حسن رضا گردیزی کو کسی صحرا نشین اور خانہ بدوش قبیلے میں جنم لینا چاہیئے تھا کہ کبھی وہ حالتِ قیام میں ایستادہ کھجوروں کے جُھنڈ میں خیمہ زن ہوتے کبھی صحرا کے غزل آفریں ٹیلوں پر بیٹھ کر کُھلے آسمان کے نیچے نے نوازی کرتے اور کبھی بچی ہوئی ریت پر جھلملاتی چاندنی میں غزالانِ سیم تن پر اپنے خلاق قلم سے گُل کاری کرتے گردیزیت اور زمینداریت ان کی غزلائی ہوئی طبع پر” سُوٹ “ نہیں کرتی ۔ شاہ جی کے پاس جو منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں اور جاگیریں ہیں وہ کسی گیلانی ، گردیزی ، خاکوانی کے خواب و خیال میں ہی آ سکتی ہیں ذہانت ، علم ،تخلیق، شعر و نثر ان کی منقولہ جائیدادیں ہیں اور ان کی غیر منقولہ جائیداد میں ہجویات وہزلیات کا ایک ایسا ذخیرہ ہے جس سے بُجھے ہوئے دلوں کو مُسّرت ملتی ہے ۔ شاہ جی کے حُسنِ ظرافت کا جوہر اس وقت کھِلتا تھا جب وہ کسی جہالت مآب مگر صاحبِ منصب اور کروفر والے شخص کے ساتھ یا اس کے بارے میں گفتگو فرماتے تھے۔ ایسے موقعوں پر وہ نہایت انکسار کے ساتھ بظاہر تعریفی جُملے ادا کرتے، لیکن ان جُملوں کے پاتال میں طنزو مزاح میں ڈوبی ہوئی جہالت سے نفرت کی ایسی لہر ہوتی تھی جس کو کوئی تربیت یافتہ حس مزاح رکھنے والا ہی ENJOY کر سکتا تھا ۔جہل کے سامنے شاہ جی کی اسی گردن فرازی نے ساری سروس میں شاہ جی کو پروموشن کی تہمت سے بچائے رکھا، چنانچہ گریجویشن کے بعد جس پوسٹ پر مامور ہوئے تھے نہایت ثابت قدمی کے ساتھ اسی سے ریٹائر ہو کر گھر لوٹے۔ اس کے بعد حکومت نے ان کی ثابت قدمی کی یوں داد دی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ آنریری مجسٹریٹ لگا دیا۔ جہل وجاہل کی ناپسندیدگی کے برعکس جس جوش و خروش کے ساتھ اور جذباتی انداز میں علم و صاحبِ علم کے قدردان تھے وہ بھی بے مثال ہے آپ کے۔ ملفوظات میں ہے کہ اگر کوئی عالم میرے ساتھ بد تمیزی بھی کرے تو اس کے علم کے احترام میں مُجھے گوارا ہو گا ۔ شاہ جی کی شخصیت کی تعمیر و تخریب میں جن لوگوں نے حصہ لیا ان میں جوش ملیح ّآبادی، اختر شیرانی، کشفی ملتانی اور مجید امجد کے نام نمایاں ہیں، ورنہ خود شاہ جی کے والدِ گرامی عابد، تہجد گزار ، زاہد، سحر خیز اور سالکِ با صفا تھے اور شاہ جی کو وہی کچھ بنانا چاہتے تھے جسے بقول جوش ”اہلِ مدرسہ کی لغت میں جوانِ صالح اور اہلِ نظر کی زبان میں بے ذوق کہتے ہیں‘‘۔ شاہ جی کی ذہنی اور فطری تربیت انہی حال مست درویشوں کے سائے میں ہوئی۔ چنانچہ اختر شیرانی کے مکتبِ رعنائی سے ” یحب الجمال “کی تربیت پائی اور جوش ملیح آبادی نے ”ولا تفرقو “ کے رموز سکھائے۔ یوں شاہ جی نہایت غیر سنجیدگی کے ساتھ سنجیدہ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوئے۔ وہ روایتوں کے عقیدت بھرے اور ملائم لفظوں کی شعبدہ کاری کا ہنر جاننے والوں کی سحر آفریں گفتگو کے طلسم میں اسیر ہونے اور قبروں کے مجاوروں کی دانہ شماری میں آنے کے بجائے درویشانِ حق کی صدائے خلوص کو تر جیح دینے لگے اور وہ ایسی بے ریا اور شفاف طبیعت کے مالک تھے جس کی کوکھ احترامِ انسانیت کی عالمگیر خوشبو سے معطر تھی۔ ملتان مٹّی کو خوب لتیڑ لتیڑ کر شاہ جی کا پیکرِ لحیم بنایا گیا، پھر اس پر محلہ کمنگراں اور شاہ گردیز کے کاشی گروں نے نقش کاری کی، رہی سہی کسر ملتان کی اودھی شاموں اور بنارسی صبحوں نے پوری کر دی اور پھر شاہ جی کو ملتان کی ایک تہذیبی شخصیت قرار دینے میں کوئی امر مانع نہ رہا۔ فارسی ادبیات کا جذباتی مطالعہ موسیقی کے سُر تال کا وجدانی شعور، فنونِ لطیفہ سے گہرا رشتہ اور انسانی قدروں کی پاسداری اس درویش کو مست ذات رکھتی تھی۔ موقع محل کے مطابق فارسی شعر پڑھ کر خود جھوم جھوم جاتے تھے، بعض اوقات تو لگتا تھا کہ اگر خاندانی نجابت اور معاشرتی قدغن مانع نہ ہوتی تو یہ مست مجذوب تہذیبِ لباس سے بے نیاز ہو کر کسی چوک پر عرفی، خیام، حافظ، نظیری، غنیمت، غنی کے شعر پڑھ پڑھ کر ناچنا شروع کر دیتا۔ کبھی کبھی صورتِ حال کے مطابق اس قدر بلیغ اور تخلیقی جُملے ادا کرتے تھے کہ بظاہر خوشامد اور مدح سرائی لگتی تھی لیکن حقیقت میں سامع پر تنقیص کے جوتے برس رہے ہوتے تھے ۔ شاہ جی کی شعر خوانی کا انداز اگر کوئی عام آدمی دیکھتا تو پہلے سنتا پھر حیرت میں ڈوب جاتا تھا اور اگر اس میں عقل و علم کی رَتی بھی ہوتی تو پھر جھوم اُٹھتا۔ شاہ جی کا مسلک جاننے کے لیے اس شعر کی تفسیر سمجھنا ضروری ہے
مباش درپئے آزار ہر چہ خواہی کُن
کہ درشریعت ِ ما جز ازیں گنا ہے نیست
حر کت و حرارت شاہ جی کی شخصیت کے دو اہم لیکن قدرے خفیہ گوشے تھے، حرکت اس طرح کہ ان کا جسم ساکت لیکن دل و دماغ اور روح و خیال مُتحرک رہتے تھے۔ اس لیے بادیء النظر میں ان کی سیماب صفت روح کا البیلا پن اوجھل رہتا اور حرارت کی سر بستگی یو ں کہ ان کا ہر ہر قہقہہ ذہانت آمیز، فکر انگیز اور ظرافت و طنز کی شرارت سے لبریز ہوتا تھا۔ ان کی ہنسی دانائے راز کی ہنسی تھی، جب کوئی عاقل کائنات کی لا حاصلی اور لا یعنیت کو جان جاتا ہے تو ہنسنا شروع کر دیتا ہے، یہ رونے سے بھی آگے کی منزل ہے، جذباتی، ہیجانی اور حسی سطح پر آدمی روتا ہے اور فکری، عرفانی اور وجدانی سطح پر رونے پر بھی ہنستا ہے، کبھی خود پر، کبھی دوسروں پر، کبھی کائنات پر۔ شاہ جی ادب اور انسان کی گروہی تقسیم سے بالا تر تھے لیکن اگر ان کو کسی جماعت میں لانا ضروری ہے تو پھر وہ اس نظریہ فن رکھنے والے گروہ سے تعلق رکھتے تھے جن کا نقطہءنظر رومانوی ہے وہ فن کا مقصدِ وحید جمال آفرینی اور مسرت یابی کو قرار دیتے تھے۔ چنانچہ تجریدیت میں ان کا دم گُھٹتا تھا۔ وہ ایسے ادب پر تین حرف بھیجتے تھے جو نگاہ کو گلاس ، درد کو ہنڈیا، محبوب کو ریفریجیٹر، خیال کو سڑک اور بادل کو شیشم کا درخت کہنے پر مُصر ہے۔ فنی اور تخلیقی نظریے کے طور پر وہ جیمز وائٹ، کیٹس، ورڈز ورتھ، اختر شیرانی اور جوش کے معتقد تھے ۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی
فیس بک کمینٹ