رضی الدین رضیکالملکھاری
بتانا یہ تھا کہ محترمہ کلثوم نواز کا وینٹی لیٹر اتر گیا ہے ۔۔ رضی الدین رضی

”پوچھنادراصل یہ تھاکہ کلثوم نواز کااب کیاحال ہے ؟“
”بس یوں ہی ذرا ٰخیال آیا کہ اب کلثوم نوا زکی خبرکیوں نہیں آتی “
اس قسم کے طنزیہ پیغامات آ پ کو گزشتہ ہفتے بھی فیس بک پرپڑھنے کوملے ہوں گے ۔
سووہ جوباربارپوچھتے تھے باربارطنزکرتے تھے انہیں خبرہوکہ اب انہیں یہ طنزیہ سوال نہیں کرناپڑے گااب انہیں کسی بیمارکامذاق نہیں اڑانا پڑے گااب انہیں کسی دکھیاری اورپردیس میں پڑی تنہاعورت کے بارے میں یہ دریافت نہیں کر ناپڑے گاکہ اب اس کی خبر کیوں نہیں آ رہی اور انہیں یہ بھی نہیں کہنا پڑے گا کہ یہ کیساوینٹی لیٹرہے کہ جب چاہوکسی کوزندہ کرلوجب چاہوبیمارکردو۔ ۔ سونوازشریف کے مخالفوں کو خبرہوکہ اب وہ کم ازکم اس مسئلے پرنواز شریف یاان کے اہل خانہ کامذاق نہیں اڑاسکیں گے کہ کلثوم نواز نے جاتے ہوئےانہیں طنز اور تمسخر کی اس سہولت سے بھی محروم کر دیا ہے ۔ وہ دکھ جھیل کر ابد کے سفر پر روانہ ہو گئیں اور اب انہیں اس سے بھی کوئی غرض نہیں کہ کسی نے ان کی موت پر دکھاوے کا کوئی تعزیتی بیان بھی جاری کیا ہے یا نہیں ۔ ہم اخلاقی طورپرپستی کی اس سطح پرکوئی پہلی بار نہیں پہنچے ۔سیاسی مخالفین کے دکھوں اورمشکلات کاتمسخر اڑاناہمیشہ سے ہماراوطیرہ رہاہے اوریہ ہم نے اس وقت بھی کیاتھاجب اکتوبر2007ء میں کارسازدھماکے میں محترمہ بے نظیر بھٹو بال بال بچ گئی تھیں اس وقت ان کے مخالفین نے کہاتھاکہ لیڈر اپنے کارکنوں کوتومروادیتے ہیں اور خود بچ جاتے ہیں ۔ اور یہ کیسا دھماکہ ہوتا ہے جس میں لیڈر کو خراش بھی نہیں آتی اور کارکن لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اورپھر اس واقعے کے چندماہ بعد ہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان دے کر اپنے مخالفین کا اعتراض ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا ۔ محترمہ کلثوم نواز کی بیماری پرشائد اس لئے بھی شبہ کیا گیا کہ ہمارے ملک میں بہت سی ”سیاسی بیماریاں“ رائج ہیں۔طاقت ورلوگ عموماََبیماری کے بہانے ملک سے نکل جاتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال جنرل پرویز مشرف کی ہے جوکمردرد کابہانہ کرکے ملک سے فرارہوئے اورپھر کچھ عرصے بعدہی ان کے رقص کی تصاویر ہم سب کے سامنے تھیں ۔لیکن اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہرشخص پرویز مشرف جیسادھوکے باز اورجھوٹاہوتا ہے۔آج محترمہ کلثوم نوا زکی وفات کی خبرسنتے ہی سب سے پہلاسوال یہی ذہن میں آیاکہ کیاان کی بیماری کامذاق اڑانے والوں کو اب ان کی موت کایقین آجا ئے گا؟۔کلثوم نواز کئی ماہ سے کینسر کاشکارتھیں وہ اس بیماری کی وجہ سے ضمنی الیکشن میں بھی حصہ نہیں لے سکیں تھی اوران کی غیرموجودگی میں ان کی جگہ یہ الیکشن ان کی صاحبزادی مریم نواز نے لڑاتھااورانہیں کامیابی بھی دلوائی تھی ۔یہ ضرورہوا کہ محترمہ کلثوم نواز کے علاج اوردیکھ بھال کے لئے نواز شریف اورمریم نواز کو بارہالندن جاناپڑا۔وہ جب بھی لندن جاتے تھے کہایہ جاتاتھاکہ وہ بہانے سے گئے ہیں اوراب واپس نہیں آئیں گے ۔پھر جب انہیں ان کی غیر موجودگی میں سزاسنادی گئی توعام تاثریہی تھاکہ نواز شریف اوران کی صاحبزادی مریم نوازاب کبھی وطن واپس نہیں آئیں گے ۔لیکن مخالفین کی توقعات کے بر عکس جب باپ بیٹی نے وطن واپسی کااعلان کیاتوایک نئی کہانی گردش کرنے لگی ۔پھر با خبر لوگ یہ بتانے لگے کہ نواز شریف اورمریم نواز لندن سے توضرور روانہ ہوں گے لیکن ابوظہبی پہنچنے کے بعد انہیں ”اچانک “ کلثوم نواز کے انتقال کی خبرموصول ہوگی اوروہ واپس لندن چلے جائیں گے ۔لیکن ان کی یہ کہانی بھی غلط ثابت ہوئی۔ دونوں باپ بیٹی وطن واپس آئے گرفتاری دی اور اب قانونی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ان کے مخالفین کے پاس اب اس کے سواکوئی چارہ نہ تھاکہ وہ محترمہ کلثوم نواز کی علالت پر شکوک شبہات کااظہارکرتے رہیں اور ان کی بیماری کا مذاق اڑاتے رہیں ۔آج کلثوم نواز کی طویل اذیت ختم ہوگئی تین مرتبہ پاکستان کی خاتون اول کااعزازحاصل کرنے والی یہ باہمت عورت اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جن دکھوں اورمصائب کاشکارہوئی وہ ہم سب کے سامنے ہیں ۔پاکستان میں جن خواتین کی جدوجہد کو ” مردانہ وار “ قرار دیا گیا کلثوم نواز ان میں سے ایک تھیں ۔ خاص طور پر مشرف کی آمریت کا انہوں نے جس دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا اسےہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ سو وہ لوگ جنہیں طنزیہ انداز میں محترمہ کلثوم نواز کا” حال “ پوچھنا ہوتا تھا اور جنہیں رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ کلثوم نواز کی خبر کیوں نہیں آ رہی انہیں خبر ہو کہ آج محترمہ کلثوم نواز کا وینٹی لیٹر اتر گیا ہے ۔