مارچ1983ءمیں جب میں نے روزنامہ سنگ میل سے اپنے صحافتی سفر کاآغازکیاتوان دنوں بھارت میں سکھوں کی تحریک عروج پرتھی اور اسے خالصتان کی تحریک کانام دیاگیاتھا ۔بھارت کاکہنا تھا کہ اس تحریک کے پیچھے پاکستان کاہاتھ ہے اور جنرل ضیاءکی فوجی حکومت خالصتان تحریک کی پشت پناہی کررہی ہے۔سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالا اس تحریک کی قیادت کررہے تھے اوران کے ساتھ ایک اور نام سنت ہرچند سنگھ لونگووال کابھی تھا۔ ان دونوں کی کہانیاں اورتصویریں اس زمانے کے اخبارات کا موضوع ہوتی تھیں ۔مجھے یاد ہے روزنامہ جنگ لاہور میں ان سکھوں کی تصویروں کے ساتھ پورے پورے صفحے کے رنگین فیچر شائع ہوتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب میں نے روزنامہ سنگ میل میں ادبی ایڈیشنوں کی اشاعت کا ایک سال مکمل ہونے پر11جولائی 1985ءکوادبی ایڈیشن کاخصوصی نمبر شائع کیاتھا اس خاص نمبر میں اظہر سلیم مجوکہ نے میرا جو خاکہ تحریر کیااس کا عنوان تھا ”رضی الدین رضی ،ادب کابھنڈرانوالا“۔یہ عنوان انہوں نے اس آپریشن بلیو سٹارکے تناظر میں دیا تھا جوبھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے 8جون1984ءکو گولڈن ٹیمپل میں موجود سکھ عسکریت پسندوں کے خلاف کیاتھا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اس آپریشن میں 800سکھ اور 200بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جن میں خالصتان تحریک کے قائد سنت جرنیل سنگ بھنڈرانوالا بھی شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ آپریشن کیاگیا تو اس وقت بھارت کے صدر بھی گیانی ذیل سنگھ تھے۔ یہ تفصیل اس لیے ضروری ہے کہ میں جس بریکنگ نیوز کی آپ کوکہانی سنانے جارہاہوں اس کا آپریشن بلیو سٹار سے گہرا تعلق ہے اوروہ میرے صحافتی کیریئر کی پہلی بریکنگ نیوز تھی اور یہ اس زمانے کی بریکنگ نیوزتھی جب ابھی بریکنگ نیوز کا لفظ بھی مستعمل نہیں ہواتھا۔یہ پہلی بریکنگ نیوز ہی نہیں تھی اس روز میں نے اپنی صحافتی زندگی کا پہلا ضمیمہ بھی تیارکیاتھا۔
ضمیموں کی اشاعت اب ختم ہوچکی ہے لیکن آج کے نوجوانوں کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ضمیمہ اخبار کی معمول کی اشاعت سے ہٹ کر شائع کیاجاتاتھا اوراسی لیے اسے ضمنی اخبار یا ضمیمہ کہتے تھے۔اس پراخبار کی جلد نمبر، شمارہ نمبر اور تاریخ بھی تبدیل نہیں کی جاتی تھی ۔ضمیمے کے صرف ایک صفحے پرخبریں ہوتی تھیں اور اس کا پچھلا صفحہ خالی چھوڑ دیاجاتاتھا اور بعض ضمیمے لوگ خرید کر اشتہار کی طرح دیواروں پربھی چسپا ں کردیتے تھے۔
روزنامہ سنگ میل میں کوئی ایک برس کام کرنے کے بعد میں 1984 میں روزنامہ نوائے ملتان کے ساتھ منسلک ہوگیا۔ یہ شام کا اخبار تھا اس کے ایڈیٹر خلیل بھٹی تھے اوران کے ساتھ مظفر محموداویسی اس اخبار کے معاملات دیکھتے تھے ۔مظفرمحموداویسی کے والد ڈاکٹر فاروق اویسی روزنامہ نوائے ملتان کے بانی تھے۔ اس اخبار میں میرے ساتھ نامور خطاط ظہور تابش اور خوش نویس حیات جاوید بھی کام کرتے تھے۔ رونامہ سنگ میل میں تو شہ سرخیوں کی فلمیں بنائی جاتی تھیں لیکن روزنامہ نوائے ملتان میں یہ سہولت میسرنہیں تھی سویہاں ہم لیتھو کی سرخیاں بناتے تھے۔لیتھو کی سیاہی کے بارے میں آج کے بہت سے صحافیوں کوبھی معلوم نہیں ہوگا۔یہ سیاہی گوند کی طرح ہوتی تھی جس کا سبزی مائل رنگ ہوتاتھا۔ اس سیاہی سے شہ سرخی لکھنے کے بعدبٹر پیپرپرایک چوکھٹا لگایاجاتاتھا اور پھر اس شہ سرخی کے چوکھٹے پر سیاہی پھیرکر اسے پٹرول سے صاف کیاجاتا تھا۔اس عمل کوعرف عام میں” پٹرول مارنا“کہا جاتاتھا۔پٹرول مارے جانے کے بعد سیاہی میں سے شہ سرخی کے سفید حرف ابھر کر سامنے آجاتے تھے اور انہیں اخبار میں شائع کردیاجاتاتھا۔
