"کیا بتاؤں پیر صاحب یہ تیسرا ہفتہ ہے غزالہ کے جن اتر ہی نہیں رہے۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے میری بچی کو” اصغری نے روتے ہوئے پیرصاحب کو بتایا۔
"کیا ہو رہا ہے اسے”
سفید کپڑوں میں ملبوس، لمبی داڑھی والے پیر نے آنکھیں بند رکھتے ہوئے سوال کیا۔ وہ کچھ منہ میں پڑھ رہے تھے۔
"لڑکی کو تیز بخار، آنکھیں الٹی، جسم پر کپکپی اور آواز بالکل بدلی ہوئی ہے اس کی۔ہم نے باندھ کر رکھی ہوئی ہے منجی (چارپائی) سے۔ جن چڑھ جاتے اسے ہر دوسرے دن” ماں نے پریشان آواز میں کہا۔
"ہوں۔۔۔۔”پیر نے ایک لمبی سانس بھری،آنکھیں کھول کر اصغری کو دیکھا پھر بولا
"لڑکی کدھرہے؟”
"بچی گھر ہے پیر جی۔اس کے ابا اسے لاتے ہی ہوں گے ابھی”
اصغری نے بتایا
"ہوں۔۔۔نہیں نہیں ہم خود آتے ہیں تمہارے گھر۔۔۔۔اسے لانے کی ضرورت نہیں ۔اس کا جن بہت طاقتور ہے۔۔اس کا جسم ایسے نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ہمیں خود آنا ہو گا وہاں۔۔۔۔۔ٹھیک ہے آج شام مغرب کے بعد ہم آتے ہیں لڑکی کے جن نکالنے۔تم کچھ سامان ہے ضروری وہ تیار رکھو۔”
"جی پیر جی۔۔۔مریدنی صدقے جائے جی۔بتائیں بتائیں آپ کے لیے تو جان بھی حاضر ہے”اصغری مؤدبانہ بولی۔میں میاں کو منع کر دیتی ہوں جی۔
"ہوں۔۔۔ہم نے کیا کرنی اتنی بھاری بھرکم جان ۔۔۔۔بس تم جو سامان ہم بتا رہے وہ گھر منگوا کر رکھو۔ ہم ٹھیک مغرب کے بعد تمہارے گھر پر ہوں گے۔اور ہاں لڑکی کو باندھے رکھو۔اس کے جن بہت ظالم ہیں۔اس کے قریب بھی مت جانا۔”پیر نے سر ہلا کر آنکھیں چاروں جانب پھیرتے ہوئے کہا۔
"جی حکم کریں جی۔میں صدقے پیر صاحب۔۔۔بس میری بچی کے جن نکال دیں آُپ جو مانگیں میں دوں گی۔”اصغری نے جھک کہا اور ان کے پاؤں کو احتراماً چھونے لگی۔
"ہمارا مرید تمہیں بتا دے گا کیا کیا لانا ہے۔باہر جاؤ”
"جی میں صدقے۔۔۔۔”اصغری نے مؤدبانہ کہا اور باہر نکل آئی۔
پیر کا صحن مریدوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ ایک مرید کی طرف بڑھی جو پرچیاں دے رہا تھا۔ پھر دائیں ہاتھ پر ایک چھوٹے سے کمرے کے باہرسلام کرنے گئی جہاں اگر بتیوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔یہ کمرہ سالوں سے بند تھا اور اس کے بارے میں مشہور تھا کہ پیر کےغلام جن اس میں قید تھے۔عام لوگوں کے لیے وہ جن بھی بڑے معتبر تھے کیونکہ ان کے سارے مسئلے تو وہ ہی حل کرواتے تھے(گو خود قید میں تھے)۔اصغری بھی اس کمرے کی طرف بڑھی اورتالا لگے دروازے کو چوم کر نیاز کے100 روپے اس میں سوراخ میں سے ڈال دئیے۔
