14 مئی 2017ء کو جب پوری قوم ماں کا عالمی دن منا رہی تھی عین اُسی دن کراچی میں ایک ایسی ماں نے دَم توڑا جس نے تمام عمر شادی تو نہ کی لیکن اپنی بھانجی کو بیٹی بنایا کہ کسی کو آخر دم تک معلوم نہ ہو سکا کہ وہ بیٹی ان کی لے پالک ہے۔ جی یہ تذکرہ ملک کی نامور نعت خواں، ماہر تعلیم اور دانشور منیبہ شیخ کا ہے۔ جن کا پہلا اور آخری حوالہ نعت تھا اور جو 17 شعبان المعظم کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی۔
قارئین کرام اس سے قبل ہم آپ کو منیبہ شیخ کے بارے میں کچھ بتائیں پہلے دو واقعات ملاحظہ فرمائیں کہ منیبہ شیخ کا تعلق ہندوستان کے ایک خانوادے سے تھا جو علمی اور مذہبی روایات کا امین تھا۔ منیبہ شیخ کی والدہ کا تعلق درس و تدریس سے تھا۔ سماجی اور سیاسی حلقوں میں سرگرم ہونے کی وجہ سے کارپوریشن (پونا انڈیا) کی چیئرپرسن بھی منتخب ہوئیں۔ بچپن سے ہی منیبہ شیخ کو عربی، فارسی، فقہ، تدوین، تفسیر قرآن اور حدیث کی تعلیم دی گئی۔ منیبہ شیخ کی زندگی کا اہم موڑ وہ تھا جب ان کی سب سے بڑی بہن چار بچوں کو چھوڑ کر اﷲ کو پیاری ہو گئیں۔ اس وقت منیبہ کی عمر سترہ برس تھی اور ان کی والدہ نے منیبہ کو حکم دیا کہ وہ بچوں کی خاطر اپنی عمر سے 22 برس بڑے بہنوئی سے شادی کر لیں۔ نتیجہ انکار کی صورت میں جب آیا تو ماں ناراض ہو چکی تھی۔ منیبہ کے انکار نے خاندان میں اختلافات کی بنیاد رکھ دی۔ انہی دنوں منیبہ کے ماموں ایس۔ایم۔ حنیف نے آئی۔آئی چندریگر کی دعوت پر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو اپنی چہیتی بھانجی کو اپنے ساتھ لے گئے۔ ماموں بے اولاد تھے، منیبہ کو بیٹی بنایا۔ تعلیم و تربیت میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ منیبہ کے ہر شوق کی آبیاری کرتے رہے۔ ماموں کے علم میں یہ بات تھی کہ ان کی بھانجی کی آواز سریلی ہے، سکول سے لے کر کالج تک ان کی آواز کے چرچے تھے۔ لیکن ماموں نے منیبہ کو ہدایت کر رکھی تھی کہ یہ آواز گانے کے لیے نہیں ہے بلکہ اس آواز کا اصل کام ”حمد و نعت“ پڑھنا ہے۔ ایک دن پی۔ای۔سی۔ایچ۔ایس کالج کی پرنسپل و بانی بیگم مجید ملک نے ان کی آواز کو سنا اور منیبہ شیخ کے حوالے فیض، اقبال اور غالب کی شاعری کر دی۔ ان شعراءکے کلام کو جس خوبصورتی سے منیبہ شیخ نے پڑھا تو پورے کالج میں ان کی آواز کا شہرہ ہوا تو کراچی کے تمام کالجز منیبہ شیخ کی آواز کو سننے کے منتظر رہنے لگے۔ انہی دنوں بیگم مجید ملک نے اپنے کالج میں ”دلی کا آخری یادگار مشاعرہ“ کے عنوان سے ایک پروگرام سجایا جس میں منیبہ شیخ نے بہادر شاہ کی غزل اور استاد مومن کا بھیس بدل کر شرکت کی۔ تقریب میں منیبہ شیخ کے ماموں نے بھی شرکت کی۔ گھر آ کر اپنی بھانجی سے کہنے لگے ”بیٹا جس لڑکی نے مومن کا کلام سنایا اس کی آواز اور انداز نے میرا دل موہ لیا۔“ اس تقریب میں معروف موسیقار رشید عطرے نے بھی شرکت کی، انہوں نے جب منیبہ کی آواز سنی تو انہوں نے پرنسپل کے ذریعے فلم کے گیت گانے کی پیشکش کر دی۔ لیکن منیبہ نے سختی سے منع کر دیا کہ میرے گھر کے حالات ایسے نہیں کہ مَیں فلم کے لیے گانا گاؤں۔
