آن لائن جریدے گردو پیش میں شائع ہونے والی تحریروں کا انتخاب” گردوپیش4 “ رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کی ادارت میں شائع ہوگیا۔ رضی الدین رضی صاحب کو گردوپیش کا تسلسل برقرار رکھنے کیلئے اشتہارات و معاونین کے رویے کو وعدہ محبوب گردان کر جی دار عاشق کی طرح دیوانہ وار اپنے اوتار کیلئے خود کو ہی دان کرنا پڑا۔ ادبی دنیا میں جو رسائل ’’کماؤ پوت‘‘ جیسی جرات رندانہ کے حامل نہیں ہوتے اپنے خون جگر کےا لاؤ سے چراغاں کرنا ہی پاسبان قلم کا شعار ہے۔۔۔ رضی صاحب ایسے ہی پاسبان قلم ہیں جو ڈٹ جانے جیسی تہذیب کے امین ہیں! یہ شاید ان کی عادت بھی ہے اور مقدر بھی۔
گردوپیش کے شمارہ نمبر 4 کے عالمی منظر نامے میں چین کے خفیہ کیمپ میں مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن، لمبی داڑھی اور پردے کے قوانین اور پاکستانی خواتین کی مذہب تبدیلی کے علاوہ مسلم عورتوں کے برہنہ کرنے کے حقائق پر بی بی سی کی تحریر یں شامل ہیں۔ کالم کے ضمن میں آسیہ بی بی بھٹو اور نیلسن منڈیلہ کے یوٹرن نہ لینے و تحریک انصاف کے ثقافتی ورثے کے عنوان سے نصرت جاوید کی تحریر کے علاوہ 100 وومن سیزن کے موضوع تحاریر بھی شائع کی گئی ہیں۔
شاکر حسین شاکر کے کالم ’’چاہت میں کیا دنیا داری‘‘ سے گلبار بانو کے کالم کا اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
’’خوش شکل و خوش گلو‘‘ گلبہار بانو اسم باسمٰی تھیں انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تو ان کی آواز کو جب ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل سید انور محمود نے سنا تو انہوں نے نہ صرف اہم سرکاری تقریبات میں مدعو کیا بلکہ صدارتی ایوارڈ بھی دلوایا۔ محسن بھوپالی کی یہ غزل گلبہار بانو نے گا کر عالمی شہرت حاصل کی۔
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
فہمیدہ ریاض علم و ادب کی نامور شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ایک گوشہ مختص کیا گیا ہے۔ عشرت آفرین کا خوبصورت یاد نگاری ’’جب فہمیدہ ریاض کی ’’آواز‘‘ پہ چھایا پڑا سے سجا مضمون قاری کو دلگیر کردیتا ہے۔
فہمیدہ ریاض کی نظم ’’اب سو جاؤ‘‘ کا آخری بند۔۔۔
اور اپنے ہاتھ کو میرے ہاتھ میں رہنے دو۔
یہ ٹھنڈی سانس ہواؤں کی۔
یہ جھلمل کرتی خاموشی۔
یہ ڈھلتی رات ستاروں کی۔
بیتے نہ کبھی تم سوجاؤ۔
اور اپنے ہاتھ کومیرے ہاتھ میں رہنے دہ۔
گردو پیش 4 کے حصہ نمبر 4 میں ’’یادیں‘‘ کے عنوان سے رضا علی عابدی لیاقت علی ایڈووکیٹ، چوہدری محمود احمد اور مسعود قمر کے مضامین شامل ہیں۔ ڈاکٹر انوار احمد کے تخلیق ’’رفیق پہلوان Vs تاجی قبضہ مافیا سے ایک اقتباس۔
میری بدقسمتی یہ ہے کہ دُنیا میں میرے شکوے بھرے کالم کی شاید ایک یا دو ہزار فوٹو کاپیاں کراکے رفیق پہلوان نے تمام ملنے جلنے والے احباب میں تقسیم کردیں۔ جس کے بعد حبیب اللہ شاکر نے مجھ سے شکوہ بھی کیا کہ ڈاکٹر صاحب آپ ہی ہمیں کچھ بُرا بھلا کہہ لیتے، ہمیں رفیق پہلوان کے ہاتھوں یوں رسوا نہ کرتے۔ میں نے کہا یہ پمفلٹ بانٹنے کی ٹریننگ بھی تم نے ہی رفیق پہلوان کو دے رکھی ہے اس لیے بھگتو۔
طنز و مزاح کی تحریریں بھی دلچسپ اورپر مزاح ہیں آخری صفحات میں عالمی اور پاکستان کی عظیم شخصیات 2018 میں جو ہم سے بچھڑ گئی ان کی فہرست رقم کی گئی ہے۔
رضی الدین رضی صاحب اور شاکر حسین شاکر صاحب کی ادبی کاوشوں کیلئے نیک تمنائیں!
فیس بک کمینٹ