کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں نئے سال ہجری کا آغاز خوف وہراس کی کیفیت میں ہوتا ہے ۔ شرپسندوں ںپر مشتمل امن کمیٹیوں کی دکانیں سجتی ہیں ، جو اتحاد بین المسلمین کا نام لیتی ہیں لیکن انہیں اتحاد بین المجرمین کا نام دینے کو بھی جی چاہتا ہے ۔ عاشورے سے پہلے فوج ، پولیس اور رینجرز کے فلیگ مارچ ہوتے ہیں۔مجالس عزا ہوں یا ماتمی جلوس ہر وقت ہر جگہ خودکش حملوں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔اور یہ صورت حال صرف محرم کے مہینے میں ہی نہیں ہوتی ، اب تو کم وبیش ہر تہوار اسی ماحول میں گزرتا ہے اور تو اور اب عید کی نماز بھی سنگینوں کے سائے میں ادا کی جاتی ہے۔اور اگلے روز کے اخبارات میں ان اجتماعات کی تصاویر شائع ہوتی ہیں تو ہمیں وہ زمانہ یاد آ جاتا ہے جب ہمارے اخبارات مقبوضہ کشمیر کی ایسی تصاویر شائع کر کے بھارت کو برا بھلا کہا کرتے تھے ۔ ایسے میں ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں جب رواداری تھی اورتمام تہوار کسی ڈر خوف کے بغیر منائے جاتے تھے۔
ہم بچپن میں ملتان میں صدر بازار کے علاقے میں رہتے تھے۔ عاشورہ کا مرکزی جلوس صدر بازار ہی سے گزرتا تھا (اب بھی اس کا یہی راستہ ہے)۔ صدر بازار میں ڈاکٹر محمد حسین کے کلینک کے سامنے ڈینٹل ڈاکٹر محمد اسلم کا گھر تھا ڈینٹل ڈاکٹر تو میں نے آج کی زبان میں لکھ دیا ورنہ ان کی دکان کے باہر تو دندان ساز کا بورڈ آویزاںتھا۔ وہاں جا کر ہم ماں جی سے حلیم بھی کھاتے اور بالکونی سے ماتمی جلوس بھی دیکھتے تھے ۔مکانوں کی چھتوں اور کھڑکیوں پر عورتوں اور بچوں کی بڑی تعداد ہوتی تھی۔ سڑکیں ہر عمر کے مردوں سے بھری ہوتیں۔اتنا ہجوم کہ تا حدِ نظر سر ہی سر دکھائی دیتے تھے۔نہ کوئی رکاوٹ ، نہ کوئی تلاشی ،نہ کسی خود کش کا خطرہ ،نہ بم دھماکے کا ڈر ،اور تو اور یہ جلوس دیکھنا کفر یا بدعت کے زمرے میں بھی نہ آتا تھا۔ جلوس کے آگے ایک گتکا پارٹی ہوتی تھی۔ اس گتکے کا اہتمام اہل سنت کرتے تھے اور اس میں ڈنڈوں ، تلوارں، نیزوں،بھالوں اور دوسرے سامانِ ِ حرب کے ذریعے میدانِ جنگ کا نقشہ پیش کیا جاتا تھا۔ نوجوان آپس میں مقابلہ کرتے ،ایک دوسرے کے وار روکتے، ساتھ میں نوبت بجتی تھی۔ یہ گتکا سات محرم کی رات شروع ہوتا ، شبِ عاشور پر گتکا پارٹی ہمارے گھر کے سامنے میدان لگاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس رات ہم سب گھر والے گیارہ ،بارہ بجے تک جاگتے تھے اور گتکا دیکھ کر سوتے تھے۔ گتکے کا اہتمام حفیظ صاحب کرتے تھے۔ وہ اسی محلے میں پلے بڑھے اور پھر روزگار کے لئے کراچی منتقل ہو گئے۔کراچی سے وہ سال میں ایک مرتبہ عاشورہ کے موقع پر ہی ملتان آتے اور گتکا کھیل کر واپس چلے جاتے تھے ۔ سنا ہے انہوں نے محرم کے موقع پر گتکا کھیلنے کی منت مان رکھی تھی۔ پھر جب اس ملک میں اسلام کے نام پر کفر کے فتوے عام ہوئے اور بدعتوں کی مذمت کا چلن ہوا تو حفیظ صاحب بھی گتکے سے تائب ہو گئے۔انہوں نے نہ صرف گتکا ختم کیا بلکہ کفارہ بھی ادا کیا۔معلوم نہیں و ہ کفارہ توبہ کا تھا یا منت توڑنے کا۔بہر حال اس روز کے بعد وہ محرم کی بجائے کبھی کبھارعید پر ملتان آتے تھے اوران کا کہنا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیاں ہر گز نہیں دی گئیں۔
فیس بک کمینٹ