یہ جو سڑکوں پر دوڑتی بھاگتی گاڑیاں ہیں، موٹرسائیکلیں، بسیں،رکشے اور ویگنیں، ان سب نے مقامات کے مابین حائل مکانی بُعد کے زمانی فاصلوں کو تو کم کردیا ہے مگر انسان اور فطرت کے درمیان دوریاں بڑھا دی ہیں۔ سفر کی رفتار جوں جوں بڑھ رہی ہے، انسان مشاہدے سے محروم و معذور ہوتا جا رہا ہے۔ کہیں سے گزرنے کی رفتار جس قدر کم ہوگی، اردگرد کا مطالعہ اسی قدر گہرا۔ ہوا کے شانوں پر سواری کرتے جب ہمارے حکمران سڑکوں پر آتے ہیں تو عوامی سواریوں کی روح قبض کر کے ان کے قافلوں کو ایسی سبک خرامی سے گزارا جاتا ہے کہ وہ گردوپیش و پس سے آگاہ نہ ہو پائیں۔ سو یقین رکھیئے کہ اگر ہماری تخت آراء شخصیات اور ان کے درباروں کے مسند نشینوں کو عوام کے حالات کا علم نہیں تو اس میں ان کی نیت کا کوئی دخل نہیں، یہی سبک پائی انہیں کچھ نظر نہیں آنے دیتی۔ بہ ہر حال، اس تمہید کے ان آخری دو جملوں کو تو جملہ ہائے معترضہ شمار فرمائیے، انشائیہ کلمات یہ ہیں کہ میں آج آپ سے اپنی ایک پیدل یاتراکا حال بانٹنا چاہتا ہوں۔ ان دنوں لاہور میں قیام ہے اور سروسز ہسپتال کے ڈاکٹرز ہاسٹل میں برادرِ خورد ڈاکٹر عمران منظور کے ساتھ بسرام۔ یہ جمعہ کی صبح تھی۔ کوئی پونے نو بجے صبح چائے کا کپ رکھ کر دفتر جانے کے لئے نکلا۔ ڈیڑھ سو روپے الگ کر کے قمیص کی سامنے والی جیب میں رکھ لئے کہ رکشے کا کرایہ دیا جا سکے۔ پیہم دو دن آسمان برستا رہا تھا مگر جمعہ کی صبح بڑی چمکیلی دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ گیٹ پر آ کر ایک رکشے والا سے پوچھا، اس نے انکار کر دیا۔ سامنے نظر دوڑائی تو کسی سخی کے دل ایسی فراخ جیل روڈ پر ٹریفک رواں دواں تھی۔ گرین بیلٹ پر پودے اور سبزہ آنکھوں کو تراوٹ دیتے تھے اور سڑک پار، ریس کورس پارک کے قد آور درخت دو روز تک غسلِ آبِ باراں کرنے کے بعد نکھر کر اب غسلِ آفتابی کرتے تھے۔ میں نے سوچا کہ کون رکشے کا انتظار کرے۔ یوں بھی ڈاکٹر نے واک کی تاکید کر رکھی ہے، سماں بھی سہانا ہے، آج فطرت کی بخشی سواری کو استعمال میں لایا جائے۔ سڑک پار کرنے میں قدرے دقت ہوئی مگر پھر جو ریس کورس والی جانب کے فٹ پاتھ پر قدم اٹھانے شروع کئے تو نشہ سا آ گیا۔ میرے بائیں جانب سڑک پر چیختی چنگھاڑتی، شور مچاتی ثقافت تھی اور دائیں جانب وہ فطرت جسے انسانی ہاتھوں نے تراش خراش سے مزید جِلا بخش دی تھی۔ میں نے بایاں کان اور آنکھ بند کر لئے۔ شادمان والے چوک سے دائیں طرف مڑا۔ چائنا چوک سے گزر کر جب گورنر ہاؤس کی طرف بڑھا تو میں نے سڑک پار کر لی۔ ادھر لارنس گارڈن( جسے’’ مسلمان‘‘ کر کے ہم نے باغِ جناح قرار دے رکھا ہے) کے عمر رسیدہ درخت سورج کی کرنوں سے وٹامن ڈی کشید کرتے تھے۔ میرے آگے ایک اکہرے بدن کا شخص صاف ستھری جینز کی پتلون اور اس کے اوپر جیکٹ پہنے چلا جاتا تھا۔ پیروں کے جوتے قدرے خستہ تھے اور شانے پر ایک بڑا سا شاپنگ بیگ لٹکتا تھا۔ ایک جگہ کوڑے کا ڈھیر دیکھ کر وہ رک گیا۔ شاپر فٹ پاتھ پر رکھا اور ڈھیر میں سے چھانٹ کر سافٹ ڈرنک کے چار پانچ خالی ٹن نکالے اور اپنے شاپر میں ٹھونس لئے جس میں پہلے ہی ایسا الا بلا بھرا ہوا تھا۔ میرے لئے اس کے حلئے کی مناسبت سے یہ منظر حیرت افزا تھا۔ ادھر سے اپنی مطلوبہ اشیاء برآمد کرنے کے بعد وہ سڑک پار کرنے کو پر تولنے لگا جہاں چیمبر آف کامرس کے سامنے پیلے رنگ کا ایک بڑا کوڑے دان پڑا تھا۔