"پیر صاحب زندہ باد۔۔۔۔پیر کے جن زندہ باد” ایک مرید نے آواز لگائی "زندہ باد۔۔۔زندہ باد” اصغری نے جواباً کہا اور پھر تمام صحن جوشیلے نعروں سے گونج اٹھا۔ ساتھ مسجد سےاذان کی آواز آئی مگر کسی نے اس طرف دھیان ہی نہیں دیا۔
اصغری گھر واپس آئی تو اس کا تھکاوٹ سے برا حال تھا۔ایک تو پیر صاحب کے آستانے پر جا کر واپس آنا اتنا آسان نہیں تھا۔ وہاں بیسیوں تو قبریں تھیں۔۔۔پیر کے دادا، پردادا، نانا، پرنانا، خالہ، پھپھو۔۔۔ سب وہیں پر دفن تھے۔ایک کی قبرپربھی حاضری چھوڑی جاتی توپیر صاحب خفا ہو سکتے تھے۔اور آج اس نے بازار بھی تو جانا تھا نا پیر صاحب کی اپنے گھر آنے کی تیاری کرنے۔
آخر وہ مرید تھی ان کی اوربیٹٰی کو شفا دلوانا چاہتی تھی ان سے۔پس سارا وقت چولہے کے آگےبیٹھ کرپراٹھے اور سالن تیار کرتی رہی۔پھر کھیر،سلاد اور حلوہ بھی تو پکانا تھا۔آخر پیر صاحب نے یہی تو کہا تھا کرنے کو۔
دوسری جانب غزالہ تھی جسے منجی سے رسیوں سے باندھ کر ایک الگ کمرے میں چھوڑ دیا گیا تھا۔وہ خوفزدہ ہو کر ماں کو پکارتی تو ماں اور بھی ڈر جاتی مگر بچی کے باس جانے کی ہمت نہ کر پاتی۔
خیر اللہ اللہ کر کے مغرب کا وقت آیا۔اصغری بے تابی سے پیر جی کا انتظار کر رہی تھی۔اس کا میاں بھی کھیتوں سے واپس گھر پینچ گیا اور دونوں میاں بیوی پیر کا سامان بچی کے کمرے میں پہنچانے لگے۔
"میں لا تو رہا تھا غزالہ کو ساتھ” میاں نے کہا
"ہاں پیر بابا نے منع کیا تھا تجھے بتا تو دیا تھا میں نے فون پہ۔بابا نے بتایا بڑا ظالم جن ہے۔ وہ خود آ کے نکالیں گے ۔”
"چل اچھا ہے ہمارے گھر سے جن بھوت نکل جائیں گے سارے بابا کی برکت سے۔۔۔۔۔مگر یہ کیا ۔۔۔۔۔چار چادریں،دو سوٹیاں،دھاگہ،سوئی،بوری۔۔۔یہ کیسا سامان ہے،کیا جن کو بوری میں بند کریں گے۔”اصغری کے میاں نے سامان دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"چپ کر جاچپ۔۔۔پیر جی کے جن سن رہے ہوتے سب۔انہیں خبر پہنچ گئی نا تو بہت ناراض ہو جائیں گے۔”
"پھر بھی۔۔۔۔یہ سامان کیوں۔۔سارا پیسہ تو اس میں لگا دیا تو نے”
"پھر بھی پھر بھی کیا۔۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔۔۔کیا تو نہیں چاہتا کہ غزالہ ٹھیک ہو جائے؟کیا بچی نہ بچاؤں تیرا جمعی کیا پیسہ کیا قبر میں کے کے جائے گا کیا؟۔۔بس اب۔پیر صاحب پہنچتے ہی ہوں گے۔چل یہ برتن لگا ان کے لیے”
"برتن کاہے کے بھلی مانس؟” میاں نے حیرت سے منہ پر ہاتھ رکھا۔”پیر جی بھوت کو کھانا کھلائیں گے کیا؟”
"چل چپ کر جا۔ بے فضول باتیں نا کیا کر۔۔۔بس ان کا حکم ہےاور ہمیں ماننا ہے۔۔۔پیروں کو سوال نہیں کرتے گناہ ہوتا ہے”
"اچھا اچھا ناراض کیوں ہوتی ہے۔لے لگا دیے برتن بھی اور کھانا بھی سارا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آؤ آؤ جی جان صدقے پیر جی۔۔۔۔ہم واری جائیں آپ پر۔۔۔”میاں بیوی نے بڑے پیار سے پیر اور اس کے چار مریدوں کا استقبال کرتے ہوئے کہا۔
