لال ہری پیلی بتیاں سجے گھر کو اپنی کھڑکی سے دیکھتے ہوئے رحمانہ نے امجد کو کہا،’اجی دیکھتے ہو سامنے والوں کی شادی ہے کل۔ دیکھو تو کیسی شاندار تیاری کر رکھی ہے انہوں نے اب تو پورے محلے میں ان کی واہ واہ ہو جائے گی۔’
‘ہوں’ امجد نے اخبار سے منہ اٹھائے بغیر ہی جواب دیا جوکہ رحمانہ کو گراں گزرا۔
‘دیکھے بغیر ہی آپ جواب نہ دیا کرو جی۔دیکھ کر بتاؤ نا کیسی لگ رہی لائیٹنگ۔’
امجد صاحب جو کہ دفتر سے تھکے آ کر بہت سنجیدگی سے کچھ پڑھ رہے تھے کچھ تنگی سے بولے،’کیوں دیکھوں،کیا میری شادی ہے؟’
‘استغفار۔۔۔کیسی باتیں کرتے ہو جی۔میں تو آپ کو سامنے والوں کی شان دکھانا چاہ رہی۔دیکھو نا کیسی اعلیٰ سجاوٹ کر رکھی ہے۔ایسی سجاوٹ ہم بھی کریں گے اپنے علی کی شادی پر۔’
‘بس کر دو بیگم،خواہ مخواہ نہ کھڑی رہا کرو کھڑکی پر،کوئی کام بھی کیا کرو’امجد صاحب نے ٹوکتے ہوتے ہوئے کہا۔
‘ہٹو جی تو کیا یہ کام نہیں ہے؟’رحمانہ نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا پھر ایک دم رکی اور سر پر ہاتھ رکھ کر بولی،’ہائے اللہ میں کیسے یہ بھول گئی میرے تو مہندی کے کپڑے ہی نہیں آئے ابھی تک درزی سے’
‘ہیں۔۔۔کون سے کپڑے بیگم۔ابھی کل تو کی ہے شاپنگ آپ نے جوتے،کپڑے،پرس جانے کیا کیا۔کیا میرا کباڑہ کرو کی بیگم۔’امجد صاحب سیٹ پر تقربیاً اچھلتے ہوئے بولے۔
‘وہ تو بارات اور ولیمے کے لیے تھے نا۔مہندی کا سوٹ تو درزی نے دیا ہی نہیں ابھی تک۔ اور ابھی شاپنگ پوری کہاں ہوئی جی۔میچ کرنی ہیں میں نے کچھ چیزیں ساتھ۔’ رحمانہ نے پیار سے امجد صاحب کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا۔ اسے پتہ تھا ان کو منانا اتناآسان کام نہیں۔ویسے بھی وہ ان کے کافی پیسے لگوا چکی تھی۔
‘ارے بیگم،ابھی کیا اور کوئی میچنگ رہتی ہے ،گھر میں جو ڈھیر چیزیں پڑی ہیں وہ ہی پہن لینا ساتھ۔ آخر سامنے والوں کی شادی ہی تو ہے۔’امجد صاحب نے دھیمی آواز میں سمجھانے کی کوشش کی۔
‘کیا کہا۔میں اب پرانی چیزیں پہنوں گی شادی پر۔پورا محلہ ہو گا وہاں۔۔۔ میری کیا عزت رہ جائے گی جب مسز حمزہ، مسز سلمیٰ،ریحانہ،رخسانہ۔۔۔سب کی سب نئی اور خوبصورت جیولری اور کپڑوں سے مزین ہوں گی اور میں۔۔۔۔۔’رحمانہ نے گالوں پر ہاتھ نچاتے ہوئے کہا۔
‘ارے پرانے کہاں ہوئے بیگم، ابھی پچھلے ماہ ہی تو گزری ہے ردا کی شادی اس میں جو کپڑے،سیٹ لیا تھا وہ پہن لو’امجد صاحب نے ایک سعیء لاحاصل کرتے ہوئے کہا۔
‘ارے جائیں جی۔۔۔سب نے دیکھے ہوئے میرے کپڑے۔آپ نے نہیں پیسے دینے تو ایسے بہانے تو مت ماریں نا اب’ رحمانہ ناراضگی سے بولی۔
‘نہیں،نہیں میں تو صرف مشورہ دے رہا تھا۔لو جی رکھ لو پیسے میں نے نکلوا لئے تھے سیونگز سے۔’ امجدصاحب نے بٹوے سے نوٹ بیگم کی جانب لہراتے ہوئے کہا۔
‘اوہ شکریہ امجد۔’رحمانہ خوشی سے جھوم اٹھی پھر سامنےکمرے کی جانب دوڑی۔
"علی ۔۔۔علی” رحمانہ نے پرس کندھے پر ڈالتے ہوئے خوشی سے چیختے ہوئے بیٹے کو پکارنے لگی ‘علی۔۔۔۔چل بیٹا مجھے لے چل بازار’
‘کیا ہے امی۔’ علی نے بے زار سی آواز میں جواب دیا وہ ماں ان کی عادت سے بڑا تنگ تھا اور دالان میں پڑھتے پڑھتے ماں کی ساری گفتگو بھی سن رہا تھا۔
‘امی میں نہیں جا سکتا کل ٹیسٹ ہے میرا’ علی نےبہانہ مارا ‘ابو کو لے کر جائیں یاد ہے نا کل آپ کے پیسے ختم ہو گئے تھے شاپنگ کرتے کرتے اور ابو کا کارڈ بھی نہیں تھا پاس۔مجھے تو بڑی شرم آ ئی وہاں۔۔آج ابو کو ہی لے جائیں۔’
‘بہت اچھے بیٹا میرے گلے میں گھنٹی ڈالو’ امجد نے جل کر کہا۔
