’صبا کتنے سال ہو گئے ہیں شادی کو؟‘ اماں صفیہ نے بڑی حیرت سے پوچھا۔
’پندرہ‘ میں نے شرمندگی سے جواب دیا۔
’ہا۔۔۔۔۔۔اور ابھی تک اللہ نے تیری نہیں سنی‘۔ اماں نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے تشویش سے کہا۔ ان کے ماتھے پر لکیریں گہری ہو رہی تھیں۔
’نہیں اماں‘ میں نے آنکھوں سے نکلتے آنسو مشکل سے روکتے ہوئے کہا۔ میرا سر شرم سے جھک رہا تھا اور میری آواز بھی لرزنے لگی تھی۔خدا جانے میرے ساتھ ایسا کیوں تھا۔ ایک بیٹا ہی تو مانگا تھا۔قدرت کے خزانے میں کون سی کمی تھی جو مجھے اس عطا سے محروم رکھا گیا تھا۔ میری پڑوسن اماں صفیہ کے گاﺅں کی تھی وہ ان سے ہی وظیفے پوچھتی تھی۔جب میرے سسرال والوں نے آخری بار مجھے بانجھ ہونے کا طعنہ دیا تو رقیہ ہمارے گھر ہی تھی۔ اس سے رہا نہ گیا اور مجھے اماں صفیہ سے ملوانے کی ٹھانی۔ میرا شوہر بڑا سخت تھا اوپر سے ماں کے کہنے میں جلدی آ جاتا تھا۔اس سے پوچھا تو اس نے منع کر دیا کہ کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں جانے کی پہلے کوئی مَنت پوری ہوئی ہے جو اب وظیفے شروع کرنے لگی ہو۔میں نے بہتیرا سمجھانے کی کوشش کی مگر مجال ہے جو وہ ذرا بھی مانتا۔خیر میں نے آخری کوشش کے طور پر ایک دن اسے بہت پیار سے سمجھانے کی کوشش کی۔
’مشتاق، دیکھو مجھے جانے دو۔ کیا پتہ کچھ بن جائے، کیا پتہ ہمارے آنگن میں بھی کوئی پھول کھل ہی جائے۔‘
’نہ نہ اب میں بالکل اجازت نہیں دوں گا۔ پچھلی بار بھی تو جانے کس قسم کے پیر بابا کے پاس چلی گئی تھی، اس کی پھکی سے کیا کچھ افاقہ ہوا الٹا پیٹ میں درد ہی اٹھتے تھے نا۔‘
میں ایک دم سٹپٹائی کیونکہ مشتاق اس بارے میں نہیں جانتا تھا۔ اس کی خبر تو صرف اماں جی یعنی میری ساس کو تھی۔ خیر جلد ہی میں نے اپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے کہا،’نہیں نہیں ایسا نہیں تھا۔وہ تو بس ایک دفعہ ہوئی تھی نا۔‘
’ارے مجھ سے جھوٹ مت بول صبا۔ جب پندرہ سال سے نہیں ہوئی اولاد تو اب کیسے۔۔۔؟‘ مشتاق نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔’دیکھ ہم نے کون کون سا در نہیں کھٹکھٹایا دارالخلافے تک کے پیروں اور مزاروں پر گئے ہیں۔عبداللہ شاہ غازی، سچل سر مست، داتا، شاہ رخِ عالم، خواجہ غلام فرید ۔۔۔۔کس کس دربار پر نہیں گئے۔ کون کون سی منت نہیں مانی، دیکھو وہ طاق وہاں سارے چھلے تیری منتوں کے ہی تو پڑے ہیں۔ اب بس اب میں نہیں لے کر جا سکتا۔ نہیں دی اولاد خیر ہے۔‘ مشتاق بھی دل سے اولاد چاہتا تھا۔ جب کچھ بن نہیں پایا تو مایوس ہو گیا۔
’دیکھ مایوس نہ ہو۔ اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے ہماری مرادیں ضرور پوری ہوں گی۔‘
’نہیں، تو بس نہیں۔۔بس میرا سر نہ کھا۔‘ اس نے کھانے کی پلیٹ فرش پر مارتے ہوئے کہا۔
