اپریل 1955 سے شروع ہونے والا عمر شریف کے جیون کا سفر دو اکتوبر 2021 کو جرمنی کے ہسپتال میں اختتام پذیر ہوگیا ۔موت کا وقت اور مقام کسی کو پتانہیں ہوتا ایسا ہی عمر شریف بھائی کے ساتھ ہوا سندھ حکومت کی جانب سے فراہم ہونے والی ائیر ایمبولینس اپنی منزل مقصود واشنگٹن نہ پہنچ سکی ۔انڈیا کے علاقہ روہتک سے تعلق رکھنے والی محترمہ بلقیس بیگم کو نہیں معلوم تھا کہ وہ کراچی لیاقت آباد میں جس بچے کو جنم دے رہی ہیں اس عمر کے نام کاڈنکا دنیا میں بجے گا اور خاندان کے معاشی حالات بدل کر رکھ دے گا۔ عمر شریف کو ملتان شہر ،سرائیکی بولی، اور شاکر شجاع آبادی کی شاعری سے بہت لگاؤ تھا اس لگاؤ کی وجہ سابق بیوی شکیلہ قریشی تھیں۔ شکیلہ سے ان کا رشتہ زیادہ لمبے عرصہ تک نہ چل سکا لیکن عمر بھائی شکیلہ قریشی سے بہت پیار کرتے تھے
دونوں نے مختلف فلموں میں بھی کام کیا۔
عمر شریف سچے عاشق رسول، درود شریف کا باقاعدگی سے ورد کرنے والے، اولیاء کرام کو احترام عقیدت دینے والے خاص طور پر حضرت عبدالقادر جیلانی کے روحانی مرید تھے ۔سٹیج ڈرامہ میں ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ کیسٹوں کے دور میں انور مقصود نے کہا کہ لوگ گھر کے لئے دال سبزی خریدتے وقت عمر کے ڈرامہ کی کیسٹ لازمی گھر لے جاتے تھے۔
عمر شریف نے انڈیا کے بڑے بڑے کامیڈینز کو اپنی پرفارمنس سے پچھاڑ دیا تھا، معین اختر،فاروق قیصر،کے بعد عمر شریف کی موت پاکستانی ثقافت کا بڑا نقصان ہے۔ عمر شریف نے غریب بیمار فنکاروں کے لئے کراچی میں ماں ہسپتال مکمل کر دیا تھا مگر افتتاحی تقریب کے لئے قدرت نے مہلت نہ دی
فیس بک کمینٹ