"واللہ۔۔۔بڑی بو آ رہی گھر سے۔۔۔۔۔کسی سفاک، خطرناک مخلوق کی بو۔۔۔۔”پیر نے چاروں کونے سونگھتے ہوئے کہا اور اپنی تسبیح تیزترپھیرنا شروع کردی۔
"اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔یہ کیا۔۔۔یہ کیا۔۔۔۔یہاں تو ایک نہیں تین تین جن ہیں۔۔۔۔اوہ ہو بڑی بد بو ہے۔۔۔”پیر کے مریدوں نےبھی ادھر ادھر سامان سونگھتے ہوئے کہا۔ "لگتا ہمیں ایک چکر لگانا چاہئے گھر کا سب سامان اور چیزیں چیک کرنی چاہیں”
"کرو جی کرو” دونوں میاں بیوی نے ڈر کر کہا۔
"لگتا ہے تم دونوں کو یہاں سے جانا پڑے گا ایسی مخلوق سے خاکی جان کو خطرہ ہو سکتا۔تم لوگ جاؤ اور لڑکی کا کمرہ ہمیں بتا دو۔۔۔”پیر اصغری کے چہرےکی سفیدی بھانپتے ہوئے بولا۔
"ہاں۔۔۔ہاں پیر جی۔۔ہم جاتے ہیں پھر آپ ہماری بچی کو بچالیں۔۔۔۔وہ یہ ساتھ والے کمرے میں ہے”اصغری کے چہرے پر خوف کی لکیریں واضح تر ہوتی جا رہی تھیں۔
"فکر نہ کرو۔۔تم نکلو بس”پیر نے ندیدی نظروں سے سامنے پڑے سامان اور کھانے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
اصغری اور میاں کے نکلتے ہی پیر صاحب نے کنڈی لگائی۔پھر لڑکی کے کمرے میں گھسے۔اس کو کچھ سنگھایا۔پھر کھانے کی طرف لوٹ کر ایک قہقہہ لگا کر کہا۔
"واہ کیا مزےدار کھانا ہے۔جلدی سے ہضم کرو پھر جن بھی نکالنے لڑکی کے۔۔۔۔ہا ہا ہا”
"جن تو آج ایسے نکالیں گے نا کہ بس۔۔۔ہا ہا ہا” مرید نے تائید کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مزہ ہی آ گیا آج یار۔۔۔واقعی۔۔۔۔کب کال کروں مودے کو گڈی(گاڑی) لانے کے لیے ڈھونگی پیر جی؟”ایک چیلے نےکھانے کے بعد مذاق سے کہا۔
"بس یار کام ختم کرو تے نکلو”پیر نے چٹکی بھرکےکہا۔پھر اپنی تسبیح ایک جانب رکھ کرسامنے پڑی چادراٹھائی اور اس میں گھرکا سارا سامان ڈالنا شروع کر دیا۔
"عامرے۔۔ٹیپ لگا دو جن بھوتوں کی آوازوں والی۔۔۔اور یاد ہے نا کیا کہنا ہے گھر والوں کو۔۔۔۔”
"کیا کہنا ہے استاد؟”چھوٹے مرید نے پوچھا۔
"یہی کہ سب جن بھوت لے گئے اور کیا کہنا ان بدھو میاں بیوی کو۔۔۔فٹا فٹا کرو بس اب” عامرے نے سفاک ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔
تے نال کم چائی رکھو( جلدی جلدی کام ختم کرو)”پیر نے ایک نعرہ بلند کیا اور تیزی سے سامان لپیٹتے ہوئے پچھلے دروانے کی جانب بھاگا۔
"فکر نہ کر استاد۔۔۔۔اج فر(آج پھر) جن نکال دئیے ہم نے سارے ” مرید نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا اور پیر کے ساتھ پچھلے دروازے سے رات کی تاریکی میں رو پوش ہو گئے!
فیس بک کمینٹ