چار سُو پھیلی نُور کی سی روشنی، سرسبز و شاداب نظارے، بیش بہا رنگوں کے حسین پھُول اور نایاب خوشبو۔ گویا ایک حسین ترین باغ میری نظروں کے سامنے تھا۔ اور وہی فرشتہ صورت معصوم بچی سفید جُبا پہنے میری طرف بڑھتی چلی آ رہی تھی ۔ ہمیشہ کی طرح میرے قریب آ کر اس نے اپنے ننھے ملائم ہاتھوں سے میرا ایک ہاتھ تھاما اور اپنے ساتھ اندر باغ کیطرف لے گئی۔ باغ کے اندر کا نظارہ کچھ اور ہی دلفریب تھا۔ جہاں بہت سے حسین و جمیل اور باوقار لوگ سونے، چاندی اور یاقوت سے بنے عالیشان منبروں پر براجمان میری آمد پر مجھے ہلکی سی مسکراہٹ سے جیسے خوش آمدید کہہ رہے تھے ۔۔ اس نے مجھے اُن سب سے زرا دُور مُشک و کافور سے بنے ایک منبر پر بٹھا دیا۔ اور خود میری گود میں بیٹھ کر حسرت سے مجھے تکنے لگی۔ اس بار پھر میں نے اس سے وہی سوال کیا جو ہر بار کرتی آئی تھی ۔۔۔۔۔
"کون ہو تُم”
وہ میرے سوال پر اپنے ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ سجائے ہمیشہ کی طرح میری چھاتی سے لپٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ خواب تھا جو میں پچھلے کئی سالوں سے دیکھتی آ رہی تھی۔ جب بھی یہ خواب ٹوٹتا ، میری چھاتیاں اسکے لبوں کے معصوم لمس اور حرارت سے تر محسوس ہونے لگتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ میں ابھی تک اسی منبر پر براجمان تھی اور وہ میری چھاتی سے لپٹی ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں گہری سوچ میں ڈوب گئی کہ آخر یہ بچی کون ہے ؟ مجھ سے کیوں لپٹی ہے اور یہ کیا جگہ ہے؟ ابھی میں اپنی سوچوں کے بھنور میں ہی ڈوب ابھر رہی تھی کے میری یاداشت کے پردے پر ایک منظر کسی فلم کی طرح رواں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔
"خُدا کا واسطہ یہ ظلم مت کرو۔ مت مارو اس معصوم کو، میں اسے لے کر یہاں سے کہیں دُور چلی جاوں گی۔ مگر بخش دو اسکی جان”
میں ہاتھ جوڑے مسلسل ان کے سامنے گڑگڑائے چلی جا رہی تھی، مگر میری کسی نے ایک نا سُنی۔ اور مجھے اسٹیچر پر زبردستی لِٹا کر آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا۔ میں وہاں بھی رو رو التجائیں کرتی رہی ۔ اور پھر ایک انجکشن کی ہلکی سی تکلیف کے بعد میں نیم بےہوشی کے عالم میں کھونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُچھ دیر بعد جب میرے ہوش و ہواس بحال ہونے لگے تو چاروں طرف جیسے سکُوتِ مرگ طاری تھا۔ میں نے کپکپاتا ہاتھ اپنی کوکھ پر رکھا ، جو ویران ہو جانے کے باعث اپنے سُونے پن کا دکھ کسی لمس کی صُورت میری ہتھیلی کی پوروں میں سمونے لگی۔۔۔۔۔۔
وہ معصوم جو پچھلے چار ماہ سے میرے وجود میں سانسیں لے رہی تھی ، میری دھڑکنوں سے جسکی دھڑکنیں منسلک تھیں ، جو عالمِ ارواح سے فقط ابھی میری کوکھ میں پنہپنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔ کہ اس سے محفوظ جگہ اس کے لیے کوئی دوسری نہیں تھی۔ مگر افسوس کہ اسکی یہی پناہ گاہ اسکے لیے مقتل بنا دی گئی۔۔۔۔۔۔نہایت سفاکی سے اُس ننھی سی جان کے لہو سے سنے چھوٹے چھوٹے ٹُکڑے ایک طلائی پلیٹ میں بھر کر کُوڑےدان میں پھینک دیے گئے۔۔۔۔۔ میں دُھندلائی ہوئی بنجر آنکھوں سے یہ دلخراش منظر فقط دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔ جس پروردگار نے اسے میری کوکھ میں سانسیں بخشی تھیں ، اُس عظیم خالق کی مرضی کے برعکس جا کر اسکی اس ننھی تخلیق کو میری کوکھ میں بےدردی سے مسمار کر دیا گیا تھا۔۔۔ میں فقط درد سہنے کے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں تھی۔ بے حِس و حرکت اسی اسٹیچر پر پڑی جانے کب تک اس ننھی کلی کے شاخ سے نوچ لیے جانے کا سوگ مناتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔
بدن میں جب زرہ بھر طاقت آئی تو مجھے گھر لے آیا گیا۔ میرا شوہر اور ساس نہایت مطمعن تھے ۔ ایک معصوم کے ناحق قتل پر ان دونوں نے فاتحانہ مسکراہٹ کیساتھ میرا استقبال کیا۔ اور اگلی بار اولادِ نرینہ نا ہونے کی صُورت میں ایک بار پھر سے مجھے اسی کربناک اذیت سے گُزارے جانے کی دھمکی دی۔۔۔۔
میں کسی بےجان لاشے کی مانند اپنے مُقدر کے ناسُور لیے جانے کب تک اُن قاتلوں کے بیچ رہی۔۔۔۔ مگر اُس عرصے میں یہی ننھی بچی روز رات کو خواب کی صُورت، میرا ہاتھ تھامے اس اذیت ناک زندگی سے دُور اِسی حسین و جمیل باغ میں لاتی رہی۔ جہاں رات کے چند پہر اس گوشہءنشاط میں گزارنے کے بعد مجھے واپس اسی سفاک دُنیا میں بھیج دیا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مگر آج چاہ کر بھی میری نیند نہیں ٹوٹ پا رہی تھی۔ میں مُسلسل اُسی عالمِ خواب میں تھی۔ ہاں مگر جو بچی میری چھاتی سے لپٹی تھی، اسکی حقیقت سے مجھے روشناس کروا دیا گیا تھا۔ وہ میرے وجود کا وہی ٹُکڑا تھی جسے مجھ سے نوچ کر پھینک دیا گیا تھا۔ وہ ننھی کلی جو کھلنے سے پہلے ہی مُرجھا دی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں منتظر تھی کہ جانے کب واپسی کی طرف لوٹا دی جاوں ، کب میرا حسین خواب تلخ حقیقت میں بدل دیا جائے۔ ۔۔
مگر پھر مجھے یاد دلایا گیا کہ کل رات ہی میرا ناطہ اس دنیا سے توڑ دیا گیا ہے۔ اک عالمِ نا پائیدار کا دروازہ مجھ پر ہمیشہ لے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ اور یہ ننھی کلی جو بِن کھلے مُرجھا دی گئی تھی، آج ایک ننھے سفید پھول کی مانند میرا ہاتھ تھامے، دلکش راہگزر سے ہوتے ہوئے مجھے ہمیشہ کے لیے اس حسین باغ میں لے آئی تھی۔
فیس بک کمینٹ