ڈاکٹر جاوید اصغر کا اولین افسانو ی مجموعہ ’’ثمن اور چاندنی ‘‘ حال ہی میں کتاب سرائے نے شائع کیا ہے ۔یہ افسانوی مجموعہ 128 صفحات پر مشتمل ہے جس میں افسانو ں کی تعداد 28 ہے۔ انتساب اپنی شریک حیات ، بیٹوں اور بیٹی کے نام کیا ہے ۔ ابتدائی صفحات ڈاکٹر اسلم انصاری اور ڈاکٹر علمدار حسین بخاری کی آراء سے مزین ہیں۔ علمی و ادبی حلقوں میں جاوید اصغر کی پہچان ایک مزاح نگار کی ہے ۔جاوید اصغر نے لکھنے کا آغاز اوائل عمری میں ’’اخبارِ جہاں‘‘ سے کیا ۔ ’’ثمن اور چاندنی ‘‘ میں شامل افسانوں میں سے بیشتر افکار، روشنائی ، ادب دوست، معاصر کے علاوہ روزنامہ جنگ، اور نوائے وقت کے ادبی صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ یہ افسانے 1999ء سے 2015ء تک کے عرصے میں لکھے گئے ہیں ۔ہر افسانے کے آخر میں اس کا سنِ تصنیف درج ہے ۔جس سے مصنف کے ارتقائی سفر کا ادراک ہوتا ہے ۔ یہ افسانے تکینک ، پلاٹ اور ہیت کے اعتبار سے مختصر افسانوں کے ذیل میں ہی آتے ہیں۔ ایک ہی نشست میں کئی افسانے پڑھے جا سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے کہ افسانے مختصر ہونے سے اس کے فنی محاسن پر حرف آیا ہو ۔ اس افسانوی مجموعے کا اگر موضوعاتی مطالعہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان افسانوں کے موضوعات جانے پہچانے اور معاشرے میں اردگرد بکھرے نظر آتے ہیں ۔ان کے افسانے زندگی سے جڑے ہوئے ہیں۔ طبقاتی تقسیم ،معاشرتی جکڑ بندی ، مذہبی منا فقت ، صنفِ نازک سے روا رکھا جانے والا امتیازی سلوک ، دولت کی تلاش میں بیرون ملک جانے والے افراد ، اشرافیہ کے اختیارات کا ناجائز استعمال، سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضاد ، غربت وافلاس میں پسنے والا طبقہ ،فرقہ واریت ، دہشت گردی ،جذباتی وابستگی اور اس راہ میں آنے والی پیچیدگیاں ان کے افسانوں کے بنیادی موضوعات ہیں ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ مصنف نے بیشتر افسانے نوے کی دہائی میں لکھے ہیں مگر وہ موضوعات آج زیادہ شدت سے ہمارے معاشرے میں وقوع پذیر ہیں ۔ان کی سماج کی تلخیوں پر گہری نظر ہے ۔معاشرے کے ناہموار رویوں کا اظہار جب اپنے افسانوں میں کرتے ہیں تو ہم چونک جاتے ہیں کہ یہ ہمارے قرب و جوار کی ہی کہانی ہے ۔شاملِ کتاب اولین افسانہ ’’وائٹ بریسلٹ ‘‘ان کا شاہکار افسانہ ہے ۔جس میں انگریزی ادب میں ایم ۔اے کرنے والی ثمن اپنے استاد سے کئی بامعنی سوال کرتی ہے ۔
’’جب باپ زندہ تھا تو میں نے حیا کی چادر اوڑھ رکھی تھی اب بھائی اور میرے درمیان احترام کا پردہ حائل ہے سر!احترام کے نام پر یہ جبر کیسا ؟حیا کے نام پر اظہار جذبات پہ پابندی کیوں ؟‘‘
’’سر!کیا فطرت تمام انسانوں کیلئے یکساں نہیں بنائی گئی ۔اس سے لطف اندوز ہونے کا جتنا حق میرے بھائی کو ہے اتنا ہی مجھے ‘‘
’’سر! وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے قہقہے ، مہندی لگے ہاتھ ، کھنکتی چوڑیاں وہی مفہوم پائیں گی جو میں نے سوچا ہے ‘‘
’’سر!لگتا ہے صرف آقا تبدیل ہوئے ہیں ۔آدابِ غلامی وہی ہیں ۔مذہب کی چھاپ یہاں اور زیادہ ہے رسم و رواج کی دیواریں زیادہ بلند ہیں کسی سے وابستہ ہوکر قیدِ تنہائی کا دکھ زیادہ گہرا اور شدید ہے‘‘
یہ سوال ہمارے اجتماعی لا شعور کا حصہ ہیں ۔ہمارے ہاں آج بھی مردوں کی ذہنی تربیت کے بجائے صنفِ نازک سے تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کچل دیں ۔