نوائے ملتان چونکہ شام کا اخبارتھا اس لیے ہمیں تین بجے سہ پہر تک اس کی کاپی بھیجنا ہوتی تھی ۔ میں کسی اور اخبار میں نائٹ ڈیوٹی کے بعد صبح گیارہ بجے نوائے ملتان کے دفتر پہننچتاتھا اورہر گھنٹے کے بعدریڈیو پر نشرہونے والی خبریں تیارکرتاتھا۔اس کے علاوہ اس اخبار میں الطاف شاہ اور اعظم جہانگیر مرحوم سٹاف رپورٹر کے طورپر کام کرتے تھے۔ریڈیو پرتودن کے وقت کوئی خاص خبریں نہیں ہوتی تھیں۔ سو اخبار کا پیٹ بھرنے کے لیے ہم ایک روز پہلے کے لاہور کے اخبارات بھی منگوالیتے تھے جن میں امروز لاہور بھی شامل ہوتاتھا۔ یہ اخبارات پی آئی اے کے ذریعے صبح گیارہ بارہ بجے کے درمیان موصول ہوجاتے تھے۔ روزنامہ امروز ملتان میں بھی اگلے روز امروز لاہور کی خبریں شائع کی جاتی تھیں (صحافتی زبان میں اسے خبریں لفٹ کرنا کہتے ہیں)۔ سو امروزوالوں نے جو خبریں صبح لفٹ کرنا ہوتی تھیں وہ ہم شام کوہی نوائے ملتان میں شائع کردیتے تھے صرف یہی نہیں امروز کا اگلے روز کا اداریہ اوربہت سے کالم بھی ایک روز قبل ہی نوائے ملتان کی زینت بن جاتے تھے۔ اس زمانے میں ٹریسنگ پر فوٹو کاپی کا بھی رجحان تھا۔ سو بہت سے اخبارات لاہور اور کراچی میں شائع ہونے والے اخبارات کی خبریں ٹریسنگ کے ذریعے اپنے اخبارات میں استعمال کرتے تھے۔اس حوالے سے خاص طورپرجنگ کراچی اورجسارت کی مدد لی جاتی تھی۔
پاکستانی ریڈیو کے علاوہ میں دوپہر بارہ اور ایک بجے آل انڈیا ریڈیوبھی سنتاتھا31اکتوبر1984ءکی بات ہے۔ اخبار میں معمول کے مطابق کام جاری تھا ۔دوپہر ایک بجے آل انڈیا ریڈیو سے صرف ایک لائن کی خبر نشرہوئی کہ بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی کو ان کے سکھ محافظوں نے قتل کردیاہے۔
کب ؟ کیوں؟ اور کیسے؟ ۔ان تفصیلات کا ہمارے پاس وقت ہی نہیں تھا۔ خبر میں نے خلیل بھٹی صاحب کوبتائی اور پھر اخبار میں افراتفری کاماحول پیداہوگیا۔اس ایک سطر سے ہم نے پورا اخبار بھرناتھا۔کچھ تفصیلات ’’ایمان کے زورپر‘‘ تیارکرلی گئیں وہ اس طرح کہ قتل کے بعد کیسے بھگڈر مچی ہوگی،اندرا گاندھی کو کیسے ہسپتال منتقل کیاگیا ہوگا۔یہ سب کچھ ہم نے چشم تصور میں سوچ کر اخبار میں شائع کردیا۔ لوگوں کوتو تفصیلات کی ضرورت ہی نہیں تھی ان کے لیے خبر صرف یہ تھی کہ اندرا گاندھی قتل ہوگئی ہیں۔جھوٹی سچی تفصیلات تو ہم اخبار کا پیٹ بھرنے کے لیے تیار کررہے تھے۔خبر کی تیاری کے بعد فوری طورپر اندرا گاندھی کی یادگار تصاویر اور پرانی خبروں سے اخبارکاپورا صفحہ بھردیاگیا۔ ہاکر بازاروں میں چلے گئے ۔ ابھی کسی او ر اخبار کاضمیمہ مارکیٹ میں نہیں آیاتھا۔ یہی مسابقت صحافت کا اصل حسن ہے۔ سو مجھے یاد ہے باقی اخبارات نے بھی بعد ازاں وقفے وقفے سے ضمیمے شائع کیے لیکن ملتان میں اس روز صرف نوائے ملتان چھایا ہوا تھا۔بعدکی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ اندرا گاندھی اس روز نئی دہلی میں اپنی رہائش گاہ سے صبح نوبجے دفتر کے لیے روانہ ہوئیں جیسے ہی وہ گیٹ پر پہنچیں توان کے دو سکھ محافظ تیزی سے ان کی جانب لپکے ۔ان میں سے آگے والے کا نام بینت سنگھ تھاجس نے سب سے پہلے اپنے پستول سے ان پر گولی چلادی۔ وہ جیسے ہی نیچے گریں تو دوسرے سکیورٹی گارڈ ستونت سنگھ نے ان پر سٹین گن سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔اندرا گاندھی خون میں لت پت گر گئیں ۔بینت سنگھ نے کہا ” اسی جو کرناسی کرلیا، ہن تسی جو کرنا اے کرلو“( ہم نے جو کرنا تھا کر لیا اب تم نے جو کرنا ہے کر لو ) پھر اس نے ہتھیار پھینک کر خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔اندرا گاندھی کی موت کی تصدیق ہسپتال پہنچتے ہی ہوگئی لیکن یہ خبر نشر ہوتے ہوتے دوپہر کا ایک بج گیااورپھرسرکاری اعلان شام چاربجے کیاگیا۔اس واقعے کے بعد پورے ہندوستان میں فسادات پھوٹ پڑے۔ صرف دہلی میں سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تین ہزار سکھوں کوقتل کیاگیا۔اندرا گاندھی کے بعد ان کے صاحبزادے راجیو گاندھی نے وزارت عظمی کامنصب سنبھالا لیکن پھر وہ بھی ایک بم دھماکے میں قتل کردیئے گئے۔راجیو گاندھی کے قتل کی خبر میں نے کئی برسوں کے بعد روزنامہ نوائے وقت میں تیارکی تھی لیکن یہ کہانی پھرسہی ۔
فیس بک کمینٹ