کئی روز بعد آج قارئین سے ہم کلام ہوں۔ اس دوران بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے،بہت سے انکشافات ہوئے اور پانامہ کیس اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھتا ہوا دکھائی دیا۔صبح سے شام تک چینلز پر تجزیئے،تبصرے اور پیش گوئیاں جاری رہیں۔ کرپشن کی کہانیاں سنائی دیں۔ اصلی اور جعلی ثبوت پیش کیے گئے۔کالم نگاروں نے کالم لکھے اور اپنے اپنے انداز میں ان واقعات کو موضوع بنایا۔ اگرچہ کہنے کو بہت کچھ تھا اور کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن ہم پھربھی خاموش رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کہنے کو بہت کچھ ہو تو سب سے بڑا مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ کیا کہا جائے؟ اورجب یہ سوال سامنے آ جائے تو اس کے ساتھ ہی ایک اور سوال بھی ابھرتا ہے کہ کیوں کہا جائے؟ جب اتنے بہت سے لوگ اتنا بہت کچھ کہہ رہے ہیں، معزز عدالتوں میں جج صاحبان کی آراء بھی ہمیں پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہیں اور ہم سے بہت زیادہ باخبر لوگ دور کی کوڑیاں بھی لا رہے ہیں اور ان دور کی کوڑیوں کے باوجود ابہام ختم نہیں ہو رہا، گرد بیٹھ نہیں رہی، جمہوریت اور آمریت کا فرق بھی واضح نہیں ہو رہا اور ظالم اورمظلوم کی تمیز ختم ہو چکی ہے تو ایسے میں ہماری کسی بات کی بھلا کیا اہمیت ہوگی۔
سوچا تھا کہ گرد بیٹھ جائے اور اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھ جائے تو پھر اپنے دل کی بات آپ سے کہیں گے۔ گرد بیٹھنے کی بجائے پھیلتی چلی گئی اور اونٹ جو قطر سے روانہ ہوا تھا کسی کروٹ بیٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ لیکن پھر بھی خاموشی آخر کب تک اختیار کی جا سکتی ہے؟ پہلے بھی کہیں لکھا تھا کہ خاموشی کا ایک اپنا شور ہوتا ہے ۔خاموشی کی ایک اپنی آواز ہوتی ہے۔ جب آپ بہت کچھ کہنا چاہتے ہوں اور اس کے باوجود چپ کی چادر تان لیں تو آپ کے اندر بہت سا شور سنائی دینے لگتا ہے۔ آپ ضبط اختیار کرتے ہیں تو وہ شور بڑھتا چلا جاتا ہے۔ شور راستے تلاش کرتا ہے باہر آنے کے، مگر آپ زبان نہیں کھولتے اور قلم کو بھی حرکت میں نہیں لاتے۔ پھر یہ شور اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ آپ اگر کچھ نہ بھی کہیں تو سب کو آپ کی باتیں سنائی بھی دیتی ہیں اور سمجھ بھی آ رہی ہوتی ہیں۔
ہم جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں، اور ہم کرپشن سے نجات بھی چاہتے ہیں۔بیک وقت یہ دو کام سرانجام دینا صرف ہمارے لیے ہی نہیں سبھی کے لیے ناممکن ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال جس سے ہم آج گزر رہے ہیں ہمارے لیے نئی تو نہیں لیکن پریشان کن ضرور ہے۔بہت سے لوگ جنہوں نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں اور جو اس ملک میں آزادی اظہار اور حقوق کی بات کرتے ہیں ، وہ جو جمہوریت کے گن گاتے ہیں خود بھی ایک عجیب کشمکش اور ذہنی ہیجان کا شکار ہیں۔
ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ جمہوری اداروں پر یہ برا وقت ایک بار پھر سیاست دانوں کی وجہ سے آیا ہے۔ ہم یہ بھی نہیں کہنا چاہتے کہ نادیدہ قوتیں ایک بارپھر ہمیں اس راستے پر لے آئی ہیں کہ جہاں ہم بظاہر ایک بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔ہم نے 1977ء میں ہوش سنبھالا تھا اور اسی زمانے سے اخبارات کا مطالعہ شروع کیا ۔ہمارے سامنے پاکستان کو بہت سے کٹھن حالات سے گزرنا پڑا۔جمہوریت بھی نشیب وفراز سے گزرتی رہی۔ہر مرتبہ ہم نے کسی آمر سے نجات حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کی اور اس کے بعد کسی نئے آمر کو نجات دہندہ سمجھ کر اس سے بہت سی امیدیں وابستہ کر لیں۔ہر مرتبہ جمہوریت کے استحکام کے نام پر اسے کمزور کیا گیا اور آمریت سے نجات کی کوشش میں کسی نئے آمر کے ہاتھ مضبوط کیے گئے۔یہی وہ ملک ہے جہاں 1977ء کا مارشل لاء نافذ ہوا تو مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ کچھ لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو بتایا بھی تھا کہ آج اگر تم مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہو ،جشن منا رہے ہو اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کر رہے ہو تو یاد رکھنا کل تمہیں اس جشن کا بھاری تاوان بھی ادا کرنا پڑے گا۔ لیکن بات ان سنی کر دی گئی۔1985ء میں ایک نیا تجربہ کیا گیا ۔غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں ایک نئی قیادت سامنے آئی۔نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب اور محمد خان جونیجو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ یہ تجربہ بھی ناکام ہوا اور 1988ء میں وزیراعظم سمیت منتخب ارکان کو گھر بھیج دیا گیا۔ اسی سال بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوگئیں ۔ ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے انہوں نے بہت سی کڑی شرائط قبول کیں ۔جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت سے نوازا۔ ان کے اس اقدام پر بہت سے لوگوں کو حیرت بھی ہوئی لیکن ان کاخیال تھا کہ اس طرح فوج جمہوریت کے خلاف کسی سازش کاحصہ نہیں بنے گی۔جنرل اسلم بیگ نے تمغے کی لاج اس طرح رکھی کہ انہوں نے منتخب وزیراعظم کو سلیوٹ کرنے سے انکار کر دیا۔ نوازشریف اس تمام عرصے میں مرکزی حکومت کے خلاف سرگرم رہے۔اور بالآخر 1990ء میں بے نظیر حکومت ختم کردی گئی۔بعد کے دنوں میں ہم نے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائر دیکھا۔ بے نظیر اور فاروق لغاری ان کے خلاف لانگ مارچ کرتے دکھائی دیئے۔ہارس ٹریڈنگ کی اصطلاح متعارف ہوئی۔ معاملات عدالتوں تک گئے، اسمبلیاں ٹوٹتی اور بحال ہوتی رہیں۔بالآخر نوازشریف نے قوم سے خطاب میں کہا کہ میں ڈکٹیشن نہیں لوں گا۔استعفیٰ نہیں دوں گا۔ اور پھر انہوں نے ڈکٹیشن بھی لی اور استعفیٰ بھی دیا۔اس لڑائی میں نوازشریف اور غلام اسحاق خان کو بیک وقت رخصت ہونا پڑا۔ بے نظیر بھٹو کے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم ہو چکی تھیں۔ وہ دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوئیں اور اس مرتبہ انہوں نے ماضی کے تجربات سے مزید سبق سیکھتے ہوئے اپنے دست راست فاروق لغاری کو صدر منتخب کروایا۔یہ نیا تجربہ بھی ناکام ہو گیا۔اور پھر بے نظیر بھٹو کو اقتدار ہی نہیں اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کی قربانی بھی دینا پڑی۔ اب جشن نوازشریف کو منانا تھا۔پیپلزپارٹی کو انتخابات میں بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نوازشریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ برسراقتدار آئے۔ اور پھر اسی مینڈیٹ کو تین برس بعد ٹرپل ون بریگیڈ نے کچل کر رکھ دیا۔جس رات جنرل پرویز مشرف نے کمانڈو کی وردی میں قوم سے پہلا خطاب کیا اس رات ہم نے بہت سے جمہوریت پسندوں کو جمہوریت کے خاتمے پر مٹھائیاں تقسیم کرتے دیکھا تھا۔ پھر نوازشریف طیارہ سازش کیس میں گرفتار کیے گئے اور بالآخر انہیں انہی کی خواہش پرجلاوطن کر دیا گیا۔ڈکٹیٹر کی آمد پر مٹھائیاں تقسیم کرنے والے کچھ عرصہ تو خاموش رہے اورپھر اس ڈکٹیٹر سے نجات کے لیے دوبارہ سڑکوں پر آ گئے۔بعد کی کہانی دہرانے کی ضرورت ہی نہیں ۔پانامہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا ابھی نہ ہمیں کچھ علم ہے اور نہ ہی آپ اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔نتیجہ ایک ہی نکلے گا کرپشن اور جمہوریت میں سے کسی ایک کو بہرحال بچانا پڑے گا۔اس کے بعد ہم شاید مٹھائیاں بھی تقسیم کریں گے، جشن بھی منائیں گے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کریں گے۔ہم کہیں گے کہ ہم نے جمہوریت کو بچا لیا۔ شاید ہم یہ بھی کہیں کہ ہم نے کرپشن سے نجات حاصل کر لی لیکن یاد رکھیں کہ ایک مرتبہ پھر ہمیں کسی ڈکٹیٹر کا ہی استقبال کرنا ہو گا اور پھر کچھ عرصہ بعد اس سے نجات کے لیے کمربستہ بھی ہونا ہوگا۔ہم ایک دائرے کے سفر میں ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ دائر ے کا سفر کبھی بھی ختم نہیں ہوتا۔ دائرے کا سفر اختیارکرنے والے مسافر کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچتے، وہ ہمیشہ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ شیر کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