کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے لوگ گزشتہ روز کی دہشت گردی اور حکومت کی طرف سے سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکامی پر احتجاج کررہے ہیں جبکہ داعش نے اب اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس سے پہلے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بھی یہ پیغام سامنے آیا تھا کہ اس نے لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر یہ حملہ کیا ہے۔ البتہ خبروں کے مطابق داعش کا دعویٰ زیادہ مصدقہ ہے۔ اس بارے میں تفصیلات تو پولیس اور تفتیش کرنے والے ادارے ہی فراہم کرسکتے ہیں لیکن داعش کی اس علاقے میں موجودگی اور اپنے ایجنڈے کے مطابق شیعہ آبادی پر حملے کا اعلان، پاکستان کے لئے خطرے کی نئی علامت سمجھا جانا چاہیے۔
داعش کا آغاز عراق میں ایک معمولی دہشت گرد گروہ کے طور پر ہؤا تھا، اس کی قیادت اردن کا ایک شہری ابو مصعب الزرقاوی کررہا تھا۔ زرقاوی نے القاعدہ کے لیڈر اسامہ بن لادن سے تربیت حاصل کی تھی لیکن فرقہ وارانہ بنیاد پر شیعہ آبادی کے خلاف دہشت گردی کی وجہ سے اس کے اسامہ بن لادن اور القاعدہ سے اختلافات پیدا ہوئے تھے۔ زرقاوی کی موت کے بعد اس گروہ نے ابو بکر البغدادی کی قیادت میں آئی ایس آئی ایس کے نام سے اسلامی خلافت کی بنیاد رکھی اور شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم عربی زبان میں داعش کے نام سے جانے والے اس گروہ نے وسیع خطہ زمین اور اس کے وسائل پر دسترس حاصل کرنے کے باوجود تشدد اور فرقہ واریت کا مقصد ترک نہیں کیا۔ اب جون 2014 میں قائم ہونے والی اسلامی خلافت کا خاتمہ کیا جاچکا ہے اور خبروں کے مطابق شام میں داعش کے جنگجوؤں سے آخری خطہ زمین بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ تاہم اس دہشت گرد گروہ سے وابستہ بیشتر لوگ لاپتہ ہوچکے ہیں۔ یہ لوگ عرب ممالک کے علاوہ افغانستان اور دوسرے مسلمان ملکوں میں روانہ ہو سکتے ہیں جہاں وہ مقامی انتہاپسند گروہوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔
داعش اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والے اکثر گروہ اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ فرقہ واریت کو فروغ دیتے ہیں اور اپنے نظریہ سے اختلاف رکھنے والے ہر شخص کو اسلام کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ داعش نے اسلامی خلافت کے دنوں میں پروپیگنڈا اور نیٹ ورکنگ کے ذریعے ایک طرف مغربی ممالک میں نوجوان مسلمانوں کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی تو دوسری طرف انہوں نے ہر اسلامی ملک میں اپنے ہمدرد پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چند ہفتے پہلے جب داعش کی مکمل شکست اور اتحادی افواج کی دہشت گردوں پر حتمی کامیابی کا اعلان کیا تو متعدد ماہرین کو اس بیان کی صحت پر شبہ تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ گروہ چونکہ ایک خاص طرح کے نظریہ کو فروغ دینے کا سبب بنا ہے، اس لئے ایک خطہ زمین پر دسترس سے محروم ہونے کے باوجود وہ دنیا کے امن کے لئے بدستور خطرہ بنے رہیں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی خلافت کے بھرے میں آکر مغربی ممالک سے جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ’جہاد‘ کرنے کے لئے شام گئے تھے اب ان کے اصل ممالک بھی انہیں واپس لینے سے گریز کررہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکہ نے تو جہادی دلہنیں کہلانے والی لڑکیوں کی شہریت منسوخ کرنے اور انہیں قبول نہ کرنے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا ہے۔ اس انتہائی فیصلہ کی بنیاد بھی یہ اندیشہ ہے کہ داعش کے اثر و رسوخ میں رہنے والے لوگ اپنے نظریہ کو تبدیل نہیں گے اور واپس آنے کے بعد ایک بار پھر انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ دینے اور کسی نئی شکل میں دہشت گردی کا آغاز کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ اندیشہ مسلمان ملکوں اور خاص طور سے پاکستان اور افغانستان کو بھی لاحق ہونا چاہیے۔ اسی لئے امریکہ کے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکی افواج کے انخلا کے بعد داعش یا ایسے دیگر دہشت گرد گروہوں کو پناہ نہ دینے کا نکتہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
افغان طالبان کو افغانستان میں جن دیگر دہشت گرد گروہوں کی طرف سے چیلنج کیا جاتا رہا ہے ان میں داعش کے حامی گروہ بھی شامل ہیں۔ پاکستانی حکام افغانستان میں داعش کی موجودگی پر تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں تاہم اہل پاکستان کو مسلسل یہ یقین دلانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے اور پاکستانی سیکورٹی فورسز نے داعش اور اس کے ہمدردوں کو پاکستان میں پاؤں جمانے کی اجازت نہیں دی۔ اگرچہ عوام کے لئے حکمرانوں کا یہ اعلان کسی حد تک اطمینان کا سبب بنا تھا لیکن اب کوئٹہ کی دہشت گردی میں داعش کا نام سامنے آنا اور اس کی طرف سے بلوچستان کی شیعہ ہزارہ برادری پر حملہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا اعلان تشویش اور پریشانی کا باعث بھی ہونا چاہیے۔
