کوہ کلّاہ چھپائی کے جمعرات آئی جے
جیہڑا اگڑ پچھڑ ویکھے اوہدی شامت آئی جے
راجے دی بیٹی آئی
آجا….
آجا….
28 سال پہلے جب ہم بہاﺅالدین زکریا یونیورسٹی کے شعبہ باغ و بہار (شعبہ اُردو) میں زیر تعلیم تھے۔ Facebook کے ”فن پارے تھے“ اور نہ ہی What App کے انگارے…. ان دنوں Imo کے لشکارے تھے اور نہ ہی Simکی تبدیلی کے شرارے…. آپ کا مطلوبہ نمبر کسی کے استعمال میں نہیں جیسے لقارے تھے اور نہ ہی Wrong Number کے بنجارے…. کال سینٹر پہ کام کرنے والے ”محنتی“ اور ”مجبور“ ”ذہین“ ”خرکارے“ بھی نہ تھے۔
بس تھا کمالیے کے موتیہ رنگ کے کھدر میں ملبوس آٹھویں سکیل کے سرکاری افسر کی طرح سفید پوش کی طرح ۔۔ بے چارہ پی ٹی ای ایل رضیہ کی طرح ہمیشہ ”غنڈوں“ میں پھنسنے کا متمنی رہا مگر محض سرکاری پیغامات کی وصولی اور ترسیل کے باعث مجرد سی زندگی گزار رہا ہے ….نیٹ کنکشن کی فراہمی کے بعد ”جراحی قلب“ کے ذریعے ”تبدیلی قلب“ کے باعث تو بالکل مجذوب سا ہوکر رہ گیا ہے۔
اگر سوشل میڈیا کی مذکورہ بالا سہولیات میسر ہوتیں تو آج بھی محترم روبینہ ترین کے پرچے ”تاریخ ادب اُردو“ کی سیلیاہ بھگتا رہے ہوتے۔
….اچانک ٹھنڈی ٹھار ہوا چلی…. تازگی کا سلوموشن میں جھونکا ابھرا…. سبک رفتاری سے قدم اُٹھاتی آنچل لہراتی…. البیلی سی متوالی سی مصباح کیانی شعبہ اُردو میں وارد ہوئی…. سب نے چلتے چلتے گردن کے مڑنے تک اسے دیکھا…. کلاس کی کرسیوں پہ ”موجزن“ طالبعلموں نے اظہار تشکر کیا کہ اس البیلی سی متوالی سی ہم جماعت سے 2 سالہ رفاقت تو لازم ٹھہری اگر یہ منظر آج منظر عام ہوتا تو مجال ہے ”افغان جلیبی“ ”معشوق فریبی“ کا ٹائٹل یونیورسٹی کے شعبہ اُردو سے ادھر اُدھر کھسکنے کی جرات کرپاتا….
مصباح کیانی کا اصل نام نوید مصباح کیانی ہے۔ اپنے بابا راجہ فوجی نذیر کی ”نوید صبح“ امّاں کی مصحو اور ہم سب دوستوں کی کیانی ہے…. اور کیا خوب ”کیانی“ ہے…. راجیوتوں والی اکھڑپن کی ”چھب“ دکھائی دیتی رہتی ہے۔
مصباح اگر میری کسی تحریر کا تخلیقی کردار ہوتا تو میں اسے من پسند عنوان دے دیتی…. جیسے ”ڈاکو رانی“…. ”پوستی“ ”وارث شاہ“ کی ہیر وغیرہ وغیرہ۔ لیکن مصباح تو جیتا جاگتا کردار ہے۔ میری سگی دوست ہے…. گلابی اُجلی رنگت کاسنی آنکھیں دراز قامت…. حسد اور رقابت سے بے نیاز۔ ”نوید مصباح کیانی“!کسی بھی شخص کا تذکرہ یا تنقید مقصود ہو تو لازم ہے کہ اسے ایک انسان کی حیثیت سے ہی پرکھا جائے…. کیونکہ انسان تو کبھی فرشتوں سا کبھی فرشتوں سے برتر اور کہیں قطعی طور پر متضاد اور متصادم۔
اس خاک و خطا کی پتلی میں بھی کئی خامیاں اور خوبیاں ہیں۔ مصباح کی شخصیت ”ملمع سازی، ریاکاری، جھوٹ سے مبّرا تو نہیں لیکن ناقابل یقین حد تک کم آمیز ہے! مثلاً اس نے زندگی میں بس ایک ہی دفعہ گہرا میک اپ کیا جب وہ دُلہن بنی۔ دُلہن بننے کا مقام لڑکی کی زندگی میں ایک ایسے پڑاﺅ کی طرح ہوتا ہے۔ جب زندگی بھر کیلئے ”سامان زندگی“ کی ”ملکیت کی تلاشی“ دےدی جاتی ہے اور قابل اعتراض سامان تلّف کردیا جاتا ہے۔ اور قابل قبول زاد راہ دُلہن کے ہمراہ کردیا جاتا ہے۔ مصباح کے زاد راہ میں…. کتابیں، تصویریں کچھ معصوم سی تقصیریں اور سونے چاندی کی زنجیروں میں لپٹی زمینی ملکیت کی چند تحریریں تھیں۔ مصباح عشق مجاز کی رمز آشنا تھی…. لہٰذا رُوح کو سجانے کا اہتمام کرنے کی قطعاً حاجت نہ تھی۔ اس نے اصل چہرے کیساتھ اصلی زندگی کا آغاز کیا۔ مصباح کیانی اپنے مجازی خدا کی سجادہ نشیں ہے۔ 3 بیٹیاں تو تخت پر قابض ہیں۔ مصباح کبھی کبھی ”درگاہ سجادیہ“ پہ صدر ممنون حسین کی طرح سجدہ پٹخ دیتی ہے ورنہ تو عموماً عمران خاں کی طرح پکار جیسی یلغار جاری رکھتی ہے!
