل صاحب کا حکم تھا کہ ان تینوں کو چھوڑ کر میرے پاس آ جاﺅ میں ان سب پر بھاری ہوں۔ ابھی اس ہنگامے کا شور کم بھی نہ ہو ا تھا کہ ایک اخبار میں عابد مخدوم پوری کا ایک خط شائع ہو گیا ۔ عابد صاحب نے لکھا ”بیدل حیدری کو شاگرد بنانے کا بہت شوق ہے ان کے کلینک پر کوئی شاعر ایک بار بھی چلا جائے تو وہ کہتے ہیں یہ مجھ سے اصلاح لینے آیا تھا ۔ اگلے ہی ہفتے اس خط کے جواب میں اطہر ناسک کا ایک طویل و عریض خط شائع ہوا جس میں انہوں نے بتایا کہ بیدل صاحب اپنے کلینک پر آنے والے ہر مریض کو اپنا شاگرد نہیں کہتے ۔ اطہر ناسک نے دعویٰ کیا کہ سلیم کوثر جب بہت چھوٹے تھے تو بیدل حیدری کے پاس ہی رہتے تھے ۔ ان کی ابتدائی تربیت بیدل حیدری کے گھر میں ہی ہوئی تھی اطہر ناسک نے خط میں یہ بھی انکشاف کیا کہ میں نے رضی الدین رضی اور طفیل ابن گل کے ہمراہ بیدل حیدری کا ایک طویل انٹرویو ریکارڈ کیا ہے ۔ اس انٹرویو کی بہت سی باتیں آف دی ریکارڈ ہیں اور مجھے بیدل صاحب نے حکم دیا ہے کہ یہ باتیں ان کی زندگی میں منظرعام پر نہ لائی جائیں “بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بیدل صاحب نے انٹرویو میں دروغ گوئی سے کام لیا ہو گا انٹرویو لینے والوں میں چونکہ رضی الدین رضی بھی شامل ہیں اس لئے ہمیں تو یقین ہے کہ وہ یہ متنازع گفتگو بیدل حیدری کی زندگی میں ہی منظر عام پرلے آئیں گے ۔ رضی کو ویسے بھی متنازع باتیں اچھالنے میں لطف آتا ہے۔ اب وہ اپنے لطف کی خاطر بیدل حیدری کی موت کا انتظار کر نے سے تو رہے ۔
( روزنامہ جسارت کراچی ۔۔ 25مارچ 1988ء )
فیس بک کمینٹ