‘ہاں تو صحیح کہہ رہا ہوں۔خود لے کر جائیں امی کو۔۔۔’20 سالہ علی بولا
‘چل تو شرم کرتا رہ۔میں چلی جاتی ہوں تیرے ابو ساتھ۔’ رحمانہ نے چڑ کر جواب دیا پھر امجد کی جانب بڑھی،’امجد چلیں نا،کل شادی ہے سامنے۔۔سارے محلے کی خواتین نے نت نئے کپڑے بنوا لئے ہیں،مسز شازیب تو پارلر بھی بک کروا آئی ہیں اپنے میک اپ کے لیے اور آپ لوگ ہیں،میری تیاری ہی نہیں پوری ہونے دے رہے۔بازار کے چکر ختم ہوں تو میں پارلر جاؤں نا۔’ رحمانہ نے بے چارگی سے کہا۔
‘اف تو کیا ابھی پارلر والا مرحلہ بھی رہتا ہے،بیگم’
‘ہاں تو کیا اب میں محلے میں اپنی ناک کٹوا لوں،تیاری کے بغیر جاؤں شادی پر؟’
‘ارے یہ کب کہا میں نے،مگر بیگم یہ بھی تو دیکھیں نا ابھی پچھلے مہینے والی شادی پر جو میں نے قرض لیا تھا وہ ابھی اترا نہیں ہے۔تھوڑا ہاتھ ہولا رکھیں (تھوڑا خیال کریں)۔’ امجد صاحب نے عاجزی سے کہا۔وہ بیگم کو بھی ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے اورفالتو خرچوں سے بھی پریشان تھے۔ مگر بیگم کو محلے،گلی میں اپنی ناک رکھنے کی شدید آرزو رہتی۔وہ ایک تو دوسروں سے جلد متاثر ہو جاتیں دوسرےجھوٹی شوبازی کو اپنی شان سمجھتیں۔ ایسے ہی شو مارتے مارتے زندگی گزر گئی تھی مگریہ عادت نہ ختم ہو سکی۔اب تو امجد صاحب نے بھی ہار مان لی تھی کیونکہ وہ نفیس طبعیت کے آدمی تھے شروع شروع میں بیگم کو سمجھانے کی بہت کوشش کی مگرکوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر بیگم کی سن لی ۔اب یہ شو انہیں قرضوں کی نوبت تک لے آئی تھی۔پڑوسیوں،محلے والوں،خاندان والوں اور ہر ماجے گامے کی شادی ہر یہی ہوتا آیا تھا۔شادی والے گھر قرضہ چڑھے نہ چڑھے،امجد صاحب کے سر پر مسلسل قرض چڑھ جاتا اورکچھ سال بعد جب علی کی شادی آئی تو نوبت زیور بیچنے تک کی آ گئی مگراب علی چپ رہنے والوں میں نہ تھا۔وہ ایک پڑھا لکھا سلجھا ہوا جوان تھا اور ایسے خالی خولی شو بازی پر یقین نہیں رکھتا تھا۔
‘بیٹا تیری شادی ایسی ہو گی نا کہ سارا خاندان یاد رکھے گا۔کسی سے کم ہیں کیا ہم۔ایسی شان وشوکت کے ساتھ شادی کرنی ہے نا تیری سب سڑ جائیں گے۔ میں سب سے مہنگا برینڈ پہنوں گی،سب سے مہنگا شادی ہال بک کرواؤں گی اورسب سے زیادہ لائیٹنگ ہمارے گھر ہوگی،دیکھ تو بس۔آج ڈیٹ فائنل کی ہے بس اب تیاری دیکھنا ہماری۔۔۔۔’
‘امی سنیں،میں نے شادی نہیں کرنی۔آپ منع کر دیں لڑکی والوں کو’علی نے سنجیدہ منہ بنا کر کہا۔
‘کیا کہہ رہا ہے تو؟’ماں کے پاؤں کے نیچے سے گویا زمین نکل گئی۔
‘ہاں امی میں نے شادی نہیں کرنی۔یہ بھی بھلا کوئی شادی ہوئی میرا باپ قرضے میں ڈوبا ہوا ہے،تیرا زیور بک رہا ہے،میں بھی اپنی ساری سیونگز شادی میں جھوٹی شان و شوکت دکھانے میں لگا دوں’علی نے دوٹوک الفاظ میں کہا۔
‘ارے بیٹا یہ کیا کہہ رہے تم۔ہماری عزت ہے اس میں،،میں اپنی مرضی سے زیور بیچ رہی۔۔۔۔کہتا ہے تو تیرے امریکہ والے ماموں سے قرضہ لے لیتی ہوں’ماں نے تاویل دیتے ہوئے کہا۔
‘نہیں امی،یہ عزت کی بات نہیں ہے۔۔۔۔نہ مجھے ایسی جھوٹی شان و شوکت ظاہر کرنی کسی کو نہ شو مارنی۔۔۔۔میری شادی پر کوئی دکھاوا نہیں ہو گا۔سادگی سے نکاح اور پھر سادہ ولیمہ۔۔۔۔بس’
‘لیکن بیٹا۔۔۔۔’ماں نے کہا
‘بس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ شادی نہیں ہو گی’
علی کے چہرے پر بغاوت عیاں دیکھ کے رحمانہ نے زندگی میں پہلی بار گھٹنے ٹیکنے کا فیصلہ کیا اور پھر ان کی’سادہ’ شادی سب سے زیادہ شان و شوکت والی ثابت ہوئی!
فیس بک کمینٹ