انہی دنوں ریڈیو پروڈیوسر محمد نقی کی بہنیں (جو اسی کالج میں زیرِ تعلیم تھیں) منیبہ شیخ کو قائل کیا کہ وہ ریڈیو جا کر اپنی آواز کا جادو جگائے۔ ہمسایہ میں ریڈیو کراچی کے سٹیشن ڈائریکٹر ظاہر شاہ رہتے تھے انہوں نے جب منیبہ کی آواز سنی تو وہ بھی ریڈیو گانے کے لیے اصرار کرنے لگے۔ دوسری جانب ماموں نے صرف ریڈیو خبریں پڑھنے کی اجازت دی کیونکہ وہ خود خبریں بڑے شوق سے سنتے تھے کہ انہیں معلوم تھا کہ ریڈیو میں زبان کی درستی اور تلفظ کی اصلاح تابش دہلوی کراتے ہیں۔ خبروں کی اجازت ملتے ہی منیبہ کے لیے ریڈیو کے دوسرے پروگراموں کے راستے کھل گئے۔ منیبہ کہیں ڈراموں میں صداکاری کرنے لگیں تو ریڈیو کراچی کے مقبول پروگرام ”پلیٹ فارم“ کی میزبانی مل گئی۔ گھر کی طرف سے اتنی سختی تھی کہ اصل نام سے گلوکاری نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک دن نام تبدیل کیا، منیبہ نے اپنا نام عاشی بیگم رکھا اور ایک غزل گا دی۔ وہ غزل عین اس وقت نشر ہوئی جب ماموں ناشتہ کر رہے تھے۔ آواز سنتے ہی بولے ”کیا لحن ہے۔“ بھانجی زیرِ لب مسکراتی رہی کہ انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ یہ ان کی بھانجی کی آواز ہے۔
اسی طرح کراچی حسن اسکوائر میں خواتین کی ایک نمائش میں گانے کا مقابلہ ہوا۔ منیبہ شیخ نے نام تبدیل کیا ”عزیزہ بیگم“ کے نام سے گانا گا دیا۔ مقابلے کے اختتام تک اپنا فرضی نام بھول گئیں۔ ججز نے جب نتائج کا اعلان کیا تو عزیزہ بیگم کو پہلا انعام ملا۔ تو ساتھ کھڑی خاتون نے کہا یہ گانا تو آپ نے گایا۔ منیبہ شیخ آگے بڑھی، پہلا انعام ”کٹلری سیٹ“ وصول کیا۔ ایک طرف منیبہ شیخ کی کامرانی کا سفر جاری تھا تو دوسری طرف ان کے سرپرست ماموں اچانک انتقال کر گئے۔ ممانی نے گھر میں منیبہ کا داخلہ بند کیا۔ تو انہی دنوں سرسید کالج میں جزوقتی لیکچرر کی نوکری مل گئی۔ منیبہ ان دنوں ”اُردو ادب کے پچیس سال“ پر پی۔ایچ۔ڈی کر رہی تھیں۔ گھر کے حالات کیا تبدیل ہوئے پی۔ایچ۔ڈی نامکمل رہ گئی۔ اس سے قبل انہوں نے فارسی، اسلامک ہسٹری اور انڈین اسٹڈیز میں ماسٹر کر رکھا تھا۔ سرسیّد کالج میں تدریس کے دوران ہی منیبہ نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا تو پہلی تقرری گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں ہوئی۔ منیبہ سرسیّد کالج میں ہی رہنا چاہتی تھیں۔ کالج سے اپنی ایک کولیگ کو ساتھ لیا، خواتین کالج کی پرنسپل سے جا کر کہا ”آپ مجھے سرسیّد کالج میں ہی رہنے دیں۔“ پرنسپل نے کہا ”اگر ڈائریکٹوریٹ مجھے کوئی بندہ دے دے تو چلی جاؤ۔ مجھے کوئی آپ کا اچار ڈالنا ہے۔“ یہ سنتے ہی منیبہ نے کہا ”اگر ڈائریکٹوریٹ مجھے کوئی بندہ دے دے تو مَیں خود نہ رکھ لوں، آپ کو کیوں دوں۔“ واضح رہے یہ دونوں خواتین (پرنسپل و منیبہ شیخ) ہی غیر شادی شدہ تھیں بعد میں ان کا یہ جملہ اتنا مشہور ہوا کہ اکثر اس کا تذکرہ کیا جاتا۔
سرکاری نوکری کے بعد منیبہ کے حالات بہتر ہونے لگے تو انہوں نے سنجیدگی سے نعت گوئی کی جانب توجہ دی۔ 1977ءمیں جب حکومت علامہ اقبال کی صد سالہ تقریبات منا رہی تھی، پی۔ٹی۔وی کراچی نے ان کی آواز میں علامہ اقبال کا نعتیہ کلام لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب ریکارڈ کی۔ یہ نعت ریڈیو اور ٹی وی پر نشر ہوتے ہی ان کی آواز کا شہرہ ہر طرف پہنچ گیا۔ معاشی حالات بہتر ہوئے۔ تو پھر کراچی کے ہر میلاد کی رونق بن گئیں۔ ریڈیو، ٹی۔وی پر جتنے خواتین کے میلاد ہوتے منیبہ شیخ کو آخر میں موقع دیا جانے لگا۔ آہستہ آہستہ ان کی آواز اور سادگی نے ہر گھر میں جگہ کر لی۔ خود میری والدہ محترمہ ان کی آواز کی شائق ہیں کہ جب بھی ٹی۔وی پر کوئی میلاد ہوتا وہ منیبہ شیخ کی آواز میں نعت سن کر خود کو مدینہ میں تصور کرتی ہیں۔ ملک میں جب ٹی۔وی چینل کا رش ہوا تو رمضان المبارک، ربیع الاول، شعبان المعظم، شب معراج اور دیگر اہم دنوں پر میلاد کی محافل میں سے سب سے اہم نام منیبہ شیخ کا ہوتا تھا۔ چہرے پر سادگی، آواز کی خوبصورتی، تلفظ کی درست ادائیگی، نعتوں کی دھن میں بھی احترام کا پہلو۔ یہ سب کچھ جمع کریں تو منیبہ شیخ کی نعت گوئی بنتی ہے۔ ان کی آواز کی خوبصورتی سن کر بے نظیر بھٹو نے اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا۔ بے نظیر بھٹو اکثر انہیں وزیراعظم ہاؤس میں میلاد کی دعوت دیتی اور جی بھر کر ان سے نعتیہ کلام سنتی۔ تمام زندگی شادی نہ کی۔ لیکن ایک بھانجی کو بیٹی بنا کر نعت گوئی کی تربیت دی اور آخرکار نعت کے حوالے سے انتہائی معتبر نام منیبہ شیخ گردوں کے عارضے میں مبتلا ہو کر ماں کے عالمی دن یعنی 14 مئی 17 شعبان المعظم کو انتقال کر گئیں۔ منیبہ شیخ چونکہ رمضان المبارک میں مختلف ٹی وی چینل میں سحری و افطاری کی نشریات میں نعت پڑھا کرتی تھیں اس مرتبہ منیبہ شیخ کی حاضری اس دربار میں لکھی گئی ہے جس کی نظرِ کرم کے ہم منتظر رہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ منیبہ شیخ آنے والے رمضان المبارک میں اپنی بیاض لے کر سرکارِ دوعالم کے حضور موجود ہوں گی اور وہاں پر اپنی مشہور زمانہ نعت سنا رہی ہوں گی
لوح بھی تو قلم بھی تو ترا وجود الکتاب
فیس بک کمینٹ