ادبرضی الدین رضیکالملکھاری
شاہ جی ! ابھی قلندر کا بلاوا نہیں آیا ۔۔ رضی الدین رضی

مسعود کاظمی صاحب ہمیں دیکھ کر مسکرائے اور پھر گفتگو کے دوران کہنے لگے بس میرا بھی وقت آ گیا ہے ۔ ”شاہ جی! ابھی آپ کا وقت نہیں آیا ابھی آپ اپنے گھر پر موجود ہیں، ابھی تو آپ نے ہم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں، ابھی تو آپ نے بہت سے کام کرنے ہیں، ‘‘دبستانِ ملتان‘‘ جیسی کچھ اور منفرد کتابیں لکھنی ہیں ، اور ابھی تو آپ نے میرے ساتھ شہباز قلندر کے مزار پرجانا ہے اور پھر ہم نے وہاں دھمال ڈالنی ہے، اور شاہ جی بلاوا ہمیں شہباز قلندر کی جانب سے آئے گا اور جب بلاوا آئے گا تو پھر ہم وہاں جائیں گے ۔
دھمال ڈالتا جاﺅں گا اُس کی جانب مَیں
جب ایک دن مری مٹی مجھے پکارے گی
اور شاہ جی جب مٹی پکارے گی تو ہم پہلے وہاں جائیں گے قلندر کی درگاہ پر ، ہم رقص میں شامل ہونے کے لئے وہاں رقص کرتے جائیں گے اور پھر ” ہم خوش قسمت ناچتے ناچتے مر جائیں گے“ شاہ جی ہم نے گھروں میں نہیں دھمال میں مرنا ہے۔ میرے اس جملے پر شاہ جی مسکرائے، نقاہت کے باوجود جتنا زور دار قہقہ لگا سکتے تھے شاہ جی نے لگایا، میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور اُٹھ کر بیٹھ گئے۔
کل ہم کاظمی صاحب سے خاص طور پرملنے گئے تھے اور اس لئے ملنے گئے تھے کہ ہم 16 فروری کو جب سیہون شریف میں چیخ وپکار ہو رہی تھی اور جب وہاں لاشوں کی گنتی کی جا رہی تھی اور زخمیوں کو اٹھایا جا رہا تھا تو ہم عین ان لمحات میں مسعود کاظمی صاحب کے پاس موجود تھے۔ ہم اس روز انہیں اس لئے ملنے گئے تھے کہ وہ اس مرتبہ 16 فروری کو ادبی بیٹھک کی سالگرہ کی تقریب میں علالت کے باعث شریک نہیں ہو سکے تھے۔ یہ تقریب ہم نے اس مرتبہ لاہور اور پشاور کے دھماکوں کے بعد ویسے بھی سادگی کے ساتھ منائی تھی اور دوستوں کو بتایا تھا کہ ہم اس مرتبہ ہر سال کی طرح ادبی بیٹھک میں کیک کاٹیں گے اور نہ ہی پھولوں اور تحائف کا تبادلہ کریں گے۔ 16 فروری کو کاظمی صاحب کی ہمارے ساتھ وابستگی کی بھی ساتویں سالگرہ تھی ۔ کہ 20 فروری کو رخصت ہونے والے شاہیا صاحب نے جانے سے پہلے مسعود کاظمی کو وصیت کی تھی کہ یہ بیٹھک رضی نے میری خواہش پر بنائی ہے اور معلوم نہیں میں اس کے کسی اجلاس میں شریک بھی ہو سکوں گا یا نہیں لیکن کاظمی میری نمائندگی تم کیا کرو گے ۔ اور رضی شاکر اور نوازش کے شانہ بشانہ رہو گے۔ شاہیا صاحب صرف بیٹھک کے قیام کی خبر ہی سن سکے تھے اور افتتاحی اجلاس کے بعد ہمیں پہلا اجلاس شاہیا صاحب کی یاد میں ہی منعقد کرنا پڑا ۔ شاید کاظمی صاحب کو ہم اس اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی نہ دے سکے تھے لیکن اجلاس شروع ہوا تو کاظمی صاحب ادب کی دنیا سے اپنی خود ساختہ طویل جلا وطنی ترک کر کے ہمارے درمیان موجود تھے ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ میں سخن ور فورم اور اس بیٹھک کا حصہ بن گیا ہوں اور میں یہاں نجم الاصغر شاہیا کی نمائندگی کروں گا کہ یہ ان کی وصیت تھی۔ مسعود کاظمی اس روز کے بعد سے ہماری ہر تقریب میں موجود ہیں۔ گزشتہ سات برسوں کے دوران وہ بیٹھک کی ہر سالگرہ میں بھی باقاعدگی کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ اس مرتبہ کاظمی صاحب بہت بے چین اور آزردہ تھے وہ بار بار پوچھتے رہے کہ تقریب کیسی جارہی ہے۔ تقریب کے دوران ہی میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں سخن ورفورم کے دوستوں کے ساتھ اس تقریب کے بعد انہیں ضرور ملنے آﺅں گا لیکن اسی دوران سیہون شریف میں دہشت گردی کی خبر آ گئی ۔