اپریل 1977ءمیں ملک بھر میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک جاری تھی ۔ یہ تحریک اسی سال مارچ میں منعقد ہونے والے انتخابات میں مبینہ دھاند لیوں کے نتیجے میں شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ پاکستان قومی اتحاد کے پاس اگرچہ عوامی قوت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ انتخابی جلسوں کے دوران بھی وہ لوگوں کو متاثر نہیں کر سکے تھے ، لیکن اس تحریک کے لیے انہوں نے نظام مصطفی کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا ۔ تحریک کو تحریکِ نظامِ مصطفی کا نام دیا گیا ۔ اسلام کے نام پر آج سے 40 سال پہلے بھی لوگوں کے جذبات کے ساتھ اسی طرح کھیلا جاتا تھا جیسے آج کھیلا جا رہا ہے۔ تحریک کے نتیجے میں جلاﺅ گھیراﺅ کا عمل شروع ہوا۔ توڑ پھوڑ اور جلوس جلسے روز کا معمول بن گئے ، کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ بھٹو صاحب کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے صرف سٹریٹ پاور کا مظاہرہ ہی تو کافی نہیں تھا ۔ اس کے لیے پارلیمانی عدم استحکام پیدا کرنا بھی ضروری تھا ۔ پارٹی کے اندر دراڑیں پیدا کرنے کی ضرورت تھی ۔ اس مقصد کے لیے ایجنسیوں نے اپنا کھیل شروع کیا ۔ کچھ غلطیاں پیپلز پارٹی کی قیادت سے کرائی گئیں اور کچھ اراکین اسمبلی یا پارٹی رہنما ایسے تھے جو پہلے ہی ایجنسیوں کے اشارے پر نئی منزلوں کی جانب سفر کو تیار تھے ۔یہ وہ لوگ تھے جو ہوا کا رخ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم نے کس جانب سفر کرنا ہے اور کب وفا داریاں تبدیل کرنی ہیں۔ہوا کے مخالف پرواز کرنا ان پنچھیوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا ۔
اپریل کا مہینہ کسی قسم کی ناخوشگوار صورتحال میں گذرا۔ کہیں جلاﺅ گھیراﺅ، کہیں محلاتی سازشیں اور کہیں مذاکرات کی کوششیں۔ 8 اپریل کو بھٹو صاحب نے پارٹی مفادات کے منافی سرگرمیوں کے الزام میں تاج محمد لنگاہ ، احمد رضا قصوری اور حامد یسین کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کر دیا ۔ ( احمد رضا قصوری بعد ازاں اُس مقدمے کے مدعی بنے جو ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر منتج ہوا) ۔ 12 اپریل کو پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل مبشر حسن استعفیٰ دے گئے ۔ اسی روز ملتان سے پی پی کی خاتون رہنما فخر النساءکھوکھر پارٹی رکنیت سے مستعفی ہوئیں ۔ اگلے روز ایجنسیوں نے اسمبلیوں میں کھیل شروع کیا ۔ پنجاب اسمبلی سے بھٹو حکومت کے خلاف پہلا استعفیٰ چوہدری اعتزاز احسن نے دیا ۔ اعتزاز احسن پیپلز پارٹی حکومت میں صوبائی وزیر قانون کی حیثیت سے کام کر رہے تھے ۔ جواز انہوں نے یہ بنایا کہ 9 اپریل کو لاہور میں مظاہرین پر جو فائرنگ کی گئی اس میں بیور کریسی نے ان کے احکامات کو نظر انداز کیا ۔ اُسی روز پنجاب اسمبلی سے عبدالحفیظ کاردار اور قومی اسمبلی سے سردار احمد علی بھی مستعفی ہوئے ۔ بوری میںسوراخ کرنے کی دیر تھی ایک ایک کر کے ارکان اسمبلی کے استعفے آنے لگے گویا کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے تھے ۔ اسی دوران بھٹو صاحب نے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سردار شوکت حیات کو بھی پارٹی سے نکال دیا ۔ دوسری جانب سڑکوں پر تحریک بھی چلتی رہی ۔ تحریک کے دوران غیر ملکی کرنسی خاص طور پر ڈالر کی فراوانی ہو گئی ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو علم ہو گیا تھا کہ عالمی قوتیں اب انہیں اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتیں ۔ اپنے دورِ اقتدار کے دوران انہوں نے عرب دنیا کو تیل کی دولت ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا ، عالم اسلام کے اتحاد کی کوششیں کیں ( لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی ) اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے جو عملی اقدمات کیے وہ امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھائے تھے ۔ 28اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ” ہاتھی ” مجھ سے ناراض ہو گیا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ اس کا واسطہ بندہ صحرا سے پڑ گیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ سائرس وانس نے بھٹو صاحب کو خط لکھا کہ جو بھی شکایات ہیں ان پر امریکہ سے خاموشی کے ساتھ بات چیت کر لی جائے ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے وہی خط مری روڈ راولپنڈی کے ایک چوراہے میں عوام کے سامنے لہرا دیا ۔ مئی کا مہینہ شروع ہوا تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی کوششیں تیز ہو گئیں۔ اسی دوران تحریک استقلال کے سربراہ اصغر خان نے جرنیلوں کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں اقتدار سنبھال لیں۔ فوج نے اس وقت بظاہر تو اس خط کو اہمیت نہ دی لیکن بعد ازاں ملک کے وسیع تر مفاد کو بھی نظر انداز نہ کیا گیا ۔ جون میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا ۔ آج ملکی معاملات میں امریکی مداخلت پر احتجاج کرنے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ مذاکرات پاکستان کے معاملات میں سعودی حکومت کی براہ راست مداخلت کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے ۔ پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر ریاض الخطیب نے حکومت اور اپوزیشن رہنماﺅں کو ایک میز پر بٹھایا ۔ بھٹو صاحب کی مذاکراتی ٹیم میں کوثر نیازی اور حفیظ پیر زادہ شامل تھے اپوزیشن نے مذاکرات کی ذمہ داری مفتی محمود ، نوابزادہ نصرا للہ اور پروفیسر غفور کو سونپی ۔
مذاکرات کا سلسلہ ایک ماہ جاری رہا اس دوران بعض حلقوں کی جانب سے بھٹو صاحب کو آگاہ بھی کیا گیا کہ فوج ان کے اقتدار کا خاتمہ کر سکتی ہے لیکن بھٹو صاحب نے ان باتوں پر اس لیے کوئی توجہ نہ دی کہ وہ جنرل ضیاءالحق کو قابل اعتماد جرنیل سمجھتے تھے ۔ انہوں نے بہت سے سینئرز کو نظر انداز کر کے جونئیر موسٹ ضیاءالحق کو اس لیے فوج کا سربراہ بنایا کہ وہ خوشامدی تھا ، ان کے سامنے دم ہلاتا تھا ، نواب صادق حسین قریشی کی رہائش گاہ وائٹ ہاﺅس ملتان میں اچانک بھٹو صاحب کے سامنے آ جانے پر جلتا ہوا سگریٹ اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال لیتا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو بھلا کیسے گمان کرتے کہ یہی ضیاءالحق نہ صرف یہ کہ ان کا اقتدار ختم کرے گا بلکہ انہیں پھانسی بھی دے دے گا ۔ عالمی سازشوں کا تانا بانا بھی نہ سمجھ میں آنے والا ہوتا ہے ۔ جنرل ضیاءالحق کو 70 ءکی دہائی کے وسط میں شاہ حسین حکومت کی مدد کے لیے ایک دستے کی کمان دے کر اُردن بھیجا گیا تھا ۔ اس دستے نے وہاں اُن فلسطینی مجاہدوں کے خلاف کامیاب آپریشن کیا جو اُردن حکومت کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے ۔فلسطینیوں کے وسیع پیمانے پر قتل ِ عام کے صلہ میں جنرل ضیاءالحق کو اُردن حکومت کی جانب سے فوجی اعزاز سے نوازا گیا ۔ جنرل ضیاءالحق اپنے کندھے پر جو ایک چوڑی سی بیلٹ پہنتا تھا اور جس کی وجہ سے اس کے مخالفین اُسے بینڈ ماسٹر کہتے تھے وہ بیلٹ اُسے فلسطینیوں کے قتل عام کے صلے میں ہی ملی تھی ۔ مبصرین کا خیال ہے کہ امریکہ کے ساتھ ضیاءالحق کے رابطوں کا آغاز اسی دور میں ہوا تھا اور بعد میں ایک منصوبے کے تحت امریکیوں نے خود بھٹو صاحب کے ہاتھوں اُسے فوج کا سربراہ بنوا دیا۔
فوج کے سربراہ کی حیثیت سے جنرل ضیاءالحق حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات کو بہت قریب سے مانیٹر کر رہا تھا ۔ وہ مذاکرات کے دوران وزیر اعظم ہاﺅس کی غلام گردشوں میں موجود رہتا تھا ۔ ایک آدھ بار اُس نے مذاکرات میں مبصر کے طور پر بیٹھنے کی کوشش بھی کی مگر نوابزادہ نصراللہ خان اور مفتی محمود کے احتجاج پر ذوالفقار علی بھٹو نے اُسے کمرے سے نکال دیا ۔ مذاکرات میں جہاں کہیں سلجھاﺅ کی صورت پیدا ہوتی یا بحران ختم ہوتا دکھائی دیتا جنرل ضیاءمذاکرات سے باہر بیٹھے قومی اتحاد کے رہنماﺅں کے ذریعے مزید اُلجھاﺅ پیدا کر دیتا ۔ اصغر خان اُس کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا اور اسی کے اشارے پر مذاکرات ناکام بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا ۔ مفتی محمود ، پروفیسر غفور اور نوبزادہ نصراللہ جب معاملات طے کرنے کے بعد حتمی منظوری کے لیے اپوزیشن رہنماﺅں کے پاس جاتے تو اصغر خان کھیل خراب کرنے کے لیے پہلے سے تیار ہوتا تھا ۔ ایک مہینہ اسی کیفیت میں گذر گیا ۔ جولائی کا مہینہ شروع ہوا حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات رات رات بھر جاری رہے۔ سازش کی بو اب بھٹو صاحب کو بھی آ رہی تھی۔ 4 جولائی کو رات گئے ذوالفقار علی بھٹو نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ اپوزیشن کے ساتھ معاملات طے ہوگئے ہیں ۔ معاہدے پر صبح دستخط ہو جائیں گے ۔ معاہدے پر صبح دستخط کیسے ہوتے ؟ جنرل ضیاءالحق نے صبح ہی نہ ہونے دی ۔
5جولائی 2017ءکی صورت حال کو مدنظررکھتے ہوئے اس کالم کامطالعہ کیجئے اور 10جولائی کا انتظارکیجئے ۔اب مذکرات تو نہیں لیکن اور بہت کچھ ہورہا ہے۔بتانا صرف یہ تھا کہ 40سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں جہاں1977میں تھے۔تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتے۔
(بشکریہ : روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