گزشتہ دنوں نیشنل بک فاؤنڈیشن ملتان کے دفتر جانا ہوا تو سامنے ہی ایک خوبصورت کتاب ”منتخب کلام غلام محمد قاصر“ دکھائی دی۔ یہ کتاب نیشنل بک فاؤنڈیشن نے رنگِ سخن سیریز کے تحت سمارٹ بکس کے طور پر شائع کی۔ یہ انتخاب برادرم شہاب صفدر نے کیا۔ غلام محمد قاصر کے کلام کے بارے میں ہم بعد میں بات کرتے ہیں پہلے ہم نیشنل بک فاؤنڈیشن کے متعلق آپ کو کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ ہمارا اس ادارے سے تعلق تب بنا جب ہماری آنکھوں نے اُن کی شائع کردہ کتابوں کو پڑھنا شروع کیا۔ ہمارے ہاتھوں کو وہ کاغذ بھلا لگتا ہے جو کتاب کی شکل اختیار کرتا ہے۔ میرا دل اچھے مصرعے پہ دھڑک اٹھتا ہے اور میرے ذہن میں کتاب میں شائع شدہ خوبصورت نثر محفوظ ہو جاتی ہے۔ مَیں کہا کرتا ہوں کہ کتاب میرا پہلا عشق ہے اور یہی آخری ہے۔ اگر میری زندگی میں کتاب نہ ہوتی تو میری زندگی میں چاروں طرف بدصورتیوں کا بسیرا ہوتا۔ کتاب کے عشق نے مجھے دوسروں سے ممتاز رکھا ہے۔ مَیں خوش قسمت ہوں کہ کتابوں کی خوشبو کو سونگھتا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے کبھی پرفیوم کی ضرورت نہیں پڑی۔ میری صبح کتاب پڑھتے ہوئے اور رات بھی کتاب کا مطالعہ کرتے تمام ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر کسی اشاعتی ادارے سے نئی کتاب کا ظہور ہو تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی دلکش ہو گئی ہے۔
بات ہو رہی تھی نیشنل بک فاؤنڈیشن سے شائع ہونے والی کتابوں کی۔ احمد فراز، مظہرالاسلام اور ڈاکٹر انعام الحق جاوید ۔ ان تینوں شخصیات نے نیشنل بک فاؤنڈیشن کو اپنے اپنے انداز میں چاہا۔ احمد فراز اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے عنوان سے ایک طویل مضمون مَیں پہلے رقم کر چکا ہوں جبکہ محترم مظہرالاسلام کی خدمات کے بارے میں مَیں کیا لکھوں بس اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ وہ جب نیشنل بک فاؤنڈیشن میں تشریف لائے تو انہوں نے پاکستان کی تاریخ کی خوبصورت ترین کتابیں شائع کیں۔ انہوں نے کتابوں کی اشاعت میں بالکل نیا انداز اپنایا۔ وہ اپنے کام کے خود ہی بانی ہیں۔ اور ہمیں اشاعتی دنیا میں اُن جیسا کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔ جناب مظہرالاسلام کے بعد نیشنل بک فاؤنڈیشن کے لیے ڈاکٹر انعام الحق جاوید ایک انعام کی صورت میں سامنے آئے۔ ڈاکٹر انعام نے آتے ہی سستی اور خوبصورت کتابوں کو شائع کر کے اس ادارے کو ایک نئی زندگی دی۔ خاص طور پر ڈاکٹر انعام نے اُن کتابوں کو شائع کیا جو قاری پڑھنا چاہتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کتابوں کی قیمتیں اتنی کم رکھیں کہ جو کوئی کتاب پڑھنے والا اُن کے شو روم جاتا ہے اور کم سے کم پیسوں میں بہت سی کتابوں کے ساتھ واپس لوٹتا ہے۔ انہوں نے اس ادارے میں آنے کے بعد سینکڑوں کتابیں شائع کیں جس کے بعد نیشنل بک فاؤنڈیشن کی کایا ہی پلٹ گئی۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید بھی میری طرح کتابوں کے جنون میں مبتلا ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کی شائع کردہ ہر کتاب کو دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ وہ کتاب ہر گھر میں ہونی چاہیے۔
بات کر رہے تھے ”منتخب کلام غلام محمد قاصر“ کی جن سے ہماری ملاقات تو کبھی نہیں ہوئی لیکن ان کی شاعری کو ہم نے ہمیشہ بڑی محبت سے پڑھا۔ تسلسل، آٹھواں آسمان بھی نیلا ہے، دریائے گماں اور ان کا کلیات ”اِک شعر ابھی تک رہتا ہے“۔ کلیات کی شاعری ہمیشہ میرے مطالعے میں رہی۔ غلام محمد قاصر 1970ء کے عشرے میں شاعری کے ذریعے سامنے آئے تو بہت جلد پڑھنے والوں کے محبوب بن گئے۔ اُن کے کلام کا بنیادی موضوع محبت اور محبت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے یہ کہا
کروں گا جو محبت میں ہو گیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اُن کی شاعری کی خوبصورتی یہ ہے کہ ایک مرتبہ جو ان کے کلام کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو پھر وہ وابستگی ختم نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ظفر اقبال جیسا شاعر اور نقاد اُن کے بارے میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ”غلام محمد قاصر کی غزل وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے میری غزل ختم ہوتی ہے۔“ قاصر کی شاعری اتنی خوبصورت ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اس شاعری کو اپنے پڑھنے والوں تک پہنچایا جائے کہ اچھا شعر اور اچھا خیال اب ہماری زندگیوں سے عنقا ہوتا جا رہا ہے۔
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اُس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
….٭….
نظر نظر میں ادائے جمال رکھتے تھے
ہم ایک شخص کا کتنا خیال رکھتے تھے
….٭….
وہ بے دلی میں کبھی ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں
تو ہم بھی سیرِ سماوات چھوڑ دیتے ہیں
….٭….
پہلے اِک شخص میری ذات بنا
اور پھر پوری کائنات بنا
حسن نے خود کہا مصور سے
پاؤں پر میرے کوئی ہاتھ بنا
….٭….
یہ بھی اِک رنگ ہے شاید مری محرومی کا
کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے
….٭….
مَیں نے پوچھا تھا کہ اخلاص کسے کہتے ہیں
ایک بچہ تری تصویر اٹھا لایا تھا
….٭….
حنا کے واسطے سکھیاں ہتھیلی اُس کی کھولیں گی
تو پہلی بار وہ سچی لکیریں جھوٹ بولیں گی
….٭….
کربلا نقش ہے اب لوحِ ابد پر کہ یہ شہر
پہلے مسمار ہوا بعد میں تعمیر ہوا
….٭….
تری باتیں تری خوشبو تری چاہت تری یادیں
دکانِ زندگی سے ہم یہی سامان لیتے ہیں
….٭….
4 ستمبر 1941ء کو ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی قصبے پہاڑپور میں پیدا ہونے والے غلام محمد قاصر کا انتقال 20 فروری 1999ء کو ہوا لیکن وہ اپنی شاعری کی وجہ سے ہمارے درمیان ہمیشہ موجود رہیں گے۔
اکیلا دن ہے کوئی اور تنہا رات ہوتی ہے
مَیں جس پل سے گزرتا ہوں محبت ساتھ ہوتی ہے
فیس بک کمینٹ