مشتاق جہاں اچھا تھا وہاں ضدی بھی بہت تھا۔ مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ وہ ماننے والا نہیں ہے مگر میں امید نہیں توڑنا چاہتی تھی۔مجھے آج بھی یقین تھا کہ میرے ہاں اولاد ضرور ہو گی ۔میں روز تہجد کے وقت یہی دعا کرتی تھی اور پیر بابا کا دیا دم کا پانی خود بھی پیتی اور مشتاق کو بھی دیتی تھی۔ میں نے اپنی ساری مرادیں ایک کاغذ پر لکھ کر طاق پر منت کر چھلوں کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں اور روز ان کو پڑھتی تھی۔ میں نے اللہ سے پوری ضد لگا رکھی تھی ایک منے کی۔اور یقین تھا کہ وہ ضرور پوری ہو گی کیونکہ میری پوری زندگی کا مقصد ہی ایک پیارا سا منا پانا تھا۔ مشتاق صحیح کہتا تھا ہم نے کون کون سے مزار پر حاضری نہ دی تھی۔ کون کون سے شہر کا سفر نہ کیا تھا۔ کس کس سے قرض نہ لئے تھے، دوسرے شہر کے سفر کے لیے۔میرا بس چلتا تو میں اللہ کے گھر تک چلی جاتی اور وہاں بیٹھ کر روتی پیٹتی کہ مجھے ایک بچہ دے دیں بس۔۔۔۔اور کچھ نہیں چاہئے تھا زندگی سے۔ پہلے مشتاق بھی میرا ساتھ دیتا تھا۔ شادی کے شروع شروع میں اس نے مجھے ہر ڈاکٹر،وید اور حکیم کو دکھا ڈالا تھا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا کیونکہ ڈاکٹروں کے مطابق ہم دونوں میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہم طبی طور پر بالکل ٹھیک تھے یا ڈاکٹر ہی نا اہل ہوں گے جو ہماری بیماری پکڑ نہ پاتے تھے۔ پھر ڈاکٹروں سے مایوس ہو کر ہم دونوں میاں بیوی نے پیروں کے چکر کاٹنے شروع کر دیئے جنہوں نے ہمیں دم درود بتائے اور بہت سی چیزیں پینے کو دیں ۔وہ ہمارے لیے ایک امید تھیں جسے ہم کھونا نہیں چاہتے تھے۔ اسی طرح جو کوئی ہمیں کسی مزار کے بارے میں بتاتا ہم وہاں ضرور جاتے۔ آخر ہم گناہ گاروں کی نہیں تو ان بزرگوں کے وسیلے سے ہی اللہ ہماری سن سکتا تھا۔
اس دن جب مشتاق نے منع کر دیا تو میں بہت روئی۔ وہ ایسے کیسے مجھے روک سکتا تھا۔ وہ تو خود ماں اور خاندان والوں سے اس بات پر بہت لڑتا تھا کہ دوسری شادی نہیں رچائے گا۔’شاید اس کا دل مجھ سے اچاٹ ہو گیا ہو۔شاید ماں نے کچھ سکھایا ہو۔شاید وہ مایوس ہو گیا ہو۔‘ میرے دل میں ہزار سوال اٹھے۔
خیر میں نے بھی ٹھانی ایک سعی ِلا حاصل ہی سہی میں جاﺅں گی ضرور۔ گھر والے کو نہیں بتاﺅں گی۔ پھرمیں نے ایسا ہی کیا۔ میں دوسرے دن اپنی پڑوسن کے ساتھ ماں صفیہ کی بیٹھک میں بیٹھی تھی۔ اماں اپنی چارپائی پر سفید دوپٹے میں ملبوس تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی بڑی اور ناک پتلی سی تھی۔ چہرے پر رعب تھا مگر دل کی نرم لگتی تھی اور عمر کوئی لگ بھگ ستر اسی کو چھو رہی تھی۔ مرید خواتین سے بیٹھک کیا اس کا ساری حویلی بھری تھی۔ کوئی اس کے پاﺅں دبا رہی تھی تو کوئی اس کے لئے حقہ تیار کر رہی تھی ۔اماں کی چارپائی کے پاس الماری پڑی تھی جس میں اس نے تعویذ اور موٹی موٹی کاپیاں سنبھال رکھی تھیں اور ایک کونہ تھا جس پر ایک بہت بڑی تصویر لٹکی تھی۔میری آنکھیں آنسوﺅں سے تر دیکھ کر اس نے اشارہ کیا میں جب پاس پہنچی تو میرے آنسو پونچھ کر گویا ہوئی،
