ملتان بھی تو راوی کنارے ہی آباد تھا
بتانا یہ تھا کہ راوی کے کنارے صرف لاہور نہیں ملتان بھی آباد ہواتھا۔ہم نے آج تک راوی کے ساتھ لاہورہی کا تذکرہ سنااورملتان کے ساتھ ہمیشہ چناب کا حوالہ دیا جاتاہے ۔راوی اورلاہور میں باہمی نسبت پیدا کرنے والے اس بات کو نظرانداز کردیتے ہیں کہ جب ملتان آباد ہوا تو اس وقت لاہور کا تو نام ونشان بھی نہیں تھااوراسے ملتان کا مضافاتی شہر کہا جاتا تھاکہ اصل پہچان تو ملتان کی تھی ۔سیاسی طورپر بھی اور اقتصادی طورپر بھی۔ملتان کی معیشت مضبوط تھی۔اسی لیے یہ حملہ آ وروں کا نشانہ بھی بارباربنتارہا۔راوی ملتان کے گرد حصار قائم کرتاتھایادوسروں لفظوں میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ملتانی راوی کے حصار میں خود کو محفوظ سمجھ کر آباد ہوئے تھے ۔اوراس خیال سے یہاں آباد ہوئے تھے کہ یہ دریا انہیں حملہ آوروں سے بچائے گا۔حملہ آور جب بھی کبھی ملتان کی جانب آئیں گے اوراس خیال سے آئیں گے کہ ہم نے اس شہر پر قبضہ کرنا ہے جہاں دولت ہی دولت ہے۔ جہاں چاندی اگتی ہے۔ اور جہاں سورج اپنے سونے کے تھال کے ساتھ پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا ہے ۔اور جب سورج چمکتا ہے تو یہاں کے آموں میں مٹھاس آتی ہے۔
نواب پور کے آم اور ہمارا سلیم اختر
اور یہ نواب پور ہے آموں کے باغات والا نواب پور ۔1980 میں یہاں دور دور تک باغات تھے جو اب کالونیوں میں تبدیل ہو گئے ہیں ۔ اسی نواب پور کے قریب بستی صالح مہے سے سلیم اختر مہے تانگےمیں بیٹھ کر سکول آتا تھا۔ پورا شہر عبور کر کے چھاؤنی کے اس سکول میں جہاں ہم نرسری سے دسویں تک پڑھتے رہے اور جہاں سامنے کمپنی باغ تھا اور سلیم ہمیں بتاتا تھا کہ میں نواب پور سے تڑکے تڑکے روانہ ہوتا ہوں تب کہیںجا کر وقت پر یہاں پہنچتا ہوں ۔ سلیم اختر اپنے آموں کے باغ سے ہم دوستوں کے لئے آموں کا تحفہ لاتا ہے ۔ اور خوبی ہمیشہ سے یہ ہوتی ہے کہ سلیم کے آم سب سے پہلے ہمیں موصول ہوتے ہیں ۔ سلیم کی وجہ سے مجھے معلوم ہوا کہ ملتان میں آم تحفے کے طور پر دینے کی روایت بہت مضبوط ہے ۔
بھپلا صاحب کے باغ میںدرخت کا پہلا آم
اور چناب کنارے اقبال حسن بھپلا کے باغ میں مجھے کسی درخت کا پہلا آم نصیب ہوا تھا ۔ آم جب پک کر درخت سے گرتا تھا تو بھپلا صاحب اس کے آواز سن کر ہی جان لیتے تھے کہ یہ آم کس درخت سے گرا ہے ، پھر وہ اپنے پوتےوقاص کو آواز دیتے تھے کہ جاؤ فلاں درخت سے آم گرا ہے وہ اٹھا لاؤ ۔ اور ایک روز انہوں نے ایک آم میری جانب بڑھاتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ اس درخت کا پہلا آم ہے جو میں آپ کو کھلا رہا ہوں ۔ اُس درخت نے کتنا عرصہ پھل دیا کس کس نے اس درخت کے آم کھائے یہ تو معلوم نہیں لیکن میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اس درخت کا پہلا آم کھانا نصیب ہواتھا ۔وہ کون سا آم تھا چونسا تھا دسہری یا رٹول یہ تو مجھے یاد نہیں لیکن آج کئی برس بعد بھی میں جب آم کھاتا ہوں اسی آم کا ذائقہ محسوس کرتا ہوں۔
مدد کے لئے پکارتی مظلوم لڑکیاں
لیکن ابھی نواب کا ایک واقعہ یاد میں موجود ہے پہلے وہ سن لیجئے پھر آگے بڑھتے ہیں ۔۔ عورتیں چیختی ہیں،چلاتی ہیں ، شور مچاتی ہیں لیکن وہ انہیں نواب پور کے چھوٹے سے بازار میں گھسیٹتے ہیں۔ اور ان لڑکیوں اور عورتوں کے کپڑے تارتارہوچکے ہیں۔وہ ہاتھوں سے خود کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ وحشی ان پر مزید تشدد کرتے ہیں پھرسناٹے میں گولیوں کی آواز سنائی دیتی ہے ۔یہ فائر قاسم نے کھولے تھے جو ایک بینک میں گارڈ تھا اور یہ شور سن کر باہر آیا تھا۔عورتوں کی چیخ وپکار اور حالت دیکھ کر اس نے وڈیرے کو للکارا مگر اس نے ایک نہ سنی تو وہ سامنے آگیا ۔بندوق تانی اور پھر ہوائی فائر کھول دیا۔اقبال شیخانہ اور اس کے ساتھی عورتوں کو برہنہ چھوڑ کر فرارہوگئے۔قاسم نے اپنی چادر ان لڑکیوں پر ڈالی اور انہیں ان کے گھر چھوڑ آیا۔
( جاری )