خیر! میں لارنس گارڈن کی قربت کے سحر میں کھویا آگے بڑھ گیا۔ پتہ نہیں کیا سوچ رہا تھا جب دائیں جانب بہتی ٹریفک میں سے ایک انسانی آواز برآمد ہوئی۔ ’’ بھائی جی!بلال گنج کِنا دور اے ایتھوں‘‘۔ رک کر دیکھا تو ایک بھاری جسم کا شخص جس نے چھوٹی چھوٹی داڑھی رکھ چھوڑی تھی اور شلوار قمیص پر گرم جیکٹ پہنے ہوئے تھا، موٹرسائیکل پر سوار مجھ سے مخاطب تھا۔ میں نے کہا ’’ سامنے اشارے سے الٹے ہاتھ مڑ جاؤ۔ بہت سارے اشارے گزر کر ٹکر آئے گی، وہاں سے سیدھے ہاتھ ہو جانا۔ آگے داتا دربار ہے اور اس کے پیچھے بلال گنج‘‘۔ وہ بڑی مشکل میں مبتلا لگ رہا تھا۔
’’ او بھائی جی! فاصلہ کِنا اے؟‘‘ وہ خالص لاہوری لہجے میں پنجابی بولتا تھا۔ میں نے کہا ’’ چار پانچ کلومیٹر ہوگا‘‘۔ اس نے پیروں پر دباؤ ڈال کر زمین کو پیچھے اور موٹر سائیکل کو آگے دھکیلا۔ ’’ دعا کرنا میری موٹرسیکل پہنچ جاوے۔ امی جی دی دوائی لین نکلیا واں تے پرس گھر بھل آیا‘‘ ۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھا مگر دس پندرہ قدم کے فاصلے پر اس کی موٹرسائیکل بند ہوگئی۔ وہ چوک کھینچنے اور موٹرسائیکل کو بائیں کروٹ لِٹانے لگا۔ اس کے چہرے پر کرب اور مظلومیت تھی۔ میں قریب پہنچا، رکشے والے کو دینے کے لئے جو ڈیڑھ سو روپے سامنے کی جیب میں رکھے تھے وہ نکال کر اس کی جانب بڑھائے کہ پٹرول ڈلوا لو۔
وہ پیہم انکار کرنے لگا، چہرے پر ایسے تاثرات تھے گویا میں نے اس کی عزت نفس پر حملہ کیا ہو۔ ’’ او نئیں بھائی جی! تسی زیادتی کر رئے او۔ میں پیدل چلا جاواں گا۔ نئیں نئیں بالکل نئیں۔ ہو ای نئیں سکدا، ناں جی ناں ایہہ کی کر رئے او‘‘ ۔ مجھے اس کی خود داری نے بے حد متاثر کیا۔ اس نے اتنا انکار کیا کہ مجھے شرمندگی ہونے لگی۔ ایک دفعہ تو میں نے سوچا کہ اپنی پیش کش واپس لے لوں۔ پھر جب اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو ارادہ بدل دیا۔ میں نے پیسے اس کی سامنے والی جیب میں ڈال دئیے۔ اب وہ مجھ سے پتہ اور فون نمبر پوچھنے لگا کہ میں آپ کو یہ رقم واپس کروں گا مگر میں نے نہیں بتایا اور کہا کہ میں دوسرے شہر کا ہوں۔ وہ چہرے پر شرمندگی طاری کئے آگے بڑھنے لگا۔ بار بار شکریہ ادا کرتا تھا۔ موٹر سائیکل لٹانے سے کچھ پٹرول کاربوریٹر میں اترنے سے وہ سٹارٹ ہوگیا تھا۔ اس مردِ ادھیڑ عمر نے گئیر لگایا اور آگے بڑھا تو مجھے اس کی خودداری پر بڑا ہی رشک آیا اور پھر موسم کے خمار کے ساتھ ساتھ ، کسی حقیقی ضرورت مند کے کام آ جانے کا سرور بھی میرے رگ و پے میں اترنے لگا اور میں نے ایک الگ ہی ترنگ میں پَیر اٹھانے شروع کردئیے۔ مگر دس پندرہ قدم کے بعد وہ ایک بار پھر رک گیا۔ میں قریب پہنچا تو بولا’’ بھائی جان! حکیم کولوں امی جی دی جیہڑی دوائی لیائی دی اے او چار سو سٹھ (460) روپے دی آندی اے۔ جتھے ایہہ مہربانی کیتی جے او وی کر دیو، میرا گھر دا چکر بچ جائے گا‘‘۔ اگریہ تحریر افسانہ ہوتی تو اس کو یہیں ختم کر کے میں قلم کی نوک توڑ دیتا مگر چوں کہ یہ کالم ہے سو یہ آخری جملہ جو اس ساری روداد کا لبِ لباب ہے ، وہ لکھنا پڑے گا۔ پتہ نہیں یہ شلوار قمیص والا موٹرسائیکل سوار زیادہ خود دار تھا یا کوڑے سے قابلِ فروخت اشیاء چنتا وہ لنڈے کی جین والا تھیلا بہ دوش ۔
فیس بک کمینٹ