’یہ تصویر دیکھ رہی ہے۔‘اس نے دیوار پر لگی تصویر کی جانب اشارہ کیا۔
’جی اماں‘
’یہ کون ہیں؟‘
’ مزار ہے لال شہباز کا۔‘میں نے بے دلی سے جواب دیا ۔مجھے غصہ تھا کہ اماں میرے کام کی بات پر کیوں نہیں آ رہی۔
’دیکھ بیٹی۔ہمارا سلسلہ ان سے ملتا ہے۔ ہم تو فقیر ہیں غلام لوگ ہیں۔ میں جو تیرے سامنے بیٹھی ہوں نا ان کی ہی وجہ سے ہوں۔ میری ماں کی بھی اولاد نہیں ہوتی تھی، پھر اس نے منت مانی کہ وہ لال شہباز قلندر کے مزار پر جا کر اولاد ہونے پر دیگ چڑھائے گی اور غریبوں میں نیاز بانٹے گی۔ اس نے ایسا ہی کیا اور میں پیدا ہوئی۔ تو بھی یہ نیت کر۔ دیکھ پھر میں بھی دعا کروں گی اور تیرے لیے تعویذ بھی دیتی ہوں۔‘
’ہاں ماں ہاں میں نے نیت کی۔۔۔۔‘میں امید کی کرن کی روشنی تیز ہونے پر جھوم اٹھی اور جلدی سے اقرار کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعے کو بیتے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ میں واقعی امید سے ہو گئی۔ مت پوچھیں کہ کیا دن تھے میں کیا ساری کائنات ہی جھوم رہی تھی۔ میرا شوہر، والدین، ساس، سسر، نندیں ۔۔۔ہم سب سرشار تھے۔ میری امیدیں رائیگاں نہ گئی تھیں اللہ نے۔مجھے ایک ننھا سا بچہ دے دیا تھا۔
’آ جا آ جا میرا پالا کاکا۔۔۔‘ ایک دن میرے میاں نے مجھ سے کاکا باہوں میں بھرتے ہوئے کہا۔ آج اس کا موڈ بہت اچھا تھا اور وہ مجھ سے کافی خوش بھی تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اس سے منت چڑھانے کی بات کر ڈالی۔پہلے تو سن کے اس کو برا لگا کہ میں کیوں اس کی اجازت کے بنا اماں کے پاس گئی تھی، پھر وہ منے کو دیکھ کر مسکرایا اور بولا ،’چل جا معاف کیا تجھے منے کی وجہ سے تو نہ جاتی تو شاید آج یہ میری گود میں نہ ہوتا۔‘
’ہاں نا ٹھیک کہتا ہے تو۔ میں تو کہتی ہوں ہم کل ہی نکلتے ہیں دیگ چڑھانے کو۔‘
’کل ہی۔۔۔۔ارے اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ ہم سندھ جا سکیں۔جانتی ہے کتنا لمبا سفر ہے۔ اورہم پہلے ہی سارا زیور بیچ چکے ہیں بڑے ہسپتال کے چکر میں۔ اور پھر ابھی مالک نے بھی تو پیسے نہیں دیئے نا ۔ مشتاق نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
’تو کیا ہوا،کچھ تو مالک سے مانگ لے کچھ منے کے کپڑوں کے لیے ماں نے بھیجے ہیں مجھے میں وہ دے دیتی ہوں تجھے بس کل ہی چل نا۔‘میں نے بے تابی سے کہا۔
’روک کچھ سوچنے دے۔کچھ دن دے مجھے میں لے جاتا ہوں۔‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر اللہ اللہ کر کے وہ دن آیا کہ ہم نے رختِ سفر باندھا۔ہماری گود میں منا ،آنکھوں میں شکرانے کے آنسو اور جیب میں کچھ روپے تھے جو ہم نے بڑی مشکل سے مانگ تانگ کے اکھٹے کیے تھے۔ ہم خوشی سے بے حال تھے جو پورے سولہ سال بعد ملی تھی جب کہ ہم دونوں ہی کی امید ٹوٹ رہی تھی بلکہ میاں کی تو ٹوٹ ہی چکی تھی۔راستے میں بہت سے علاقے آئے ان میں سے کچھ پر گاڑی رکی بھی مگر ہم دونوں بھوک سے بے حال ہونے کے باوجود کچھ نہ لیتے تھے۔ اگر لیتے تو دیگ کون چڑھا سکتا تھا۔
