بابا غفور خلاف معمول اکیلا گھٹنوں پر ہاتھ رکھے ہانپتا کانپتا چڑھائی چڑھ رہا تھا۔ اس چڑھائی پر بکریوں کے ساتھ ساتھ بابے کی کبرسنی پر آوازے کستی اس کی بیوی آج اس کے ساتھ نہیں تھی۔ سڑک کی ڈھلوان پر اس کے ربڑ کے بوٹ پھسل کر اس کی راہ کو مزید کٹھن بنا رہے تھے۔ اگرچہ آج دن چڑھتے ہی سورج کی روپہلی کرنیں بادلوں کا آنچل تار تار کر رہی تھی لیکن پھر بھی فضا میں بڑھتی ہوئی خنکی اس بات کا پیغام تھی کہ جاڑا آنے والا ہے۔ بابا غفور اس وقت کوئی اسی نوّے کے پیٹے میں ہوگا لیکن عمر بھر کی جہد مسلسل کی بدولت وہ آج بھی اچھے بھلے جوان سے زیادہ توانا تھا۔ اس کے ہٹتے بڑھتے قدم بالآ خر اس کھڑی چڑھائی کو پار کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے جس سے آگے عمودی ڈھلوان تھی۔ یہاں سے پوری وادی اپنے جوبن سے بھرپور حسن کی قبا کھولے آنکھوں کو جلا بخشتی تھی اور میلوں نیچے چیڑ کے گھنے جنگلوں سے اٹی وادی میں ہجوم کرتے بادل یہاں سے پہاڑ کی چوٹی پر حملہ آور ہوتے۔ یہ چھانگلہ گلی کا مضافاتی علاقہ تھا۔ بازار سے ہٹ کر دور لیکن گاؤں کے پاس۔ میں ہر موسم گرما میں یہاں آ کر دنیا سے رخصت لے لیا کرتا تھا اور یہ پوائنٹ میرا سب سے پسندیدہ مقام تھا جہاں میں گھنٹوں کرسی ڈالے آتے جاتے بادلوں کی سرگوشیاں سنا کرتا تھا۔غفور اور اس کی بیوی روز اس مقام تک اپنی بکریوں کے ساتھ آتے، کچھ وقت بیتاتے اور لوٹ جاتے۔ یہاں اس کی بیوی اس سے اٹکھیلیاں کرتی اور وہ کسی نو بیہتا جوڑے کی طرح رومانس لڑاتے۔ شاید اس قربت کی وجہ ان کے بے پناہ پیار کے علاوہ یہ بھی تھی کہ دونوں اولاد کی ذمہ داریوں سے فارغ تھے۔ ہاں اس دوران کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ ایک مخصوص پتھر پر، جو چوٹی کی طرف ہٹ کر تھا، ساتھ ساتھ چمٹ کر بیٹھ جاتے۔ اس روز بابے کی بیوی خاموش ہوتی اور بابا ایک پر سوز لے پر بانسری بجاتا اور وہ بکریوں سے بے خبر گھنٹوں اسی طرح بیٹھے رہتے۔ بابا غفور بتاتا کہ صاحب جب کوئی ہمارا سنگتی اللہ کو پیارا ہو جاتا ہے تو ہم اس کی اچھی یادیں اس حسین منظر کے روبرو بیٹھ کر یاد کرتے ہیں۔ یہ بانسری میں صرف اسی روز اس لئے بجاتا ہوں کہ مجھے یاد رہے کہ میرے پاس ابھی بھی میری زندگی کا نغمہ، میری بیوی موجود ہے، سو کوئی غم پھر غم نہیں رہتا۔ اسکی بیوی یہ بات سن کر شرماتی تو وہ اس کو بانہوں میں بھر کر مجھے کہتا، صاحب یہ میری بانسری ہے۔۔ ۔۔
ان کے اس روز کے معمول میں کوئی موسم، کوئی طوفان کبھی بدلاؤ نہیں لا سکا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی ذات میں اس قدر پیوستہ تھے کہ اب ایک دوسے کا لازمی جزو بن گئے تھے۔ ان دونوں کو کبھی نہ کسی نے کبھی جدا دیکھا اور نہ کبھی زود رنج۔ وہ زندگی اس طور سے گزار رہے تھے کہ گویا خود زندگی بنی ہی ان کے لئے ہو۔ میں نے دکھ اور تکلیف کو اس پتھر پر بیٹھے جوڑے کی انمول محبت میں بانسری کی لے میں تحلیل ہوتے کئی مرتبہ دیکھا۔
مگر آج سب کچھ خلاف معمول تھا۔ غفور مجھے کبھی کمزور یا بیمار نہیں لگا تھا مگر آج اس کی چال کی لڑکھڑاہٹ اور چہرے کی ویرانی کچھ الگ ہی داستان سنا رہی تھی۔ وہ مجھے بغیر سلام کئے میرے سامنے سے گزرا اور اسی مخصوص پتھر پر اکیلا بیٹھ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں مجھے محسوس ہوا کہ وہ سسک رہا ہے۔ بارشوں کی وجہ سے خود رو گھاس گھٹنوں جتنی لمبی ہو گئی تھی اور وہ قریباً اس میں چھپا ہوا تھا۔ میں اس کی جانب بڑھا۔ وادی سے بادلوں نے اچانک بغاوت کی اور چوٹی پر یلغار کر دی جس میں ہلکی ہلکی گرج بھی شامل تھی اور غفور کی سسکیاں بھی۔ غفور۔۔۔۔۔!!! بادل زور سے گرجا۔ غفور نے مجھے اپنے قریب پا کر زار و قطار رونا شروع کر دیا۔
"کیا ہوا غفور؟” مرے سوال کے ساتھ ہی گرجتے بادلوں نے برسنا بھی شروع کر دیا۔
"میری بیوی فوت ہو گئی صاحب، میری بانسری ٹوٹ گئی!!”
بارش اور تیز ہو گئی۔ جس نے میرے چہرے پر بہتے آنسوں کو چھپا کر میرا بھرم رکھ لیا تھا۔!!
فیس بک کمینٹ