دہشت گردی اور فرقہ واریت ہمارے معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں ۔’’نیلی آنکھیں ‘‘میں ساجدہ جب اپنے بہترین دوست اسلم سے سوال کرتی ہے تو زبان ، رنگ ، قوم اور لسان کے تعصب میں مبتلا اسلم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا
’’ہم اعلی تعلیمی اداروں میں پہنچ کر بھی اپنے ساتھ زبان و قومیت کے بت کیوں لے آتے ہیں ہم طلبہ کو ایک دوسرے سے کیا حقوق لینے اور دینے ہیں ۔وہ کوں سے اختلافات ہیں جو گولیوں کے بغیر حل نہیں ہو سکتے ‘‘
ایک اور افسانے میں خوشبو اپنے والد سے دریافت کرتی ہے ۔ ’’آپ تو کہتے ہیں کہ ہم ہندو معاشرے سے ہجرت کر کے آئے ہیں تو پھر آتی دفعہ ان کے ذات، برادری ،قوم اور قبیلے کے بت کیوں اٹھا لائے ہیں ‘‘
ان کے افسانو ں میں ہونے والے سوالات ہمارے ذہنوں پر ضرب لگاتے ہیں اور قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ہم بظاہراعلی وارفع اخلاقیات کے دعوے کرتے ہیں مگر حقیقت میں ہمارا معاشرہ کس قدر فرسودہ ،رجعت پسند ، تنگ نظر اور منافق ہے ۔ان کے افسانو ں میں دلچسپی کا عنصر بدرجہ اتم موجود ہے ۔ افسانہ جیسے جیسے اپنے اختتام کی جانب بڑھتا ہے قاری کے دل میں تجسس بڑھتا جاتا ہے کہ اختتام کیا ہو گا ۔ ان کے افسانوں کے بعض جملے قاری کو رک کر سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں
’’ہم نہ پورے مسلمان ہیں ، نہ ہندو نہ مغربی ۔ہم ملغوبہ ہیں ۔مفادات کے بندے ہیں ‘‘
جاوید اصغر کے افسانوں کا اہم عنصر سراپا نگاری ہے ۔فرد حالات کی غلام گردشوں میں زندگی کے دھکے کھا رہا ہوتا ہے اور ایسے میں اس کی نظر ایک دلنشین ، روشن ، چمکداراور زندگی کی معنویت عطاکرنے والے چہرے پر پڑتی ہے اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہے ۔ان کے افسانوں میں بیسویں جگہ اس صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے مگر دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ انفرادیت کا عنصر مفقود نہیں ہوا ۔ محبو ب کی سراپا نگاری کے بعد مصنف کی جس امر پر کامل دسترس ہے وہ معاملات محبت کا بیان ہے ۔مصنف کے اکثر افسانوں میں اوائل عمری میں ہونے والی جذباتی وابستگی اور معاملاتِ محبت کا ذکر ہے جس کا اختتام جدائی پر ہوتا ہے ۔ہمارے معاشر ے میں آج بھی الفت کو شجرِ ممنوعہ کی حیثیت حاصل ہے۔ زمانے کے نامساعد حالات تلخ حقائق بن کر سامنے آکھڑے ہوتے ہیں اور فرد کے پاس اپنی خواہشات کو پسِ پشت ڈالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا ۔جاوید اصغر کے افسانوں کے ذریعے ہم ان کی زندگی میں بھی جھانک سکتے ہیں ۔ان کے بیشتر افسانو ں کے پس منظر میں ان کی ذات دکھائی دیتی ہے ۔ خاص کر ان کا افسانہ ’’مشابہت ‘‘اس امر کا عکاس ہے ۔افسانوں میں ایک عرصے تک علامتی اسلوب کی حکمرانی رہی اور اس سے ابلاغ کے مسائل بھی پیدا ہوئے مگر جاوید اصغر کے اس خامی سے پاک ہیں ۔ان کا اسلوب سادہ اور عام فہم ہے ۔ بول چال کی زبان میں گفتگو کی ہے ۔قاری سے براہ راست مکالمے کے باعث ابہام اور غرابت نام کو نہیں ۔ نامانوس الفاظ اور تراکیب سے اجتناب کیا ہے ۔اگرچہ جاوید اصغر افسانے کے میدان میں نووارد ہیں مگر ان کے اولین مجموعے ’’ثمن اور چاندنی ‘‘ کے مطالعے کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اردو افسانے کی روایت میں بامعنی اضافہ ثابت ہونگے ۔
فیس بک کمینٹ