خیر پورے سات گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مشکل سے سیہون شریف پہنچے۔ یہاں ایک الگ ہی نظارا تھا۔زائرین کا ایک سمندر تھا جو وہاں موجود تھا۔ اتنے بڑے مزار میں بھی لوگ پورے نہ آ رہے تھے۔شام کا وقت تھا مگر پھر بھی مجال ہے جو شام کا گمان بھی ہو۔ یہ ایک عجیب ہی دنیا تھی۔لوگ کہاں کہاں سے نہیں پہنچے تھے بس ایک دفعہ حاضری لگانے کو۔ کوئی منت ماننے آیا تھا اور کوئی پوری کرنے۔ باہر طرح طرح کے ٹھیلے والے،چھابڑی والے اور دکانوں والے بیٹھے تھے۔ میرا پیاس سے برا حال تھا جب بالکل رہا نہ گیا تو مشتاق سے کہا ۔
’مجھے پانی لا دو۔‘
’لاتا ہوں لاتاہوں مگر دیکھو رش بہت ہے بچہ بھی تنگ ہو جائے گا اور اندر جانا بھی ضروری ہے۔ ایسا کرتے ہیں پہلے سلام کرتے ہیں ،دیگ دیتے ہیں پھر باہر آ کے جو پانی بھی پئیں گے اور چاول بھی کھائیں گے۔‘
’نہیں۔ مجھ سے چلا بھی نہیں جا رہا۔ایسے لگ رہا ہے جیسے الٹی آ رہی ہو۔چکر بھی آ رہے ہیں۔‘مجھے دائی نے سخت منع کیا تھا کہ ابھی کچھ عرصے کہیں سفر نہ کروں مگر میرا آنا ضروری تھا اس لیے میں نے اس بات کو نظر انداز کر دیا تھا۔ اب مشتاق کو بتاتی تو وہ اور ڈانٹتا اس لیے بس اتنا ہی بتانا کافی سمجھا اور بولی۔
’لیکن یہ سفر کی وجہ سے ہے۔ایسا کر چل چلتے ہیں سلام کے لیے پھر دیر ہو جائے گی۔‘
’دیکھ لے تو ٹھیک ہے نا۔‘مشتاق کو میرا چہرہ دیکھ کر کچھ شک سا پڑا اور اس نے منا میرے ہاتھ سے لے لیا۔’دے ادھر۔بس اپنے آپ کو سنبھال اور میرا ہاتھ پکا پکڑے رکھ آگے دھمال ہو رہی ہے۔کہیں گم نہ جانا۔‘
مجھ سے بچہ لے کر اس نے گلاب کی پتیوں والا چھوٹا سا شاپر مجھے تھمایا اور آگے بڑھنے لگا۔ وہاں کافی دھکم پیل تھی،لوگ ایک دوسرے کو کہنیاں مار مار کر جگہ بنا رہے تھے۔میں نے اپنے گھر والے کی انگلی پہلے کافی دیر کس کے پکڑے رکھی مگر رش اتنا زیادہ تھا کہ وہ مجھ سے چھوٹ گئی ۔اب میں کافی پیچھے تھی اور انہیں ڈھونڈ رہی تھی، بھوک اور چکر کی وجہ سے مجھے ویسے بھی زمین ہلتی محسوس ہو رہی تھی مگر جب مشتاق سے ہاتھ چھوٹا تو میں مزید گھبرا گئی۔ میرے پاس کوئی رابطے کا ذریعہ بھی نہیں تھا کیونکہ فون تو مشتاق ہی کے پاس ہوتا تھا اور پیسے بھی۔ ناچار و مجبور میں نے دو تین بار چیخ کر آوازیں دیں مگر اتنے شور، دھمال اور قوالیوں مین میری آواز کہیں دب کر رہ گئی۔ اب میں کیا کرتی اس کے پیچھے جاتی تو دھکوں سے شاید کہیں اور پہنچ جاتی اس لیے آخر میں سوچا پانی والے نل کے پاس جاتی ہوں کیونکہ مشتاق کو اسی کے پاس پانی پینے کو پوچھا تھا ۔ضرور وہ مجھے ڈھونڈتا وہیں آئے گا۔یہی سوچ کر الٹا مڑی اور بمشکل دو قدم ہی آگے بڑھی تھی کہ ایک کان پھاڑ دینے والی آواز اور کسی طاقت نے مجھے دور زمین پر لا گرایا۔میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا اور میں بمشکل ایک منظر دیکھ پائی۔ وہ تھا ایک ساتھ کئی اموات کا منظر!
