ہمارے پاس خوشبوئیں
ہمارے پاس پھول ہیں
کچھ آبلے ہیں پاؤں میں بدن تھکن سے چور ہیں
ہماری منزلیں ہمارے سامنے تو ہیں مگر
بہت ہی ہم سے دور ہیں
کہ راستوں میں خار ہیں
کہ راستوں میں دُھول ہے
ہمارے سامنے ہمارے دشمنوں کی فوج ہے
یہ خود کشوں کی فوج ہے
یہ بزدلوں کی فوج ہے
یہ فوج ہے کہ جس کے پاس خوشبوئیں نہ پھول ہیں
نہ اِس کے کوئی ضابطے نہ اِس کے کچھ اصول ہیں
عجیب سے یہ لشکری
کہ جیت کر بھی خوش ہیں اور نہ ہار کر ملول ہیں
یہ فوج ہے کہ جس کو اسلحہ تو مل گیا مگر
اِسے خبر نہیں کہ ِاس کے راستوں میں کون ہے
یہ جانتی نہیں کہ اِس کے دوستوں میں کون
اور دشمنوں میں کون ہے
یہ بد نصیب لشکری
ہے ان کے پا س اسلحہ ہمارے پاس پھول ہیں
مگر انہیں گمان ہے کہ ہم ہی بے اصول ہیں
انہیں گمان جو بھی ہو ہمیں تو اب یقین ہے
کہ راستہ کٹھن سہی
ہم اس زمیں پہ بے زمیں وطن میں بے وطن سہی
لہو لہو زمین اور خزاں خزاں چمن سہی
یہ تن ہے بے لباس گر تو سر پہ پھر کفن سہی
مگر وہ وقت آئے گا
یہ بزدلوں کی فوج جب مقابلے میں آئے گی
تو ہم سے ہار جائے گی
یہ خود کشوں کی ٹولیاں کہ جن میں کچھ یزید ہیں
شہادتوں کے منتظر
انہیں کوئی بتائے اب کہ ہم تو ایسے لوگ ہیں
دلوں میں جن کے روگ اور گھروں میں جن کے سوگ ہیں
نظر دھواں دھواں ہے اور لبوں پہ اپنی پیاس ہے
ہمیں خبر ہے بس کفن ہی اپنا اب لباس ہے
چراغ ہاتھ میں ہیں اور لہو بھی اپنے پاس ہے
یہ بزدلوں کی فوج صرف زندگی بجھائے گی
مگر ہمارے پاس جو چراغ ہیں
مگر ہمارے ہاتھ میں جو پھول ہیں
رضی الدین رضی