ہم نے تقریب کو عجلت میں منسوخ کر دیا کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد مزید گفتگو کا ہم میں سے کسی میں بھی یارا نہیں تھا۔ شاہ جی کو بھی ہم نے بتا دیا کہ ہم اب آپ سے ملنے نہیں آ سکیں گے لیکن ان کا اصرار تھا کہ آپ چند لمحوں کے لئے ہی سہی آج مجھے ضرور ملیں ۔شاکرحسین شاکر ، قمر رضا شہزاد اور اسرار چودھری کے ہمراہ ہم اس روز شاہ جی کے گھر پہنچے تو ان کی حالت اچھی نہیں تھی۔ وہ جس بستر پر لیٹے ہوئے تھے اسی کے قریب ہم کرسیاں کھینچ کر بیٹھ گئے اور شاہ جی کا ہاتھ تھام کر ان سے گفتگو کرتے رہے، دھماکے کی خبر نے انہیں مزید نڈھال کر دیا تھا۔ شاہ جی کے ساتھ کچھ وقت گزار کر ہم واپس آ گئے اور ان سے وعدہ کیا کہ ہم دوبارہ آپ کے پاس آئیں گے ۔سو کل ہم شاکر حسین شاکر اور اسرار چودھری کے ہمراہ دوبارہ کاظمی صاحب کے گھر گئے۔ زیادہ بہتر تو نہیں لیکن شاہ جی اب پہلے سے قدرے بہتر دکھائی دے رہے تھے ۔ اب وہ بیٹھ سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ بیٹھے ، گفتگو بھی کی، کچھ باتوں پر روایاتی انداز میں خفگی کا اظہار بھی کیا، دوستوں کی خیریت دریافت کی، بچوں کا حال پوچھا اور پھر بتایا کہ مجھے ابھی بہت سی کتابیں تحریر کرنی ہیں اور میں نے ابتدائی کام شروع بھی کر دیا ہے۔ شاہ جی ابھی بہت دن تک گھر سے نہیں نکل سکیں گے لیکن انہوں نے اپنے لان میں ایک خوبصورت چھتری نصب کی ہے اور اس کے ساتھ کچھ کرسیاں رکھی ہیں کہ جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوں گے تو اس چھتری کے نیچے بیٹھیں گے، اور دوستوں کو گھر بلا کر ان کے ساتھ چائے پیئں گے۔ ایک بہت متحرک انسان جب ایک کمرے میں محدود کر دیا جائے تو اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ ہم نہیں کر سکتے ۔سو شاہ جی کبھی حوصلے اور کبھی مایوسی میں چلے جاتے ہیں۔ ہمارا رویہ یہ ہے کہ ہم چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے لوگوں کے ساتھ ہی چلنا پسند کرتے ہیں اور جب کوئی اپنے گھر تک محدود ہو جاتا ہے محفلوں میں آنے کے قابل نہیں رہتا اور زندگی کے دوڑ میں ہانپنے لگتا ہے تو ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ کر اآگے بڑھ جاتے ہیں پلٹ کر بھی اس کی جانب نہیں دیکھتے۔ وہ ڈاکٹر اسلم انصاری ہوں۔ اقبال ارشد ہوں یا محترم ایاز صدیقی ہم میں سے کسی کے پاس بھی وقت نہیں کہ ہم چند لمحے ان کی رفاقت میں گزاریں اور ان کے ساتھ ان موضوعات پر گفتگو کریں جو ان کے ساتھ ان کے گھر کا کوئی اور فرد نہیں صرف ہم ہی کر سکتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد صرف یہ ہے کہ آپ جب اسے پڑھیں اور اس مصروف دنیا میں آپ کے پاس شاہ جی کو رفاقت دینے کے لئے وقت بھی نہ ہو تو کم ازکم انہیں مختصر سا فون ضرور کر لیجیئے کہ شاہ جی تو اب ویسے بھی طویل گفتگو نہیں کر سکتے۔ وہ اپنے گھر کے ایک کمرے میں دوستوں کی آواز کے منتظر رہتے ہیں کوئی ایسی آواز جو انہیں حوصلہ دے انہیں بتائے کہ شاہ جی ہم اب بھی آپ کے ساتھ ہیں اور ہمیں گھروں سے نکل کر دھمال میں جانا ہے اور دھمال کے لئے شہباز قلندر کا ابھی ہمیں بلاوا نہیں آیا۔
Have you ever had problems with your webhost?
I’m open for recommendations as my webhost is
awful now.
I found your blog site through my social media– it’s now
in my bookmark list!