میری آنکھیں بند ہو چکی تھیں مگر میں سن سکتی تھی۔۔۔۔چیخیں ، دھماکوں کی آوازیں، شور، بھگدڑ۔ میرا منتوں سے لیا ہوا منا اور پیار کرنے والا شوہر کدھر تھے مجھے کچھ ہوش نہیں تھا۔ میں ایک جانب لیٹی ہوئی تھی اور میرے اوپر سے کئی لوگ گزر کے جا رہے تھے۔ سب کو اپنی جان کی فکر تھی اور کیوں نہ ہوتی مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا بس مجھے کوئی میرے منے کا پتہ بتا دیتا۔ پھر کیا ہوا میں کچھ نہیں جانتی۔
کچھ دیر بعد بے شمار ایمبولینسوں، گاڑیوں اور پولیس والوں کو اپنے گرد دیکھا۔ ایک مرد میرے ہاتھ پیر مل رہا تھا دوسرا مجھے چادر دے رہا تھا اور ایک عورت مجھے اٹھانا چاہ رہی تھی۔بڑی مشکل سے میری آنکھ پوری طرح کھلی شاید میرا خون بہہ رہا تھا مگر مجھے اس کی پروا نہیں تھی۔’منا کدھر ہے۔۔۔۔مشتاق کدھر ہے۔۔۔۔۔منا کدھر ہے۔۔۔۔مشتاق کدھر ہے۔۔۔۔۔۔‘میں مسلسل بول رہی تھی۔
’بی بی ۔۔۔۔فکر نہ کرو۔۔مل جاتا ہے منا۔۔۔۔‘ ایک آدمی نے مجھے تسلی دینے کی کوشش کی وہ میری نظر مزار کے دوسری طرف کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ جب میں منے کا نام لیتی وہ میرا رخ مزار کی جانب نہ ہونے دیتا۔
آخر کچھ دیر تک میرے ہوش پوری طرح بحال ہوئے۔ مزار پر ایک قیامت برپا تھی۔لال شہباز کا مزار لالی میں ڈوبا تھا۔ ہر جانب لاشیں ہی لاشیں تھیں۔کچھ بچے ہوئے گوشت کے ٹکرے، ہڈیاں، ٹانگیں، بازو، جوتیاں، پرس، چاولوں کے لفافے بکھرے تھے۔ یہ مزار تھا یا ذبح خانہ۔ میں اپنے منے کو ڈھونڈنے کے لیے بھاگتی پھر رہی تھی اور مجھے روکنے کے لیے پولیس اور ایمبولینسوں والے میرے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔مجھے کچھ خبر نہیں تھی کہ میرے پاﺅں میں جوتی تھی کہ نہیں، سر پر چادر تھی کہ نہیں۔ چکر آ رہے تھے کہ نہیں۔میرا اپنا خون بہہ رہا تھا کہ نہیں۔۔۔۔۔مجھے اپنا منا چاہئے تھا!
میں بھاگتی رہی۔۔۔۔بھاگتی رہی۔۔۔۔۔میرا دل ڈوبے جا رہا تھا۔مشاق کہاں تھا کچھ نہیں جانتی۔ میں کیوں اس کے ساتھ نہ جا سکی تھی کچھ نہیں جانتی۔۔۔بس یہ جانتی ہوں کہ میرا منا نہیں تھا۔ کہیں بھی نہیں تھا۔ مزار کے اگلی جانب، پچھلی جانب، دائیں یا بائیں۔۔۔۔۔منا کہیں نہیں تھا۔۔۔۔بس ایک گوشے میں ایک منے کا پیا ہوا آدھا فیڈر اور اس کی ایک چھوٹی سی منت کی انگوٹھی والی انگلی پڑی تھی!!!
فیس بک کمینٹ