یہ بولتا ہے اسے قتل کرو
لب کھولتا ہے اسے قتل کرو
ہمیں قاتل قاتل کہتا ہے ،اسے قتل کرو
گستاخ ہے اس کو قتل کرو
اس گونگی بہری بستی میں
یہ پاگل جب لب کھولتا ہے، خوں کھولتا ہے
اسے قتل کرو
اسے قتل کرو یہ سوچتا ہے
یہاں سوچ پہ پہرے ہیں لیکن
یہ پہرے توڑ کے سوچتا ہے
ان پہروں میں، ان بہروں میں
جب سوچنا جرم ہے تو لوگو
کیوں سوچتا ہے؟ اسے قتل کرو
یہ شعر وادب کی بات کرے
رخسار اور لب کی بات کرے
یہ ظلمتِ شب کی بات کرے
تصویرحرام ہے لیکن یہ
تصویر یہاں پر عام کرے
اسے قتل کرو یہ منکر ہے
یہ ہماری عظمت و حشمت سے انکارکرے
یہ منکر ہے ،اسے قتل کرو
اسے قتل کرو ناپاک ہے یہ
خنزیر کے بالوں والا برش مرغوب اسے
اور جھومر ،لڈی،رقص بہت محبوب اسے
ناپاک ہے یہ اسے پاک کرو
اسے رزقِ خاک تو کرنا ہے
لیکن پہلے اسے راکھ کرو
اسے قتل کرو
اب ہاتھ اگر یہ جوڑتا ہے ،اسے جوڑنے دو
پہلے مجھ کو اپنے ہاتھوں سے اس کی آنکھیں پھوڑنے دو
یہ گھورتا تھا ان آنکھوں سے
اور نامحرم کو دیکھتا تھا
یہ آنکھ اٹھاتا تھا مجھ پر، مجھے پھوڑنے دو
اس کی آنکھوں کو پھوڑنے دو
اور ساتھ میں ہاتھ بھی توڑنے دو
چلو اب ٹانگوں پر وارکرو
اس جیسوں کا اس دھرتی پر اب تم جینا دشوار کرو
بے ریش ہے اس کا منہ نوچو
یہ ہوش کی باتیں کرتاتھا ،بے ہوش ہے اب
اسے قتل کرو
۔۔۔۔۔
کیا کہتے ہو یہ مربھی گیا؟
ابھی اپنا قرض تو باقی ہے
ابھی اپنا فرض تو باقی ہے
چلو مرے ہوئے کو اب مارو
یہ عین ثواب کالمحہ ہے
یہ کس کے جگر کاٹکڑا ہے،یہ مت سوچو
چلو اس کے ٹکڑے کرڈالو
ہاہا !دیکھو یہ مرہی گیا
ہُررا دیکھو یہ مرہی گیا
اک نعرہ عظمت والا ہو،یہ مرہی گیا
ذرا زور سے بولو،مرہی گیا
ایمان کے صدقے ،مرہی گیا
ذرا جھوم کے بولو،مرہی گیا
ذرا گھوم کے بولو ،مرہی گیا
اب اپنی ہیبت راج کرے ،ہم زندہ ہیں
اب اپنی حشمت راج کرے،ہم زندہ ہیں
ہم اس کی آنکھیں پھوڑ چکے اب روشنی ہے
ہم اس کی ٹانگیں توڑ چکے ،چلو رقص کریں
یہ کافر رزق خاک ہوا،یہ راکھ ہوا
چلو اس ناپاک کا قصہ بھی اب پاک ہوا
***رضی الدین رضی