وہ ایک فوجی راجے کی بیٹی ہے۔ مصباح کا باپ نام کی طرح کا راجہ اور فطرتاً ہمہ وقتی فوجی تھا۔ ماں…….. حقیقت پسند اور دور اندیش تھی۔ ماں کیلئے ضّدی اور اڑیل بچہ ہی زیادہ طالب توجہ رہتا ہے۔ باپ کے لاڈ اور ماں کی تنبیہ نے اسے ضّدی بنادیا تھا۔ ضّدی بچہ ماں کے رونگٹے کھڑے کردینے میں کبھی گریز نہیں کرتا۔ مصباح ماں کیلئے ہمیشہ ہی ”تامّل ناڈّو“ باشندہ بنی رہتی۔ ماں ہمیشہ اس کیلئے چوکنی رہتی…. مگر البیلی مصباح چڑیا کی طرح کھلی فضا میں اُڑان بھرنے کیلئے ہمیشہ چوکس…. باپ کی ہلہ شیری اور سرپرستی میں ہرنی کی طرح چوکڑیاں بھرتی جنگل چھان مارتی اور شام سمے چڑیا کی طرح پر سمیٹ کر ماں کی گود میں پرسکون ہوجاتی۔ فوجی باپ کی ساری دلداریاں اس میں رچ بس گئی تھیں۔ ماں تنبیہ کرتی…. مصحو…. ”شیشے جیسی سوچ نہ پال“…. زندگی کی سنگ ز نی سے بچ نہ پائے گی۔ ماں خواب کرچیوں سے خوفزدہ رہتی۔ پھر واقعی ایسا ہی ہوا…. بار بار ہوا اور ہوتا ہی رہا….
آزادی پسند مصباح اس عقیدے پر ہمیشہ قائم رہی۔
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کیلئے
شعری ذوق کا رچاﺅ…. صوفیانہ رمّق سے آشنائی۔ گفتگو میں اختصار اور اظہار میں جامعیت کے وصف سے مالا مال ہے۔ سماجی روّیوں پر بے ساختہ اور دو ٹوک تنقید کا فطری رحجان رکھتی ہے۔ تنقید نگاری کی طرف مزاج مائل پہ کرم مگر کاہل پسندی کے باعث مزاج یار برہم ہی برہم…. نقصان کس کا ہوا…. مصباح کی اپنی تحریری صلاحیت کا….
