خواتین کا مجھے نہیں پتہ مگر تذکیر کے ذیل میں آنے والا کیا بڑا، کیا چھوٹا سب انہیں لالہ کہتے ہیں۔ پنجاب کی جغرافیائی حدود میں بولی جانے والی دونوں بڑی زبانوں، سرائیکی اورپنجابی میں لالہ بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔ گویا جس کی تکریم مقصود ہو، اسے لالہ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ لالہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو اللہ نے عزت دی بھی چھپر پھاڑ کے ہے۔ شہرت، دولت اور عزت لالے کے گھر کا جس طور پانی بھرتی ہیں، اس کی مثالِ دگر ملنا محال ہے۔
لالہ سے میرا تعارف بہت پرانا ہے، کم و بیش چالیس سال، پہلے کا۔ گزری صدی میں ستر کی دہائی کے آخری برس تھے، شاید اٹھتر کا سن تھا۔ جب ہم تینوں بھائی، ابا جی کے ساتھ مری گھومنے کو گئے تھے۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ کی ٹیک اور عقبی شیشے کے درمیان جو سامان وغیرہ رکھنے کی ایک شیلف سی ہوتی ہے، دورانِ سفر اس پر لیٹ کے سوجایا کرتا تھا۔ اس سفر میں، خواہ وہ راستے کا کوئی ہوٹل تھا یا اسلام آباد، مری وغیرہ کی دکانیں، ہر جگہ عطاء اللہ ملنگ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ’’دل لگایا تھا دل لگی کے لئے‘‘ یا پھر ’’بال او بتیاں تے ماہی ساکوں ماراو سنگلاں نال‘‘ پتہ چلا کہ جی ایک ناکام عاشق ہے جس نے محبوبہ کی جدائی میں دکھی گیت گانے کا شغل اختیار کیا ہے۔ تب لالے کی جو کیسٹیں ملتیں ان پر عجیب حلئے کے نوجوان عطاء اللہ ملنگ کی تصویر ہوتی۔ سوکھا چہرہ جس کے جبڑوں اور کلوّں کی ہڈیاں نمایاں تھیں۔ بڑے بڑے، شانوں کو چھوتے بال اور دہن کے گرد الٹے U کی صورت پتلی مونچھیں جو نیچے ٹھوڑی کے کناروں تک اتر آئی تھیں۔ واقعی کسی ناکام مجذوب عاشق کی تصویر لگتی تھی۔
بس تب سے لالہ عطاء اللہ نے مجھے اپنی تیل سے چپڑی زلف کا اسیر کیا۔ اتنے سارے برسوں میں لالہ، عطاء اللہ ملنگ سے عطاء اللہ نیازی اور پھر عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی بنا۔ موہائے بروت وسر کٹواکر شریفانہ حلیہ اختیار کیا مگر کروڑوں لوگوں کی طرح میں بھی لالہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی آواز و گائیکی کی اسیری سے نہ نکل پایا۔ ملتان شہر میں، شادی بیاہ کی نجی تقریبات کو چھوڑ کے، لالے کا کوئی عوامی پروگرام ایسا نہیں جس میں یہ کالم نگار حاضرین میں شمار نہ ہوا ہو۔ ٹی وی پر اگر لالے کا پروگرام لگنا ہوتا تو ساری اور ہر طرح کی سرگرمیاں ختم۔ لالہ کو قدرت نے بڑے اونچے سُروں کا حامل گلا دیا ہے۔ جب وہ باجے کی تیسری ستبک کے سُروں پر سواری کرتا ہوا کندھے جھٹک کے پھیپھڑوں کا زور لگاتا ہے تو گویا سننے والے کی اور دیکھنے والے کی جان اپنی مٹھی میں کرلیتا ہے۔ اب لالہ پیری کے عہد میں قدم دھرچکا ہے۔ سگریٹ پی پی کر پھیپھڑوں میں وہ پہلی سی طاقت نہیں رہی مگر آج بھی اس نے اپنے گیتوں کا سُر چھوٹا نہیں کیا۔ اُسی تیسری سبتک میں گاتا ہے، فرق یہ ہے کہ پہلے سینے کے زور پر گاتا تھا اور اب گلے کے، جسے رگی کی گائیکی کہتے ہیں۔
