حافظ سراج اور عطاءاللہ خوش نویس کی رفاقت
اکثر ہماری کوشش ہوتی تھی کہ دفتر سے عطاءاللہ خوش نویس یا خطاط حافظ سراج صاحب کے ہمراہ دفتر سے روانہ ہوا جائے ۔ عطاء اللہ ہمارے کالم کی کتابت کرتے تھے اور حافظ سراج صاحب بہت اعلیٰ پائے کے خطاط تھے جو بعد ازاں ڈاکٹر طاہر القادری کے ادارے منہاج القران کے اشاعتی ادارے سے منسلک ہو گئے ۔ ہمارے کالم کا پہلا لوگو بھی حافظ سراج صاحب نے ڈیزائن کیا تھا ۔ حافظ صاحب اور عطاء اللہ دونوں سائیکل پر بستی خداداد کے لیے روانہ ہوتے تھے۔ اب اس بستی کوخداداد کالونی کہا جاتا ہے۔عطاءاللہ یا حافظ سراج صاحب کی ڈیوٹی ہم سے پہلے ختم ہوجاتی تھی ۔عطاءاللہ خوش نویس تھا اور اخبار کے لیے باریک میٹر لکھتاتھا۔اس کا کام پہلے ختم ہوتا ، حافظ سراج صاحب شہ سرخی لکھتے تھے اور جب شہ سرخی لکھی جاتی تو اس کی فلم بنوانے اور اس کوکاپی پر چسپاں کرنے کے عمل میں آدھ پون گھنٹہ مزید لگ جاتاتھا۔سو یہ دونوں کبھی تو ہمارے انتظار میں کچھ دیر ٹھہر جاتے اوراگر ہمیں زیادہ دیر ہوتی تو وہ دفتر سے چلے جاتے کیونکہ ان کاسفر بھی تو زیادہ تھا۔
قبرستان والی سڑک سے ڈرتے ڈرتے گزرنے والا نوجوان
ان کی غیرموجودگی میں ہم کسی اور ساتھی کو ریلوے سٹیشن پر چائے کی دعوت دیتے ۔مقصد صرف یہ ہوتا کہ قبرستان حسن پروانہ سے گزرتے ہوئے ہم تنہا نہ ہوں ۔مُردوں کے مقابلے کے لیے کوئی ہمارے ساتھ ضرور ہو۔اب کسی کو یہ تو نہیں بتایا جاسکتا تھا کہ ہمیں قبرستان والی سڑک سے گزرتے ہوئے خوف آتا ہے ۔ساتھی تو اس پر ہمارا مذاق اڑاتے کہ بے دھڑک ، بےخوف ہو کر” ڈرتے ڈرتے “ کے عنوان سے مارشل لاءکے خلاف کالم لکھنے والا قبرستان سے تو واقعی ڈرتے ڈرتے گزرتا ہے۔زندہ لوگوں کو آنکھیں دکھانے والا بند آنکھوں والے مردوں سے ڈرتا ہے۔
عارف محمود قریشی ، مُردوں اور خفیہ والوں کا تعاقب
عارف محمودقریشی اسی اخبار میں رپورٹرتھے اور کوئی سنتا ہی نہیں کے نام سے کالم لکھ کر لوگوں کو اپنی بات سنانے کی کوشش کیا کرتے تھے۔عارف محمودقریشی دفتر سے جلدی چلے جاتے تھے لیکن کبھی کبھار ہم اپنا خوف دورکرنے کے لیے انہیں روک لیا کرتے تھے۔وہ تازہ تازہ لاہور قلعے کی قید کاٹ کرآئے تھے۔ان کے ساتھ بیٹھ کر جنرل ضیاءکو برا بھلا کہنے کا بہت لطف آتاتھا۔عارف محمودقریشی کے ساتھ چلتے ہوئے مُردو ں کی بجائے خفیہ والوں کے تعاقب کا خوف ہوتا تھا۔اور یہ خوف ہمارے لیے مُردوں کے خوف سے کم تھا۔سو جب ان میں سے کوئی بھی ہمارے ساتھ نہ ہوتا تو ہم تنہا دھڑکتے دل کے ساتھ سبزی منڈی والے موڑ سے پہلے سائیکل تیز تیز چلانا شروع کردیتے۔
مُردہ ہمارے استقبال کے لئے سڑک پر آ گیا
اس دوران کبھی یوں محسوس ہوتا کہ جیسے کوئی ہمیں آواز دے رہا ہے ، کوئی ہمیں اپنے پاس بلا رہاہے۔ منہ سر لپیٹے شدید سردی میں سفید چادر اوڑھے کوئی راہ گیر بھی دکھائی دیتا تو ہمیں یوں لگتا کہ جیسے کوئی مردہ ہمارے استقبال کے لیے سڑک پر ہی آگیا ہے۔اسی بھگدڑ میں ایک بار تو عین قبرستان کے وسط میں ہمارے سائیکل کی چین اتر گئی تھی ۔”جائے ماندن نہ پائے رفتن“۔ ایک بار تو جی چاہا کہ سائیکل وہیں سڑک پر چھوڑ کر بھاگ جائیں لیکن پھر اگلے ہی لمحے سوچا کہ سائیکل تو مُردوں کے کسی کام نہیں آئے گی اور آج اگر سائیکل بھی چھوڑ دی تو پھر کل سے یہ راستہ پیدل بلکہ دوڑ کر طے کرنا پڑے گا۔مختصر یہ کہ ہم سرپٹ سائیکل دوڑاتے ،ہانپتے کانپتے جی پی او تک پہنچتے وہاں رک کر کچھ دیر اپنی سانسیں بحال کرتے کہ وہاں سے امروز کے دفتر اور ڈیرہ اڈا کی رونقیں شروع ہوجاتی تھیں۔
( جاری )