مشترکہ ہندوستان میں خواتین کی ہراسمنٹ کا کوئی تصور موجود نہیں تھا ۔عورتیں زیادہ تر باہر جاتی نہیں تھیں پرانے وقتوں میں عورتوں سے یہ توقع کی جاتی کہ وہ پردے کا خیال رکھیں بے وقت گھر سے باہر نہ نکلیں ، بیشک میرے نزدیک عورت کے حوالے سے احتیاط ضروری بھی ہے کہ اس کے ساتھ کوئی جرم سرزد نہ ہو جائے لیکن احتیاط کے ساتھ ساتھ معاشرے کو بھی پابند کیا جانا ضروری تھا کہ وہ خواتین اور گھریلو ملازمین یہ اختیار نہیں رکھتے کہ خدمات کر سکتے ہیں مگر کسی قسم کی زیادتی نہیں کر سکتے۔ جیسے جیسے معاشرے نے ترقی کی تو یہ محسوس کیا گیا کہ عورتیں بھی مردوں کے برابر کام کریں ایسا بھی وقت تھا کہ عورت کو نوکری کا نہ صرف طعنہ دیا جاتا بلکہ تعلیم کا راستہ یہ کہہ کر روکا جاتا کہ ہم نے انہوں نے نوکری نہیں کرانی کہ انہیں پڑھایا جائے ۔آ ہستہ آ ہستہ عورتیں تعلیم کی طرف آ ئیں مگر ابتدا میں ٹیچر کی نوکری تک محدود کیا گیا یہ خواتین کا نوکریوں کی طرف آ نے کا پہلا قدم تھا ۔
میری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ وہ تمام بہنیں سکول ٹیچر تھیں ، میری والدہ کا داخلہ میڈیکل کالج میں ہو گیا مگر والد نے اجازت نہ دی ۔یوں بی ٹی موجوہ بی ایڈ کر کے ٹیچر لگیں تو یہ بھی ایک مائینڈ سیٹ تھا معاشرے نے تبدیلی کی طرف بڑھنا شروع کیا اور خواتین دوسرے شعبوں میں آ نے لگیں ۔شروع میں نرسنگ کی طرف صرف مسیحی برادری کی لڑکیاں آ تی تھیں پھر مسلمان لڑکیوں کا رجحان بنا، پھر یہ ہر شعبہ ہائے زندگی حتیٰ کہ بری بحری ہوائی فوج کا حصہ بنیں یہ jobs میں آ ئیں مگر مردوں کا مائینڈ سیٹ کہیں یا male dominate معاشرہ کہیں ورک پلیس پہ ہراسانی کے واقعات رپورٹ ہونے لگے ۔
یوں ضرورت محسوس کی گئی کہ اس سلسلے میں قوانین اور سزائیں تجویز کرنا ضروری ہے یوں Protection against harassment of women act 2010 بنا یہ عورتوں کے تحفظ کا پہلا قانون تھا پھر کچھ ایسے واقعات ہوئے جو ورک پلیس کی تعریف میں نہیں آ تے تھے یوں ان قوانین کے دائرے کو مزید بڑھایا گیا اور تحفظ کو صرف خواتین تک محدود نہیں رکھا گیا یوں ترمیمی ایکٹ 2022 کے ساتھ سیکشن 509تعزیرات پاکستان کو شامل کیا گیا اس میں عدالتیں شاہراہیں کھیلوں کی جگہ جمنیزیم یا کوئی جگہ جو کام سے منسلک ہو ہسپتال تعلیمی ادارے وغیرہ وغیرہ مالک اور ایمپلائز کی تعریف بھی وسیع کی گئی آن لائن کام کرنے والے گھریلو ملازمین عارضی ملازمین وظیفے پہ کام کرنے والے رضا کار بھی شامل کیئے گئے شکایت کرنے والے کی تعریف میں عورت مرد ٹرانس جینڈر اور بچے بھی شامل ہیں نابالغ اپنے والدین یا سرپرست کے ذریعے شکایت درج کروا سکتے ہیں ۔
