‘ایک دن جب ملتان کی جیل میں (مونجی سے) بان بنتے ہوئے میرے ہاتھ سے خون بہنے لگا تو میں نے سوچا کہ کہ زخمی ہاتھ دکھا کر جیلر سے ہسپتال چلا جاتا ہوں تاکہ کچھ دن آرام مل جائے۔ جب میں نے عاصمی صاحب سے مشورہ کیا تو انھوں نے بہت برا منایا۔ کہنے لگے بڑے بڑے صحافی جیلوں میں گئے تو انھوں نے محنت مشقت کی، لیکن مصلحت پسندی اختیار نہیں کی۔ تم کیسے نظریاتی ہو جو اس زخم سے گھبرا گئے ہو!’
سلیم عاصمی کے بارے میں اسلام آباد کے سینیئر صحافی ناصر ملک اس وقت کو یاد کر رہے تھے جب وہ دونوں ملتان جیل میں سنہ 1978 کی روزنامہ مساوات کی بحالی اور آزادی صحافت کی تحریک میں شامل ہونے کے جرم میں مارشل لا کی عدالتوں سے سزائیں پانے کی وجہ سے قیدِ بامشقت کاٹ رہے تھے۔ انھوں نے لاہور میں گرفتاری پیش کی تھی اور بعد میں انھیں ملتان جیل منتقل کر دیا گیا۔
لاہور کے صحافی نعیم الحسن کی ریسرچ کے مطابق، سنہ 1978 کی صحافی تحریک میں منہاج برنا اور نثار عثمانی سمیت چار سو کے قریب صحافیوں، ٹریڈ یونین لیڈروں، طلبا تنظیموں کے نمائندوں اور دانشوروں نے مارشل لا کے آزادی صحافت کے خلاف اقدامات پر ملک گیر احتجاج کرتے ہوئے گرفتاریاں پیش کی تھیں۔ سرکش صحافی سلیم عاصمی بھی اس تحریک میں پیش پیش تھے۔ اور جیل میں بامشقت قید کے دوران عام قیدیوں کے ساتھ ایک برس تک بان بنتے رہے۔
سلیم عاصمی کا تعلق جھانسی سے تھا، جی وہی جھانسی جس کی رانی نے انگریزوں کے خلاف کبھی سر نہ جھکایا۔ شاید ان کے خون میں گرمی کی یہی وجہ تھی۔ انڈیا کی اشرافیہ سے تعلق کے باوجود وہ ظلم کے خلاف کبھی خاموش نہیں رہتے تھے۔ عاصمی 24 نومبر سنہ 1934 میں جھانسی میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد وکالت کرتے تھے جبکہ ان کے دادا ڈپٹی کلکٹر رہے تھے۔ تاہم ان کی تعلیم و تربیت دہلی میں اپنے نانا، میر ناصر علی کے ہاں ہوئی۔
تقسیم ہند کے دوران جب دلی میں مذہب کے نام پر فسادات میں مسلمان ہندو بلوائیوں کا نشانہ بنے تو عاصمی کے خاندان والے پاکستان ہجرت کر گئے جہاں انھوں نے حیدرآباد سندھ میں سکونت اختیار کی۔ سکول کی تعلیم مکمل کر کے کراچی یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا اور کچھ دیر ادھر ادھر نوکری کرتے ہوئے ٹائمز آف کراچی میں اس وقت کے ایک بڑے صحافی اخیار صاحب کی نگرانی میں صحافت کا آغاز کیا۔
یہی وہ زمانہ ہے جب ان کی نظریاتی اساس بننا شروع ہوئی تھی۔ کراچی کی معروف صحافی بینا سرور کی ایک تحریر کے مطابق، یہ وہ زمانہ تھا جب بائیں بازو کے فعال سیاسی کارکنوں نے ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن قائم کی تھی جس میں ڈاکٹر سرور سمیت کئی معروف رہنما شامل تھے۔ ان ہی کے ساتھ سلیم عاصمی بھی طلبا سیاست میں شامل ہوئے۔
بعد میں وہ ملک کے بائیں بازو کے تمام بڑے بڑے دانشوروں اور رہنماؤں کے ساتھ شانہ بشانہ چلتے رہے۔ لیکن اس کے باوجود اپنی صحافتی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں انھوں نے اپنی نظریاتی اساس کو آڑے نہیں آنے دیا۔ عاصمی کی شخصیت پر ریسرچ کرنے والے کراچی کے ایس ایم شاہد لکھتے ہیں کہ عاصمی نے حسن عسکری سے کسب علم کیا، اردو اور انگریزی ادب میں ان سے رہنمائی لی جو کہ اپنے وقت کے دائیں بازو کے مستند ادیب و دانشور تھے۔
ایس ایم شاہد نے سلیم عاصمی کے کیے گئے انٹرویوز، مقالے اور کتابوں کے ریویز جمع کر کے سنہ 2012 میں ایک کتابی صورت میں شائع کیے۔ اسلام آباد کے سینیئر صحافی ایم ضیاالدین جو روزنامہ کے اس وقت بیورو چیف تھے جب سلیم عاصمی روزنامہ ڈان کی ادارت کی ذمہ داری نبھا رہے تھے، وہ کہتے ہیں کہ سلیم عاصمی پاکستان میں شاید واحد ایڈیٹر رہے ہیں جنھوں نے اپنے اخبار کے لیے ایک رہنما کتاب مرتب کی جِسے ‘تھیسارس’ کہا جا سکتا ہے۔