مصباح کی شخصی خامیاں اپنی ذات کیلئے ہی نقصان دہ ہیں…. مثلاً کسلمندی اور کاہل پسندی…. مصباح کاہل ہی نہیں کاہلی کا بحرالکاہل ہے…. ترتیب و نفاست اتنی پسند کہ کچن میں کھانا پکانے کی بے ترتیبی بالکل برداشت نہیں…. ملک شیک کو ہی مکمل غذا سمجھتی اور صبح و شام ایک نرس کی طرح اپنے اہل خانہ کو تجویز اور تقسیم کرتی ہے۔
مصباح دریائے جہلم کے کنارے گڈاری کے علاقے کی زمین زادی اور جاگیر زادی ہے۔ دریائے جہلم کا مٹی رنگا خاکی وردی میں ملبوس پانی کسی جوشیلے فوجی کی طرح جوان اور متلاطم ہے۔ دریائے جہلم کے مٹیالے پانی کے کنارے نرم و ملائم گداز مٹی سے کھیلتے گھروندے بنانا سیکھے تو مصوری کرنی آگئی۔ کبھی کبھار ایک مصورہ بن کر ابھرتی ہے تو باکمال تصویر بناکر پھر اپنی ذات کے کمبل میں سمٹ جاتی ہے۔ اس کی بنائی تصویروں میں عورت پر مردانہ حاکمیت اور ملکیت کی عکاسی نمایاں ہوتی ہے۔ پس منظر دیوار ہے تو روزن کے بنادیوار تو کبھی دروازے کے بنا چار دیواری…. کبھی زنجیر میں لپٹی عورت کے بندھے ہاتھ پاﺅں کیساتھ آنکھ پر گندھی پٹی تو کبھی زبان پر…. باقی سب تو ٹھیک مگر عورت کی زبان پہ پٹی تو مبالغہ ہے…. یہ پٹی نہ تو عورت کی کسی تحریر پر بندھی جاسکتی ہے نہ کسی تصویر پر اور نہ کسی تقریر پر۔
فوجی فاﺅنڈیشن کے ایک مقامی سکول میں اُردو اور آرٹ کی اُستاد کی حیثیت سے 10 سال خدمات سرانجام دیں۔ مریم ہوسٹل میں 2 سالہ مشترکہ قیام کے دوران واضح ہوا کہ وہ ہم سب دوستوں کے جیسے ہی معاشرتی اور سماجی ماحول کی پروردہ ہے…. کم عمری، نا تجربہ کاری کے باوجود سوچ کی بے باکی،پختگی اور بلند آہنگی آخر کہاں سے منعکس ہوگئی…. رفتہ رفتہ انکشاف ہوا کہ راجہ انور کی کتاب ”جھوٹے روپ کے درشن“ والی ”بیلا“ (آپی) نبیلہ کیانی ہی اس کی سوچ کا پھوٹتا چشمہ ہے!…. بیلا باجی ایک اعلیٰ اُستاد، فلاسفتر، فکری و ذہنی دلیری کی مالک عورت ہیں ان کی ادبی دلیرّیاں آج کل امریکہ جیسے ملک میں ادب اکیڈمی میں پڑاﺅ لگائے بیٹھی ہیں۔
مصباح کی نشانے بازی جیسی جملے بازی…. شان بے نیازی سے بہت سارے احباب خود ساختہ عشق کی بھٹی میں جلتے بجھتے رہے…. اور ان کا خود ساختہ ارتعاش آج بھی قائم ہے۔ مگر احترام بھری آنچ کی علمبرداری اور شرارت بھری ترنگ کی نظرکی آنکھ مچولی تو یادوں کے خزینے میں نگینے کی طرح جھلملاتی رہتی ہے! اور شعبہ اُردو کو ایک ”رنگساز“ اُستاد ڈاکٹر انوار احمد ”قوس و قزح“قرار دیتی ہے۔
مصباح انسانی روّیوں کا بوجھ ہو یا حالات کا نشیب و فراز شدت پسندی برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ درپیش آنے والے خطرے کو پہلے سے ہی بھانپ کر…. دونوں ہاتھ اُوپر اُٹھالیتی ہے اور ایسے دیکھتی ہے جیسے کہہ رہی ہو۔
”کس کے نہ ماریں میری جنڈری ملوک وے“
…. باجرے دا سٹہ ….
اپنے تصورات اور خیالات کو براہ راست ذہن سے منسوب کرتی ہے اور دوستوں کے خیالات کو مفروضات قرار دیتی ہے۔ لہٰذا ہم دوست اُسے ادب کے رُوسی تصوارت پڑھنے سے منع کرتے اور اس کے خیالات کی منطق سے مستفید ہونا ناپسند فرماتے ہیں۔ اپنے راجے اور بیٹیوں کیساتھ زندگی کے سفر میں محو سفر ہے۔ میں اسکو تنبیہ کرتی رہتی ہوں کہ وہ اپنے عورت پن کو ”ماسی پن“ سے تشبہیہ نہ دیا کرے۔ کیونکہ ”ماسیاں“ کتاب نہیں پڑتیں…. مصوری نہیں کرتیں۔ اپنے بچوں کو خود لکھنا پڑھنا نہیں سکھا پاتیں…. نہ کتابوں کا تحفة دیتی ہیں۔ نہ وصول کرتی ہیں۔ ماسیاں تو بس کمیٹیاں ہی کمیٹیاں ڈالتی ہیں….
اُن کے خون کی کمائی تو ان کے شوہر پی جاتے ہیں اور پسینہ اولاد کے نام پر ممتا جذب کرلیتی ہے! لہٰذا ہم اپنے علم کو عافیت سمجھ کر اور اپنی ممتا کو اعزاز سمجھ کر وہ سب کر گزریں…. جو تقدیر ہم سے کروانے پر تُل جائے….
سائے کا بھی ہم نے گر احسان لیا ہے
گھر کس کا ہے دیوار سے پہچان لیا ہے
فیس بک کمینٹ