علی پور کے ایک پس ماندہ گاؤں میں 55 سالہ کاشت کار عبدالواحد ہر بار کی طرح اس روز بھی دواؤں سے بھرا تھیلا لے کر سرکاری مرکز صحت پر پہنچ گیا۔ ٹوٹی کرسی پر براجمان ڈاکٹرعلی نے اسے اجنبی نظروں سے دیکھا
اس کا تبادلہ چھ ماہ قبل ہی اس گاؤں میں ہوا تھا۔ چھ ما ہ جو اس کیلئے چھ صدیوں کے برابر تھے۔ اب تگڑی سفارش مل گئی تھی اور جلد ہی اس علاقے سے جان چھوٹنے والی تھی
’’جی بابا جی، کیوں آئے ہو، آج تو ویسے بھی سرکاری چھٹی ہے ، ہماری چھٹی ہو نہ ہو مگر ڈسپنسر اپنے گھر گیا ہوا ہے‘‘
مجھے کچھ نہیں ہوا ڈاکٹر صاب نہ ہی میں کوئی دوا لینے آیا ہوں
آج 23 مارچ ہے نا، اسی لئے یہاں حاضر ہوا ہوں
آپ نئے آئے ہیں ، اس لئے مجھے نہیں جانتے
میں تو یہاں ہرسال کی طرح آج بھی کچھ دوائیں دینے آیا ہوں‘‘
عبدالواحد نے اسے جواب دیا
’’دوائیں دینے آئے ہو، کیا مطلب، تم یہ دوائیں دینے کیلئے یہاں کیوں آئے ہو، یہ تو سرکاری ہسپتال ہے ، کوئی عطیہ مرکز نہیں‘‘
ڈاکٹرعلی نے پوچھا
’’ڈاکٹر صاب، یہ دوائیں رکھ لیں ، مہربانی کریں، کسی کا فائدہ ہوجائے گا۔‘‘
علی نے اس سے تھیلا لیا اور اچٹتی نگاہ ڈالی،قیمتی دوائیں اور ویکسین معقول تعداد میں موجود تھی
ہسپتال میں یہ دوائیں نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے سرکار کی طرف سے ملنے کے کوئی امکانات تھے
’’اچھا ،تم کہتے ہو تو میں رکھ لیتا ہوں مگر اس کی کوئی رسید نہیں ملے گی اور تم مجھے یہ بھی بتاؤ کہ یہ دوائیں تمہارے پاس کہاں سے آئیں اور میرے پاس کیوں لائے ہو؟‘‘
ڈاکٹر علی نے بظاہر اس پر احسان جتاتے ہوئے کہا
عبدالواحد کی آنکھوں میں گہری نمی اترآئی
’’ڈاکٹر صاب، آج سے آٹھ سال قبل ،میرا چار سالہ بیٹا ، میری زندگی، میرا روشو ،ہرے اور سفید رنگ کے کپڑے پہن کر گلی میں کھیل رہا تھا۔
گلی میں آوارہ کتوں کے ایک غول نے اسے بھنبھوڑ ڈالا
ڈاکٹر صاب، میں خون میں لت پت اپنے بیٹے کو لے کر جب اسی ہسپتال میں پہنچا تو اسی کرسی پر بیٹھے آپ کی طرح کے ڈاکٹر صاب نے اس کی مرہم پٹی تو کردی مگر ساتھ ہی بولا
، ہمارے پاس کتے کاٹے کی ویکسین ہے نہ دوسری دوائیں، تم اسے فوراً شہر کے بڑے ہسپتال لے جاؤ
ڈاکٹر صاب، ہمارے شہر پہنچنے سے پہلے ہی میرا روشو اللہ میاں کے پاس پہنچ چکا تھا۔‘‘
عبدالوحد کی آنکھوں کی نمی برسات میں بدل چکی تھی اور ڈاکٹر کے ہونٹ اور ہاتھ کپکپا رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا مسیحا میں ہوں یا عبدالواحد ؟
فیس بک کمینٹ