دہشت گرد گروہ کسی سانحہ کے بعد ذمہ داری قبول کرنے کے جھوٹے دعوے بھی کرتے رہے ہیں۔ اس قسم کا اعلان کرنے کا مقصد خوف کی فضا پیدا کرنے کے علاوہ خود اپنی اہمیت جتانا بھی ہوتا ہے۔ داعش کی طرف سے کوئٹہ حملہ میں ملوث ہونے کے اعلان کو پرکھتے ہوئے اس عنصر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی صرف اس بنیاد پر پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر سرگرم ایک عالمی شہرت یافتہ دہشت گروہ کی موجودگی کو نظر انداز کرنا بھی صریح غلطی ہوگی۔
داعش کے خطرے کو تسلیم کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے مؤثر حکمت عملی بنانے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ گروہ دنیا بھر کے ملکوں میں اپنے ہمدرد پیدا کرنے میں کامیاب رہا ہے جو شام میں اس کی شکست کے بعد بھی اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ہوسکتا ہے پاکستان میں داعش کے ہمدرد منظم نہ ہوں اور ان کے درمیان روابط بھی موجود نہ ہوں لیکن اس امکان کو نظر اندا از کرنا بھی ملک کی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔
اس حوالے سے دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ شام میں شکست کے بعد اب اس گروہ کی توجہ ایسے ممالک کی طرف ہو گی جہاں وہ پاؤں جما سکیں۔ شام میں اسلامی خلافت قائم کرنے والوں میں بھی اکثریت ان جنگجوؤں کی تھی جو متعدد مخلتلف ملکوں سے محض ایک خاص نظریہ کے تحت جمع ہوگئے تھے۔ یہ تحریک کبھی بھی عراق یا شام کے مقامی باشندوں کی نمائیندہ نہیں تھی۔ کیوں کہ یہ گروہ قومیت کا نیا تصور روشناس کرواتا ہے۔ اس لئے شام میں حالات دگرگوں ہونے کے بعد وہ ایسے معاشروں میں مضبوط ہونے کی کوشش کرسکتے ہیں جہاں کے سماجی حالات ان کے لئے سازگار ہوں۔ اسی لئے داعش نے افغان طالبان کے مقابلے میں افغا انستان میں قوت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
پاکستان کے حوالے سے آخری اور اہم ترین وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس ملک میں فرقہ واریت کی بنیادیں گہری ہیں۔ ایسے مدارس اور مبلغین کی کمی نہیں ہے جو اپنے مسلک و عقیدہ کے علاوہ ہر دوسرے مسلک کو مسترد کرتے ہیں۔ ملک میں مسلکی بنیادوں پر تشدد اور قتل و غارت گری کی تاریخ بھی پرانی ہے۔ لشکرجھنگوی اور اس قسم کے متعدد سنی گروہ شیعہ آبادیوں کے خلاف متحرک اور سرگرم رہے ہیں اور اسی طرح ایک زمانے میں شیعہ گروہوں نے بھی منظم ہونا شروع کردیا تھا۔ اس لئے اگر داعش فرقہ واریت کا ایجنڈا لے کر پاکستان میں متحرک ہونے کی کوشش کرتی ہے تو امن کی طرف لوٹنے والے پاکستان کو ایک نئے خطرہ اور چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے۔
کوئٹہ میں اپنی سلامتی کے لئے احتجاج کرنے والے ہزارہ لوگوں کی اس بات کو آسانی سے مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت انہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حالانکہ آرمی چیف بھی ہزارہ کا سابقہ دھرنا ختم کروانے کے لئے ہر ممکن اقدم کرنے اور ہزارہ کو مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کا وعدہ کرچکے تھے۔ لیکن پاکستان میں سیکورٹی فراہم کرنے کا مطلب حفاظت کے لئے زیادہ پولیس یا فوجی متعین کرنا لیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز سانحہ کے حوالے سے پولیس کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ چند درجن ہزارہ سبزی فروش سیکورٹی فورسز کی حفاظت میں سبزی منڈی آئے تھے۔
حکومت پاکستان کو اب یہ بات سمجھنا ہو گی کہ نہ تو ریاست اپنے سب شہریوں کو مسلح محافظ فراہم کرسکتی ہے اور نہ ہی اس طرح کے اقدام سے تحفظ کا احساس پیدا کیا جاسکتا ہے۔ یہ احساس پیدا کرنے کے لئے ملک میں فرقہ وارانہ مزاج کو ختم کرتے ہوئے اقلیتوں کے احترام کا ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے دعوے کرتا ہے لیکن کل صدر مملکت نے بھی اعتراف کیا ہے کہ اس سلسلہ میں ابھی کام ہونا باقی ہے۔ یہ کام سیکورٹی بڑھانے کی بجائے دوسرے عقائد و نظریات کا احترام کرنے سے ہی پورا ہو سکتا ہے۔ ہر شخص کو اپنی رائے اور عقیدہ رکھنے کا حق حاصل ہے لیکن ریاست کو یہ واضح کرنا ہے کہ عقیدہ یا نظریہ کی بنیاد پر دوسرے کو نشانے پر لینے والا ہر گروہ اور فرد ریاست کا دشمن ہے۔
اسی کے ساتھ بقائے باہمی اور احترام کا مزاج پیدا کرنے کے لئے بیان جاری کرنے کی بجائے ملک کے تعلیمی نظام اور درسگاہوں کے نصاب میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ یہ کام کیے بغیر پاکستان کو دہشت سے پاک کرنا ممکن نہیں ہے۔ کوئٹہ سانحہ کا یہ پیغام سمجھنا ضروری ہے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