ضیا الدین کہتے ہیں کہ اس ‘تھیسارس میں انھوں ایک معیار بنانے کے لیے الفاظ کا تعین کیا تھا تا کہ رپورٹر سے لے کر سب ایڈیٹر تک سب کو معلوم ہو کہ الفاظ کے انتخاب میں کس کس طرح کی احتیاط کرنی ہے۔ ’میں نے پاکستان میں اُن سے زیادہ بہتر ’نیوز سینس‘ (خبر کی حساسیت کو سمجھنے والا) نہیں دیکھا۔ وہ کسی بھی اطلاع کو دیکھ کر بتا دیتے تھے کہ اس کی کتنی اہمیت ہے۔‘
لاہور کے معروف دانشور، صحافی اور انسانی حقوق کے متحرک رہنما، آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ ان کا سلیم عاصمی کے ساتھ تعلق پاکستان ٹائمز میں بنا تھا۔ عاصمی پاکستان ٹائمز میں سنہ 1959 میں ملازم ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ ٹائمز سے سول انڈ ملٹری گیزٹ چلے گئے جہاں انھوں نے ظہیر صدیقی کے ساتھ کام کیا۔ یہ ایوب خان کی جبریت کا دور تھا۔
رحمان صاحب کہتے ہیں کہ سلیم عاصمی پھر سول ملٹری گیزٹ سے دوبارہ پاکستان ٹائمز آگئے اور پھر یہاں کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ائر لائینز میں پبلک ریلیشنز ڈپارٹمنٹ میں ملازمت لے لی۔ لیکن وہاں دل نہ لگا اور کچھ عرصے کے بعد واپس پاکستان ٹائمز آ گئے۔ انھوں نے پاکستان ٹائمز کے پنڈی کے دفتر میں کام کیا اور پھر گرفتار ہوئے۔ ان ہی دنوں جب انگریزی روزنامہ دی مسلم کا آغاز ہوا تو اُس وقت کے سینیئر صحافی اور اخبار کے ایڈیٹر اے ٹی چوہدری کے ساتھ اس کے نیوز ایڈیٹر بن گئے۔
دی مسلم کا آغاز جنرل ضیاالحق کے دور میں سنہ 1979 میں ہوا تھا۔ لیکن صرف ایک برس بعد ہی مارشل لا اتھاریٹیز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا’۔ اور بالآخر ایک سو کے قریب صحافیوں اور اخباری کارکنوں کو اخبار کے مالک آغا مرتضیٰ پویا نے یک جنبشِ قلم ملازمتوں سے فارغ کیا اور فوجیوں نے آ کر ان تمام افراد کو دفتر سے باہر نکال دیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے موجودہ سیکریٹری جنرل ناصر زیدی اس وقت دی مسلم یونین کے صدر تھے، وہ کہتے ہیں کہ ‘تمام کارکنوں کے ساتھ عاصمی صاحب بھی سڑک پر تھے۔’
آئی اے رحمان کے مطابق، اس کے بعد عاصمی نے دبئی کے اخبار خلیج ٹائم میں نیوز ایڈیٹر کی حیثیت سے ملازمت کر لی جہاں جنرل ضیا کے مارشل لا کے خاتمے تک رہے۔ مارشل لا کے خاتمے کے بعد سلیم عاصمی پاکستان واپس آگئے اور روزنامہ ڈان میں نیوز ایڈیٹر کے طور پر ملازمت اختیار کرلی۔ اور پھر یہیں وہ بعد میں اسسٹنٹ ایڈیٹر بنے پھر اس کے ایڈیٹر بنے۔
ایم ضیاالدین کہتے ہیں کہ عاصمی نے روزنامہ ڈان کو ایک بوڑھے قارئین کے اخبار سے نوجوانوں کا اخبار بنا دیا، لیکن اس انداز سے کہ اخبار کے معیار پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ انھوں نے ڈان میں کئی نت نئی روایات متعارف کرائیں جن میں قابلِ ذکر’نیوز ایج’ ‘بُک اینڈ آتھر’ شامل ہے۔ کراچی کے صحافی خورشید تنویر کہتے ہیں کہ ‘بُک اینڈ آتھر’ اتنا معیاری تھا کہ ایک مرتبہ ایک انگلش جرنلسٹ نے خاص طور پر کہا کہ ‘اتنا بہترین کام تو ہم نے برطانیہ میں بھی نہیں دیکھا ہے۔’
آئی اے رحمان اِس وقت ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کی روحِ رواں ہیں۔ وہ کہتے ہیں ‘عاصمی صاحب کمیشن کے سندھ چیپٹر کے چھ برس تک وائس چیئرمین رہے اور انھوں نے انسانی حقوق کے دفاع کے لیے بہت زیادہ کام کیا۔ اور جب وہ وائس چئیرمین نہیں بھی تھے تب بھی وہ اس کاز کے ساتھ بہت کمیٹڈ رہے۔ وہ ایک پولیٹیکل اینیمل تھے، بائیں بازوں کے تمام رہنما ان کی رائے کا بہت احترام کرتے تھے۔’
