وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ بچپن سے ہی سنتے تھے اور شاید کچھ یقین بھی کرچکے تھے۔ مگر وقت ہی نے ثابت کیا کہ یہ جملہ طفل تسلی کے سوا کچھ بھی نہیں اور بات جب ہجرکی آن ٹھہرے تو پھر تو یہ قول جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ۔ ہجر وقت کا دیا ہوا وہ زخم ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناسور بنتا جاتا ہے۔ چاہے وقت کے دائرے اس کی ساری نشانیاں ساری یادیں مٹاتے بھی جائیں تب بھی یہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ہجر کے سائے اداسی کی چادر کی بکل مارے وقت کے ماروں کو مزید بے بس کرتے جاتے ہیں اور اداسی اپنے سائے پھیلاتی جاتی ہے اور بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ ایسے میں لفظ ہی ہیں جو ڈھارس بندھاتے ہیں ہجر کو بھی، اور اداسی کو بھی تسلیاں دیتے ہیں اور لفظوں کو اپنے بیان کےلئے روح چاہیے اور روح کو وہ من چاہیے جہاں سے اسے روشنی ملے زندگی ملے، نشوونما ملے اور من کو ایک پیکر چاہیے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کےلئے اور اپنی حکومت چلانے کےلئے کیونکہ پیکر یا تن تو اس کی سلطنت ہے جہاں پر سوچوں کے دائرے اس کی رعایا کی صورت میں اس کی بقا، اس کی حکمرانی کےلئے موجود ہیں۔ من کو من مانی کرنی ہے تو روح و جسم دونوں کا وجود ضروری ہے۔ کیونکہ روح موجود ہے اور جسم نہیں تو روح نے ہواﺅں میں خوشبو کی صورت بکھر جاناہے۔ ہواﺅں کا رزق ہو جانا ہے ۔اور جسم موجود ہے روح نہیں تو تن تو صرف کھوکھلا ویران گھر ہے جس کی عمارت تو ہے مگر مکین نہیں اورجو آباد نہیں وہ شاد کہاں اور جب شاد نہیں تو پھر صرف اور صرف اداسی مقدر ہے اور اداسی آکاس کی وہ بیل ہے جس کو جتنا کاٹتے جاﺅ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ جس کی خوراک کیکر اور ٹاہلی کے درختوں کے تناور جسم ہیں۔ جس نے ان کو بھی دیمک کی طرح کھا جانا ہے۔ کانٹے دار کیکر ہو یا ٹھنڈے ٹھار ٹاہلی کے پتے، آکاس بیل نے ان کے اصل وجود کو ختم کرکے ان کی شناخت کو ختم کرکے اپنے وجود کو دنیا کی ظاہری آنکھوں میں مجسم روپ دے دینا ہوتاہے اور دنیا تو صرف ظاہر دیکھے گی ، باطن میں کون جھانکے۔
حماد خان کی اداسی بھی اسی آکاس بیل کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے جس کو روح کی پیاس ہی غذا دے رہی ہے۔ وہ تشنگی جو زمانے کے بخشے ہوئے ہجر نے بخشی، ہجرکے دکھ کا کرب تو وہی جانیں جن کے دل و جان نے اس کو سہا ہو اور حماد خان نے تو ہجرت کا دکھ بھی سہا ہے۔ پردیس میں بیتے ہوئے ہر لمحے میں یہ ہجر ان کی اداسی کو بڑھا رہا ہے، توانا کررہا ہے۔ ان کی غزلوں کے اشعارپڑھ لیں یا نظم پڑھیں اداسی ان کی ہمسفر نظر آتی ہے۔ ایک کامیاب شخص نیویارک جیسے شہر میں اپنی دنیا بسائے ڈیرہ غازیخان جیسے ریگ زار سے تعلق کو سوچوں میں اب بھی نبھاتا نظر آتا ہے۔ میں اس بات تک تو نہیں پہنچ سکی کہ حماد خا ن کی زندگی میں یہ اداسی کہاں سے درآئی، کہاں سے ان کی روح کا حصہ بنی مگر ان کا کلام پڑھ کے یہ یقین ضرور ہوا کہ اس ہجر کا اس اداسی کا ان کی وطن سے دوری کے ساتھ ساتھ ان کی ذات سے وابستہ کسی مخصوص ہجر سے بھی تعلق ہے جس نے ان کی ذات کو اداسی کے سحر میں جکڑ دیا ہے۔ جو ان کے کلام میں جابجا رچا بسا ہوا ہے۔ اب یہ اداسی ان کے کالج کے دنوں کا خوبصورت تحفہ ہے یا بعد کی عملی زندگی کے بکھیڑوں کا نتیجہ یا کم عمر میں پردیس میں جاکر ہمیشہ پردیسی کہلانے کا دکھ یہ تو اللہ جانتا ہے یا وہ خود۔
جو مسافرِ وفا ہے، مرے ساتھ سے گریزاں
مری ذات ہورہی ہے، مری ذات سے گریزاں
یہ کشیدگی ہے اس کی، مرے عشق کی بدولت
وہ جوسب سے ہے ضروری، اسی بات سے گریزاں
مجھے عاشقی کے دم سے، یہ ملی ہے دولتِ غم
کبھی دن سے ہوں گریزاں کبھی رات سے گریزاں
کچھ اور خوبصورت اشعار ملاحظہ کیجیئے اور حماد خان کی اداسی کے بارے میں خود بتائیے
گردن کو طوق، پاﺅں کو زنجیر مل گئی
دیوانگی کوپھر مری توقیر مل گئی
لمحات کے ورق پر عبارت عجیب سی
کس طرح رنگ رنگ کو تفسیر مل گئی
بہرحال یہ اداسی ان کے قلم کی طاقت بن کر ہم جیسے ادب کے طالب علموں کےلئے ایک تحفہ کی صورت اتری ہے۔ ان کی غزلوں یا نظموں کے اسلوب ترنم اور اوزا ن و بحور کے متعلق بات کرنا تو ادب کے مستند تنقید نگاروں کا کام ہے اور اس پہ مجھ جیسی ادنیٰ طالب علم کوئی بھی رائے دینے سے قاصر ہے۔ ادب کے قارئین ہی ان کی کتاب پڑھ کر رائے دے سکتے ہیں۔ ان کے چنداور اشعار آپ کی نذر
سنی سنی سی صدا ، نا شناس موسم میں
یہ آج کس نے پکارا ،اداس موسم میں
مرے سماج نے بخشی ہیں تلخیاں مجھ کو
میں کس طرح سے ملاﺅں ،مٹھاس موسم میں
میری دعا ہے کہ محترم حماد خان کی اداسی بڑھنے کی بجائے کم ہو۔ ان کا دکھ اس اداسی کی وجہ سے کم ہو اور ان کے اشعار میں بھی ہمیں خوشیوں کے ترنم سنائی دیں۔
فیس بک کمینٹ