عموماً اس ایکٹ کے نام کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ شاید یہ صرف خواتین ورکرز کے متعلق ہے میرے خیال میں اس کا نام تبدیل کر کے ہراسمنٹ آف ویمن کی بجائے ہراسمنٹ آف پرسن ہونا چاہئیے محتسب کو شکایت کی درخواست دی جائے گی جو نوے دن میں فیصلہ دینے کا پابند ہے اگر جنسی ہراسمنٹ ہے تو تعزیرات پاکستان کا سیکشن بھی لگے گا اس میں وضاحت کرتی چلوں کہ ایک خاتون روزانہ رکشہ پہ آتی جاتی ہے رکشہ ڈرائیور ہراسانی کا مرتکب ہو تو یہ ورک پلیس کے زمرے میں نہیں آ ئے گا یہ تعزیرات پاکستان کا کیس ہے کے پی کے میں تعزیرات پاکستان کی دفعات ساتھ لگائی جاتی ہیں جو بہترین بات ہے۔ اس میں وضاحت کرتی چلوں کہ کوئی حرکت اشارہ لفظ جو کسی فرد کے لیئے خوف کا باعث ہو ہراسگی ہے اس میں گھورنا تعاقب کرنا تحریری طور پہ جنسی نوعیت کا پیغام بیہودہ اشارے اشتعال انگیز حرکات توہین آ میز اشارے جارحانہ ماحول پیدا کرنا سزا دینے کی کوشش نوکری کا جھانسہ دے کر کوئی غیر اخلاقی شرط رکھنا بصری زبانی تحریری سب اس میں شامل ہے عورت ہونے کی بناء پر امتیازی رویہ بھی ہراسمنٹ ہے اور ایک مرتبہ کی حرکت ہی کافی ہے جہاں بھی پروفیشنل کام ہو رہا ہے وہ ورک پلیس ہے مگر اس قانون کا ایک افسوسناک پہلو بھی سامنے آیا وہ اس کا غلط استعمال ہے بدلہ لینے کے لئے استعمال کیا گیا اور اس کی بہت سی مثالیں ہیں جس میں لاہور کے ایک پروفیسر صاحب پر غلط الزام لگایا گیا کہ وہ خودکشی کر گئے مجھے ملتان کا ایک واقعہ یاد ہے کہ لیڈی ہیلتھ وزیٹر ڈیوٹی سے غائب رہتی ڈاکٹر نے سرزنش کی تو قمیض پھاڑ لی اور ڈاکٹر پہ الزام لگا جو بعد میں بے گناہ ثابت ہوئے۔
ان واقعات کے تدارک کے لیئے سخت قوانین کی ضرورت ہے معاشرہ مزید ذلت کی طرف جا رہا ہے عورتوں اور بلیک میلرز مردوں نے ہنی ٹریپ کو مشغلہ بنا لیا ہے اس ہنی ٹریپ سے امریکی صدر نہیں بچ پایا بہر حال یہ سنگین جرم ہے سزائیں بھی سنگین ہوں گیں تو یہ لوگ جرم کرنے سے پہلے سو بار سوچیں گے مزید یہ کہ ہر ادارے کے فرائض میں شامل ہے کہ ہراسمنٹ کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں ایک خاتون ممبر کا ہونا ضروری ہے متاثرہ شخص کی درخواست پر کمیٹی تین دن کے اندر کاروائی کی پابند ہے مجرم کو سات دن کا نوٹس دیا جائے گا اگر پیش نہیں ہوتا تو یکطرفہ فیصلہ کر دیا جائے گا جرم ثابت ہونے پر بڑی سزا جبری ریٹائرمنٹ ہے جرمانہ ہےاور جرمانے کا ایک حصہ متاثرہ کو ملے گا کم سزا میں ترقی رک سکتی ہے انکریمنٹ رک سکتی ہے تنخواہ کی کٹوتی شامل ہے مگر قارئین آ خر میں کہوں گی کہ چند مثالیں جو میری نظر سے گزریں کہ دوسرے کی زندگی تباہ ہو گئ اسکے لیئے سنگین سزائیں بھی ضروری ہیں
فیس بک کمینٹ