ملتان : نام ور ترقی پسندشاعر اور صحافی رحمان فراز اتوار کی صبح انتقال کر گئے ۔ ان کی عمر 82 سال تھی اور طویل عرصہ سے صاحب فراش تھے۔رحمان فراز کا اصل نام عبدالرحمان تھا ۔وہ 26 اکتوبر 1936 ءکو جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ابتدا ئی تعلیم جھنگ سے ہی حاصل کی۔ پرائمری میں وکٹوریہ کراس سکالر شپ حاصل کیا رحمان فراز نے 1950 ءمیں جھنگ ہائی سکول سے میٹرک کیا۔ 1952ءمیں جھنگ کالج سے ایف اے اور 1954 میں ایمرسن کالج سے بی اے کیا ۔ وہ 1957 سے 1966 تک یونیسکو سے منسلک رہے ۔ اسی دوران انہوں نے بیرون ملک صحافت کی تعلیم حاصل کی اور 1964 ء میں ڈپلومہ آف جرنلزم حاصل کیا جو ایم اے کے برابر ہوتا ہے۔وطن واپس آکر پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگریزی کیا۔رحمان فراز نے روزنامہ ” کوہستان“ سے صحافتی زندگی کا آغاز کیا اس کے بعد ڈیلی ”پاکستان ٹائمز“ اور ڈیلی ”مساوات “میں کام کرتے رہے۔1977ءمیں ضیاءالحق کے مارشل لاءکے بعد انہوں نے صحافت کوخیر باد کہہ دیا ۔1979 ءسے 1989 ء تک سیال میڈیکل سنٹر ملتان میں بطور ایڈمنسٹریٹر کام کرتے رہے۔ 1991ء میں لا ء کالج ملتان سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے گھر پر ہی طلبہ کو انگریزی بھی پڑھاتے رہے ہیں۔ ان کے چارشعری مجموعوں پرمشتمل ”کلیات رحمان فراز“ 2016ءمیں شائع ہوئی ۔ان کی کتابوں میں ”حرف جو گونجتی صدا ہیں“ ، ”ا جل کی تماشاگہوں میں“، ”مسافر دشت ظلمت کے “ اور ”اب خزاں کی شام ہے“شامل ہیں۔رحمان فراز نے 1951ءمیں شاعری کاآغاز کیا۔انہوں نے اگرچہ غزلیں بھی کہیں لیکن نظم ان کی پہچان بنی۔رحمان فراز عمربھرترقی پسند تحریک کے ساتھ وابستہ رہے۔وفات کے بعد انہیں شورکوٹ کے قریب سپردخاک کردیاگیا۔
فیس بک کمینٹ