یادش بخیر! یہ انیس سو ترانوے کا ذکر ہے۔ یونی ورسٹی میں سالِ اول کا طالب علم تھا۔ ہم نے اپنے سینئرز کو الوداعی پارٹی دینی تھی، سو کچھ منفرد کرنے کا پروگرام بنایا۔ یونی ورسٹی پرتو اُن دنوں جماعتیوں کا قبضہ تھا، کیمپس میں وہ موسیقی کا نام بھی نہ لینے دیتے تھے۔ سو طے یہ ہوا کہ شہر میں کسی جگہ تقریب کریں گے اور ساتھ موسیقی کا بھی اہتمام ہوگا۔ اب ذرا ہم انوکھے لاڈلوں کی خواہش پر غور فرمایئے کہ موسیقی کے لئے عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو بلوانے کا طے ہوا۔ تب لالے کا عروج تھا مگر ہمیں لگتا تھا کہ لالہ بس اس انتظار میں ہے کہ ہم تقریب کی تاریخ کا اعلان کریں اور وہ آکے اپنے فن کا مظاہرہ کرے۔ لالے کا رابطہ کسی کے پاس نہ تھا۔ فیصلہ ہوا کہ لالہ کے ہم دمِ دیرینہ اور ندیمِ شب و روزینہ پروفیسر عامر فہیم کے پاس چلتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ لالے کو بلادیں۔
نونمبر چنگی کے پاس ہمایوں روڈ پر ایک پرانی سی عمارت تھی، اسی میں عامر فہیم صاحب کا سٹوڈیو ہوا کرتا تھا اور اکیڈمی بھی۔ ایک شام میں، رانا عارف مرحوم اور شکیل انجم مل کر پروفیسر صاحب کے پاس جاپہنچے۔ ظاہر ہے وہ ہم میں سے کسی کو نہ جانتے تھے۔ ان کو تعارف کروایا اور ملاقات کی غرض و غائت بتائی۔ پروفیسر صاحب خاموش ہوگئے مگر ان کے چہرے کے تاثرات بتاتے تھے کہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے ہوئے ضبط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ کوشش زیادہ دیر نہ چل سکی۔ سرائیکی میں بولے ’’ساٹھ ہزار روپے لیتا ہے عطاء اللہ ایک پرفارمنس کے۔ آگئے ہیں منہ اٹھاکے جی عطاء اللہ کو بلادو‘ ہونہہ…. ہیں تہمارے پاس ساٹھ ہزار روپے؟‘‘ ان کے لہجے کی بنیادیں طنز اور غصے کے مسالے سے استوار ہوئی تھیں۔ ہم ہونقوں کی طرح اک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب نوے ہزار کی نئی سوزوکی مہران آتی تھی، ہمیں دس بیس روپے روزانہ کا جیب خرچ بہت ہوا کرتا تھا۔ شرمندگی، احساسِ کم تری اور بے عزت کئے جانے کا احساس جو اندر سے اٹھا تو ہمارے چہروں پر ہویدا ہوگیا۔
پروفیسر صاحب اپنے دیگر ملاقاتیوں سے باتوں میں مصروف ہوگئے۔ ہم اٹھ کے چلنے کو تیار ہوئے تو پروفیسر صاحب نے نظر بھر کے دیکھا۔ ہماری مسکین شکلیں دیکھ کر انہیں شاید ترس آگیا۔ کہنے لگے ’’آپ لوگ اپنی پارٹی کراؤ۔ اگلے ہفتے یہاں اکیڈمی میں لالہ آرہے ہیں، ان کا پروگرام ہے۔ آپ نے عطاء اللہ کو ہی سننا ہے نا! آپ کو اور آپ کے سینئرز، دونوں کلاسوں کو میری طرف سے دعوت ہے‘‘۔ جن چہروں کی ہوائیاں اڑ رہی تھیں، وہاں خوشی کی پرچھائیاں رقص کرنے لگیں۔ ہم نے کوشش کی کہ اس پروگرام کو خفیہ رکھیں مگر ہماری کلاس کے علاوہ بھی یونی ورسٹی کے کئی لڑکے وہاں پہنچے۔ خوشبو کو کہاں قید رکھا جاسکتا ہے بھلا۔اکیڈمی کا صحن سارا بھرا ہوا تھا۔اس کے بعد برامدے کی چھت تھی، اس پر بھی لوگ تھے۔ برامدے کے پیچھے عمارت کی چھت جو برامدے کی چھت سے چار پانچ فٹ اونچی تھی، وہاں پر بھی لوگ تھے اور اوپر والی چھت پر ایک ممٹی بنی تھی۔ اس کی چھت پر ہماری منڈلی تھی۔ ہم ممٹی کے کناروں پر پیر لٹکائے بیٹھے تھے جب کہ ممٹی کی چھت پر انجم کاظمی، شاہد اور وہ ہسٹری والا بٹ، اس کا نام یاد نہیں، کھڑے تھے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے، دور نیچے، دو چھتیں پرے، صحن کے پار مغربی دیوار کے ساتھ بنے سٹیج پر لالہ ہارمونیم تھامے گارہے تھے۔ شو عروج پر تھا…. لالہ نے وہ گیت شروع کیا ’’چیرویں اکھ تیری‘ پتلا اے لک تیرا‘ چال مستانی…. میرے گیتاں دی رانی‘ شالا مانیں جوانی‘‘۔ ردھم سے بھرپور گیت تھا‘ ممٹی کی چھت پر کھڑے ہمارے شاہ جی (انجم کاظمی) اور بٹ نے ناچنا شروع کردیا۔ ان کو ہلاشیری دینے کے ساتھ ہم سٹیج کی طرف بھی دیکھ لیتے۔ پہلا انترہ ختم ہوا تو مڑ کر جو دیکھا تو چھت پر ناچتے شاہ جی، محمد شاہد اور بٹ، تینوں ہی غائب تھے۔ ابھی حیرت سے منہ کھولے ہم کچھ سمجھنے بھی نہ پائے تھے کہ گرد کا ایک طوفان اٹھا۔ ممٹی کی لکڑی کی کڑیوں اور چھپر، مٹی کی کم زور چھت شاہ جی اور بٹ کے ٹھمکے برداشت نہ کرسکی اور نیچے آن رہی۔ تینوں رقاص کھڑے کھڑے ممٹی کی چھت سے ممٹی کے پیٹ میں پہنچ گئے۔ اتنی گرد اڑی، نیچے صحن تک یہ بادل گئے مگر لالے نے گانا نہیں روکا۔ وہ آنکھیں بند کئے گیتوں کی رانی کے تصور میں تھے، ان کو پتہ ہی نہ چلا۔
بات ہورہی تھی لالہ عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی اور میں اپنی یادوں کی فلم چلاکے بیٹھ گیا۔ ڈیڑھ برس قبل ریڈیو ملتان کی سال گرہ تقریب پر لالہ کو ایک مدت بعد لائیو پرفارم کرتے دیکھا اور سنا۔ ماشاء اللہ ابھی بھی وہ حاضرین پر جادو کرکے انہیں بے خود کردیتے ہیں۔ تب ہمارے دانش ور دوست رانا اعجاز محمود نے کہا تھا کہ لالہ اب صرف گلوکار نہیں رہا بلکہ دیومالائی داستانوں کا ایک کردار بن چکا ہے۔ وہ جیتا جاگتا دیوتا جو لوگوں کے دلوں میں بستا ہے اور لوگ اس سے عقیدت رکھتے ہیں۔ لالہ کو اب باقی زندگی اس ملک کے غریب پرستاروں کے نام کردینی چاہیے۔ لالہ کی ایک پروگرام کی فیس اتنی ہے کہ غریب تو کجا اپر مڈل کلاس کے لوگ بھی اس کو ادا نہیں کرسکتے مگر وہ سب لالہ کو لائیو سننے کے لئے ترسا کرتے ہیں۔
رانا اعجاز کی بات ٹھیک ہے لالہ! چالیس سال بڑی کمائی کرلی، اب بھی کریں، جو دے سکتے ہیں، ان کے شو ضرور کریں مگر مہینے میں دو یا کم از کم ایک شو عوام الناس کے لئے کیا کریں، بالکل مفت۔ گلی گلی محلہ محلہ نوجوانوں کی تنظیمیں ہیں۔ آپ صرف پرفارم کرنے کا عندیہ دیں وہ انتظامات کرنے کو بسروچشم تیار ہوں گے۔ وہاں جاکے ان لوگوں کو سنائیں جو آپ کی فیس تو کیا، شاید آپ کو ویل کرانے کی بھی سکت نہیں رکھتے مگر آپ کی مورتی دل کے نہاں خانوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ جنوبی پنجاب کا حق زیادہ ہے کہ آپ یہاں کی زبان میں زیادہ گاتے ہیں۔ آپ یقیناً مالی سخاوت کرتے ہیں لیکن آواز اور گائیکی کی صورت آپ کو قدرت نے جو عطیہ دیا ہے، اس کی بھی سخاوت کریں۔ پریشانیوں، غربت اور فکر کے مارے ذہنوں کو تفریح میہا کرنے کی سخاوت۔
(بشکریہ:روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