رحمان صاحب کہتے ہیں عاصمی صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ‘صحافت، انسانی حقوق اور سیاست میں بے انتہا دلچسپی رکھنے کے ساتھ عاصمی آرٹ، موسیقی اور شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ وہ ایک آرٹ کلیکٹر تھے۔ آرٹ کے بہترین نقاد تھے۔ علی امام جیسے آرٹ کے نقادوں سے لے کر کئی دیگر ماہرین ان کی تنقید کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ ان کے پاس کلاسیکی میوزک اور غزلوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا۔’
‘آرٹ کا اتنا شوق تھا کہ اب اسلام آباد میں وہ روزنامہ مسلم کے اجرا کی تیاریاں کر رہے تھے تو کئی مہینے تک وہ صحافت کی تاریخ دیکھتے رہے اور اس میں خاص کر دنیا بھر کے اخبارات کے ڈیزائینوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ اور بالآخر انھوں نے اس اخبار کو ایک نئے تجربے کے ساتھ شروع کیا۔ اور یہ اخبار چند ہی دنوں میں پاکستان کا ایک بہترین اخبار سمجھا جانے لگا تھا۔’
سلیم عاصمی نے جہاں کئی تجربات کیے وہیں انھوں نے ایک دوسرے اخبار کی ایکسکلوسو خبر کو شائع کرنے کی روایت متعارف کرائی۔ سنہ 2001 میں روزنامہ اوصاف کے ایڈیٹر صحافی حامد میر نے اسامہ بن لادن کا انٹرویو کیا تھا۔ لیکن عاصمی نے یہ انٹرویو ڈان میں روزنامہ اوصاف کے ساتھ ایک ہی دن شائع کیا تھا۔ اخبار نے اس کی توجیہ یہ کہہ کر دی تھی کہ اس میں جوہری ہتھیاروں کی خبر تھی۔ تاہم اسامہ بن لادن نے کبھی جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیے اور نہ ہی کبھی ایسا ثبوت ملا کہ اسامہ کے پاس کوئی بریف کیس نیوکلیر بم تھا۔
سلیم عاصمی کے انتقال پر پاکستان میں بائیں بازو اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ہر سینیئر صحافی افسردہ ہے چاہے وہ انھیں ذاتی طور پر جانتا تھا یا نہیں۔ آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ ایک ایڈیٹر کے طور پر وہ بہت دور کی سوچتے تھے۔ ایس ایم شاہد جنھوں نے سلیم عاصمی کے انٹرویوز اور مضامین پر مشتمل ایک کتاب شائع کی ہے، وہ ان کے اور ان کے معاصرین کی زندگیوں پر ایک کتاب بھی شائع کرنے جا رہے ہیں۔
سلیم عاصمی کے جیل کے ساتھیوں میں کئی سینیئر صحافیوں کے نام بھی آتے ہیں، لیکن ان کی ناصر ملک کے ساتھ ایک بہت ہی قربت رہی۔ جو دی مسلم کے زمانے سے لے کر روزنامہ ڈان کے بعد بھی جاری رہی۔ ناصر ملک کہتے ہیں کہ انھوں نے روزنامہ ڈان میں ہوتے ہوئے جب عاصمی اس کے نیوز ایڈیٹر تھے، ایک مرتبہ پی آئی اے میں مفت سفر کرنے والے مسافروں کی فہرست کی خبر شائع کی۔
‘اس فہرست میں سلیم عاصمی صاحب کا نام بھی تھا۔ میں پریشان تھا کہ اگر میں نے ان کا نام دیا تو وہ ناراض نہ ہو جائیں۔ اس کے باوجود میں نے نام دیا اور وہ خبر ان کے نام سمیت شائع ہوئی۔ یہ جرات عاصمی صاحب جیسا ایڈیٹر ہی کر سکتا ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے بعد انھوں نے ذاتی طور پر وضاحت دی تھی کہ میرے دل کی دوسری سرجری بھی لندن میں ہونا تھی، پہلی مرتبہ تو ڈان نے اخراجات ادا کر دیے تھے، دوسری مرتبہ میں ادا کرنے کے قابل نہیں تھا۔’
سلیم عاصمی ایک خاموش مزاج شخص تھے، لیکن بقول آئی اے رحمان کے ‘منافقت کا راج ان کو چھو بھی نہ سکا۔ انھوں نے کبھی بھی اپنی رائے نہیں دبائی۔’
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے اُن کی موت کو صحافت کے ایک عظیم باب کا خاتمہ قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ سلیم عاصمی کی راہ پر چلتے ہوئے صحافیوں کی اپنے حقوق اور آزادی کے لیے جدوجہد کا سفر جاری رہے گا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )